باجرہ بارانی علاقے کی اہم ٖفصلوں میں سے ہے۔ جواریا چری کے برعکس باجرے میں چونکہ زہریلا مادہ (Prussic acid) نہیں ہوتا اس لیے اس کو پھول نکلنے سے پہلے بھی چارہ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
زمین اور علاقے:
اس فصل کے لئے اچھے نکاس والی میراوھلکی میرازمین بہتر رہتی ہے۔ اس کی جڑوں کا نظام بہتر کار کردگی کے لئے زیادہ مقدار میں آکسیجن طلب کرتاہے۔ اسی لئے اقص نکاس والی کلر اٹھی، چکنی اور بھاری زمینوں میں جہاں ہو ا اور پانی کا گزر کم ہوتا ہے۔ وہا ں یہ فصل اچھی پیداوار نہیں دیتی۔ باجرہ اگرچہ پنجاب بھرکی میرازمینوں میں اگایا جاسکتا ہے لیکن جنوب مغربی اضلاع ڈیرہ غازی خاں اور راجن پور میں زیادہ اگایا جاتا ہے۔
آب و ہوا:
باجرہ گرم اور خشک موسم میں بہتر افزائش کرتا ہے۔ اسکی جڑوں کی گہرائی مکئی اور چری کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے پانی کی کمی اور خشک سالی کافی حد تک برداشت کرسکتاہے۔ باجرہ کافی سخت جان فصل ہے۔ اسی وجہ سے خشک علاقوں میں دوسری فصلوں کی نسبت باجرہ کی سبز چارے اور اناج کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں باجرے کی مختلف اقسام مندرجہ ذیل تناسب سے کاشت کی جاری ہیں۔
- 50 % Pearl Millet (Pennisetum glasicum)
- 30% Proso, Foxtail
- 10% - Fingermillet (Eleusine coracan)
فصلی ترتیب:
پنجاب کے مختلف علاقوں میںیہ فصل مندرجہ ذیل ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے:
- کپاس (مارچ) گندم (نومبر) باجرہ (جون) بہاول نگر
- باجر (جولائی) گندم (نومبر) مونگ جون
- جنتر ( اپریل مئی) باجرہ (جولائی) کینولا یا رایا اکتوبر
- گندم (نومبر) جنتر(اپریل) باجرہ آخرجون)
- باجرہ یا موبگ (مئی جون) گندم (نومبر) باجرہ مئی جون
- گندم (نومبر) باجرہ یامونگ ( آخر جون) لوسن ( اکتوبر) بہاولپور
اقسام:
باجرے کی کئی اقسام ہیں۔ جن میں چائنٹ باجرہ، ایم،بی 87 ، الیف 786، کھانا وائٹ اور بی ایس 2000 زیادہ اہم ہیں۔ان کے علاوہ ,Y-84, Y-82 بارانی۔ 72، ولستان، BY-8206 اور BY-18 بھی زیِر کاشت ہیں۔ زرعی تحقیقاتی ادارہ سرکودھا کی نئی اقسام ایس ۔ 2005 آبپاشی علاقے میں بہتر ین پیداواری صلاحیت کی حامل ہے۔ دوغلی اقسام مثلاً پایو ئیٹر کمپنی کی 86-M33 اور 86 M52 کی دانہ پیدا کرنے کی صلاحی مذکو رہ اقسام کے مقابلے میں دوگنی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ایم۔بی 87:
یہ قسم مارچ میں کاشت کردی جائے تو جولائی کے آخر تک 2 تا3کٹا ئیاں دیتی ہے۔ اس کے بعد بیج بھی پکایا جاسکتا ہے یااگر ہر کٹائی کے بعد کھاد وغیرہ ڈالی جائے تو اسی فصل سے دس من بیج بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹا قد ہونے کی وجہ سے یہ قسم گرنے کے خلاف قوتِ مزاحمت رکھتی ہے۔
شرح بیج اور پودوں کی تعداد:
باجرے کا کم از کم 90 فیصد اگاؤ والا بیج غلہ کی صورت میں 4 کلوگرام جبکہ چارہ کی صورت میں 6-4 کلو گرام فی ایکڑ استعمال کیاجائے۔ اگر ہائبر ڈاقسام کی کاشت چوکے لگا کرکی جائے تو ڈیڑھ کلو بیج کافی ہوتا ہے۔ ایک ایکڑمیں 30 ہزار پودے ہوں تو بہتر پیداوار دیتا ہے۔
وقتِ کاشت:
بیج کے لئے جون کے آخر سے لے کر جولائی کے آخر تک کاشت کیا جائے۔ جبکہ چارہ کے لئے اپریل سے لے کر جولائی کے آخر تک کاشت کیا جاسکتاہے۔ مارچ میں کاشتہ باجرے کی زیادہ اگیتی کاشت سے اجتناب کیا جائے۔ مجموعی طورپر جولائی میں کاشتہ سنگل کٹ باجرہ چار ے اور دانے کی زیادہ پیداوار دیتاہے۔
طریقہ کاشت:
باجرے کی کاشت ڈرل کے ذریعے یا چوکے لگا کر کی جاسکتی ہے۔ دانے کے لئے کاشت کی صورت میں پودوں کا باہمی فاصلہ 9تا12 انچ جبکہ چارہ کی صورت میں 4 تا 6 انچ رکھا جائے۔ دانے کے لئے قطاروں کا باہمی فاصلہ 2 تا اڑائی فٹ جبکہ چارہ کی صورت میں چھٹہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن قطاروں میں کاشتہ فصل یکساں اگاؤ کی وجہ سے چارے اور دانے کی زیادہ پیداوار دیتی ہے۔ چنانچہ چارے کے لئے بھی ڈرل کی مدد سے تیس سینٹی میڑ یا ایک فٹ کے فاصلہ پر قطاروں میں کاشت کیا جائے۔
الف - دوغلی اقسام کاطریقہ کاشت:
باجرے کی دوغلی اقسام کو اڑھائی فٹ کے فاصلہ پر بنائی گئی کھیلیوں کے ایک طرف چھ چھ انچ کے فاصلہ پر چوکے لگا کر بھی بویا جاسکتا ہے۔چوکے سے کاشتہ باجرے کو دوتین فٹ قد کرنے پر مٹی چڑھائی جائے تو فصل گرنے سے محفوظ رہتی ہے اور اس سے مثالی پیداوار حاصل ہوسکتی ہے۔
کاشت بطور چارہ:
چارے کے لئے چھٹے کا طریقہ اختیار کیا جاسکتاہے۔ چارے کے طور پر مارچ سے لے کر اگست کے شروع تک کاشت کیا جاسکتاہے۔ مارچ کے آخر میں کاشتہ فصل مئی میں جبکہ جون جولائی میں کاشتہ فصل ستمبر میں ( سٹے نکلنے شر۔ وع ہو جائیں) چارے کٹائی کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔مئی جون کاشتہ چارے کو اگر دو بوری DAP اور زمینی ساخت کی مناسبت سے ایک تادو بوری یوریا ڈالی جائے تو اکتوبر نومبر تک 2 تا3 کٹائیاں دے سکتاہے۔ چارے کی اگیتی فصل میں اگر رواں بھی ملالئے جائیں تو اس کی غذائیت اور مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوجاتاہے۔
آبپاشی:
اس فصل میں پانی کی قلت برداشت کرنے کی کافی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔بلکہ درمیانے اور کم پانی سے پروان چڑ ھائی گئی دانے والی فصل بہتر پیداوار دیتی ہے۔ دو تین پانی لگانے سے باجرہ کامیابی سے اگایاجاتا ہے۔ پہلا پانی حتی الوسع تاخیرسے ( بوائی کے تین ہفتے بعد) لگائیں، دوسرا پانی پھول آنے پر اور تیسرا دانہ پکنے کے دوران لگائیں باجرہ زیادہ پانی برداشت نہیں کرتا۔ اگر بارش یا پانی زیادہ لگ جائے تو فالتو پانی جلد از جلد نکا ل دینا چاہئے۔ ورنہ نقصان ہوسکتا ہے۔
کھادیں:
زمینی زرخیزی ، وقتِ کاشت، اقسام کے فرق، طریقے کاشت، ذریعہ آبپاشی اور زمینی ساخت جیسے امور کے تغیرات مناسبت سے کھادوں کی مقدار میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔بیج والی فصل کو فاسفورس اور پوٹاش والی کھادیں زیادہ ڈا۔ لنے کی سفارش کی جاتی ہے۔
الف - کتنی کھاد ڈالی جائے؟
ہرقسم کے اوسط حالات کے پیشِ نظر چارہ کے لئے ایک ایکڑ میں ایک بوری ڈی اے پی اور ایک یوریا جبکہ غلہ کے لئے 2 بوری ڈی اے پی، ایک تادو یوریا اور ایک پوٹاش یا ان کے متبادل ( دوبوری زرخیز) ڈالی جائیں۔
ب - کھاد کب ڈالی جائے؟
ایک تہائی نائٹروجن ، جملہ فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقتِ کاشت ڈالی جائے۔ بقیہ نائٹروجن اور پوٹاش کاشت کے بعد 30تا40 دن کے اندر اندر تقریناً دو اڑھائی فٹ قد ہونے پر ڈالیں۔ ہر کٹائی کے بعد ایک بوری یوریا مزیدڈا۔ لنے کی سفارش کی جاتی ہے۔دانے کی بھرپور پیداوار حاصل کرنے کے لئے تین فٹ قد ہونے پر ایک کلو گرام 45:15:5 یا 44:3:14 گریڈ فی فولئر فر ٹیلا ئزر سپرے کی جائے۔
کیڑے اور ان کا انسداد:
شوٹ فلائی یا کونپل کی مکھی باجرے کو شدید نقصان پہنچاسکتی ہے۔ اگر امیڈا کلو پر ڈ 70WS یا کونفیڈار 5تا گرام یا یکٹارا 3تا5 گرام فی کلو فی گرام بیج کو لگا کرکاشت کریں۔ توفصل پہلے ایک ماہ تک شوٹ فلائی کے حملے سے محفوظ رہتی ہے۔ کونپل کی مکھی سے بچاؤ کے لئے دانے کے لئے کاشتہ باجرے کو کار بوفیوران 9 کلو گرام فی ایکڑ کے حسا۔ ب سے کونپلوں میں ڈالیں۔ا گراس ہاپر سے بچاؤ کے لئے سیون پچاسی 500 گرام فی ایکڑ یا اس کے متبادل زہریں سپرے کی جاسکتی ہیں۔
بیماریاں:
برکی دھبے ، گرین ائر، کانگیاری جیسی بیماریا ں اسکو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ان سے بچاؤ کے لئے نہ صرف قوتِ مدا۔ فعت رکھنے والی نئی اقسام کا انتخاب کیا جائے بلکہ حسبِ ضرورت 2 گرام ٹاپسن ایم فی کلوگرام یااس کے متبادل کوئی اور زہر بیج کو لگا کر کاشت کریں۔
جڑی بوٹیاں
آبپاشی علاقے میں کاشتہ باجرے کواٹ سٹ، مدھانہ ، سوانکی ، ڈیلا ، چولائی ، قلفہ، تاندلہ وغیرہ جبکہ بارانی علاقے میں مدھانہ ، برو، تاندلہ چبھٹر اور مبنی وغیرہ نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ ڈیلے کے سوا چوڑے پتوں والی بیشتر جڑی بوٹیوں تلفی کے لئے مکئی پر استعمال ہونے والی زہر پرائی میکسٹر اگو لڈ (زمینی ساخت ، موسمی حالات،زمینی وتر، جڑی بوٹیوں کی عمر اور اقسام کی مناسبت سے 250 تا 300 ملی لٹر فی ایکڑ) یا اس کے متبادل زہر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگاؤ کے 15 تا20 دن بعد ضروری تربیت لے کر مناسب وتر میں سپرے کی جائیں تو زہروں کی منفی اثرات سے بچاجا سکتا ہے۔ اگر چہ مکئی کے لئے اس زہر کی قدار400 ملی لٹر فی ایکڑ ہے لیکن گرم اور خشک موسم کے دوران یہ مقدار باجرے کی دیسی اقسام کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔دوغلی اقسام اس زہر کی قدرے زیادہ مقدار (300 ملی لٹر) برداشت کر سکتی ہیں ہمارا مشورہ ہے کہ باجرے پر زہروں کا استعمال ابتدائی تربیت لینے کے بعد کیا جائے ۔
برداشت، گہائی اور پیداوار:
اس کا چارہ عموماً 2تااڑھائی ماہ میں سٹے ظاہر ہونے پر کٹائی کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ جبکہ بیج کے لئے جولائی میں کاشتہ باجرہ اقسام تیار ہوتی ہے۔جبکہ بیج کے لئے جولائی میں کاشتہ باجرہ اقسام کی مناسبت سے 120 تا 130 دنوں میں اکتوبر نومبر میں تیار ہوتی ہے۔
باجرے کی گہا ئی:
اگر تھوڑے رقبہ پر کاشت کی گئی ہو تو ٹانڈوں کے چھوٹے سائز کے گٹھے بھی بنا ئے جاسکتے ہیں۔لیکن غلا والی جدید اقسام کے دانے سخت ہونے پر سٹے کاٹ کر الگ کئے جائیں اور دھوپ میں پھیلا دئیے جائیں۔ موسم کی مناسبت سے ہفتہ دس دن کے لئے روزانہ کی دھوپ میں الٹ پلٹ کر اچھی طرح خشک کیا جائے۔ خشک ہونے پر ڈنڈے یاتھر یشر کی مدد سے دانے الگ کئے جائیں۔ دوغلی اقسام کی گہائی تھریشر سے کی جائے تو دانے کا معیار بہتررہتا ہے۔
پیداوار:
اس وقت باجرے کا چارہ 300 من اور بیج پانچ چھ من فی ایکڑ حاصل ہوریا ہے۔ لیکن دیسی اقسام کے چارے کی پیداواری صلاحیت 600 من اور بیج کی 20تا22 من تک ہے۔گویا چارے کی پیداوار میں سو فیصد اور دانے میں چار سو فیصد اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ باجرے کی دوغلی اقسام کی پیداواری صلاحیت تیس تا چالیس من فی ایکڑ سے بھی زیادہ ہے۔
مارکیٹنگ، تر سیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ
اس کا بیج سال بھر دستیاب رہتاہے لیکن نومبر کے شروع میں نئی فصل کے مارکیٹ میں آنے پر ریٹ کم ہوجاتاہے۔ بطو ر چارہ جون جولائی سے اکتوبر تک آتا رہتاہے۔ اگرچہ باجرہ زیادہ آمدن والی فصل نہیں ہے۔لیکن جدید دوغلی اقسام کی بدولت دانے کی بھر پور پیداوار حاصل کرکے اسے ایک نفع بخش فصل بنایا جاسکتا ہے۔
پیداواری مسائل:
باجرے کی پیداوار کم ہونے کی وجوہات میں بیج والی فصل پر پرندوں کا حملہ، مارکیٹ میں زیادہ ڈیمانڈ نہ ہونا، مقامی طور پر بہتر اقسام کی کمی، کھادو ں کا غیر متناسب استعمال شامل ہیں۔
پیداواری عوامل کا حصہ:
اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں کا حصہ تقریباً 30 فیصد ، زمینی ہمواری و تیاری وکاشت و آبپاشی کا 20 فیصد، فصل کی برداشت ، گہائی اور مارکیٹنگ کا 20 فیصد اور متفرق اخرجات کا 10 فیصد بنتاہے۔ ان اخراجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں ہے۔
پیداواری اخراجات اور آمدن:
حالیہ سالوں کے دوران ذاتی زمین کی صورت میں دانے کے لئے باجرہ پیدا کرنے کا فی ایکڑ خرچ 20 ہزار روپے سے زیادہ بنتا ہے۔( پنجاب کے 10 تا 12 ایکڑ والے ایسے کاشتکار جن کو نہر ی پانی دستیاب نہ ہونا گزیر اطلاقی اخراجات شامل ہیں زمینی تیاری وکاشت 300، بیج 1000 کھادیں 6000، پانی 2000، جڑی ہوٹی 1000، کیڑے 1000، برداشت 2000، گہائی 1000، ٹرانسپورٹ وامارکیٹنگ 2000، متفرق 1000، کل 20000) بھر پور پیداواری ٹیکنالوجی پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ اگر موسمی حالات بھی سازگار رہیں تو 30 من غلہ پیدا ہوسکتاہے۔ دانے اور کڑب سے اجتماعی طورپر پچاس ہزار روپے کمائے جاسکتے ہیں۔ اگر باجرہ صرف چارے کے لئے کاشت کیا گیا ہے تو فی ایکڑ خرچ 10 تا 12 ہزار روپے بنتاہے۔ اس کی دو کٹائیوں سے 500 من چارہ حاصل ہوتا ہے۔ جسے فروخت کر کے تقریباً تیس ہزار روپے کمائے جاسکتے ہیں۔
نفع بخش کاشت کے اہم راز:
نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں دانے کے لئے دوغلی اقسام کاا نتخاب کرنا، کیمیائی کھادوں کا متناسب استعمال کرنا، کونپل کی مکھی سے بچانا ، جڑی بوٹیوں کو بچانا اور ضرورت کے وقت چارے کی دو بھر پور کٹائیاں پیداکرکے مار۔ کیٹنگ کرنا شامل ہیں۔