392 954 118 1.9k
Show Menu
  • Home
  • Cotton
  • Sugar
  • Wheat
  • Price
  • Weather
  • News
  • خبریں
  • Contact Us
  • زرعی رہنمائی
Read Later What is this ?

Eos decore disputando expetenda definitiones duo paulo193

Eos decore disputando expetenda definitiones duo paulo193

Eos decore disputando expetenda definitiones duo paulo193

Eos decore disputando expetenda definitiones duo paulo193

Eos decore disputando expetenda definitiones duo paulo193

Youtube Facebook Twitter Linkedin Pinterest Instagram

زرعی رہنمائی


سونا زنک

PAR Jul 7, 2020 193

فصلوں کی نشوونما کیلئے سونا بوران

PAR Jul 7, 2020 193

کھادوں کی سفارشات

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں ٹماٹر کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں پیاز کی کاشت حصہ ب

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں پیاز کی کاشت حصہ الف

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں شملہ مرچ کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں کریلا کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں بھنڈی توری کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں شکر قندی کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں دھنیا کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں مٹر کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں سونف کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں بند گوبھی کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

پاکستان میں چنے کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193
پچھلا 1 2 3 4 5 6 7 8 اگلا

سونا زنک

PAR Jul 7, 2020 193

زنک سلفیٹ (زنک 33 فیصد)

پودے اپنی نشوونما کیلئے درکار سولہ (16) غذائی اجزاء میں سے تین اجزاء (کاربن،ہائیڈروجن اور آکسیجن) ہوا اور پانی سے حاصل کرتے ہیں جبکہ باقی اجزاء زمین سے جڑوں کے زریعے جزب کرتے ہیں۔ان غذائی اجزاء کو پودوں کی ضرورت کے پیش نظر اجزاء کبیرہ ،ثانوی اور صغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اجزاء کبیرہ (نائیٹروجن،فاسفورس اور پوٹاش) ایسے اجزاء ہیں جو پودے اپنی نشوونما کیلئے زیادہ مقدار میں مطلوب ہوتے ہیں جبکہ ثانوی اجزاء (کیلشیم،مگنیشیم اور سلفر) جنہیں پودے اپنی نشوونما کیلئے اجزاء صغیرہ سے زائد مقدار میں استعمال کرتے ہیں۔اجذائے صغیرہ (زنک،بوران،آئرن،مینگانیز،کاپر،مولیڈنیم اور کلورین) وہ غذائی اجزاء ہیں جو پودے کو قلیل مقدار میں درکار ہوتے ہیں لیکن مقدار سے قطع نظر پودوں کی نشوونما اور پیداوار کیلئے ان غزائی اجزاء کی اہمیت کبیرہ اور ثانوی اجزاء سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔پاکستان کی زمینوں میں اجزائے کبیرہ کے ساتھ بعض اجزائے صغیرہ کی کمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے ان میں زنک کی کمی واضح طور پر نمایاں ہوچکی ہے۔

زنک اور انسانی صحت

زنک پودوں کی خوراک کا اہم جزو ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کیلئے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔زنک انسانی جسم میں وقوع پذیر کثیر حیاتیاتی عوامل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔عالمی اداراہ صحت کے مطابق انسانی خوراک میں زنک کی کمی بیماریوں اور اموات کا پانچواں بڑا سبب ہے۔زنک کا حصول صرف خوراک سے ممکن ہے کیونکہ انسانی جسم اسے تیار نہیں کر سکتا۔ زمینوں میں زنک کی کمی وہاں کی بیشتر آبادی میں زنک کی کمی ایک اہم سبب ہے اس لیئے انسانی جسم میں زنک کی ضرورت کو بذریعہ فصلوں وپیداوار کی زنک کلیدی (zinc fortification) اور زنک کھاد کے متناسب استعمال سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

زنک کم ہونے کی وجوہات

اس وقت دنیا کی 50 فیصد سے زائد زمینیں زنک کی کمی کا شکار ہیں۔ ایف ایف سی کی لیبارٹری میں 12 ہزار سے زائد تجزیہ کئے گئے مٹی کے نمونوں کے نتائج کے مطابق پاکستان کی 84 فیصد زمینں زنک کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پودوں میں زنک کی کمی سے پیداوار 20 فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔ زمین میں زنک کم ہونے کی چند وجوہات درج زیل ہیں۔

  • نامیاتی مادے کی کمی،اساسی کیمیائی تعامل اور چونے کے مرکبات کی زیادتی
  • زیادہ پیداواری صلاحیت والی فصلوں کی کاشت اور زنک والی کھادوں کا کم استعمال
  • زمینوں میں سیم، کلراٹھا پن اور نمکیاے کی زیادتی
  • زیادہ میگنیشیم اور کاربونیٹ والے پانی سے آبپاشی

فصلوں پر زنک کی کمی کے اثرات

زنک کی کمی نہ صرف فصلوں کی نشوونما پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ انکی پیداوار میں خاطر خواہ کمی کے باعث بنتی ہے فصلوں پر زنک کی کمی سے ظاہر ہونے والی علامات کی تفصیل درجہ زیل ہے۔

دھان: دھان میں زنک کی کمی کے اثرات لاب کی منتقلی سے 15 تا 20 دن بعد ظاہر ہوسکتے ہیں۔ پتوں پر گرد آلود بھورے دھبے بنتے ہیں جو دھاریوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ فصل زنگ آلود اور جھلسی ہوئی نظر آتی ہے کھیت میں بے قاعدہ اور رکی ہوئی نودار فصل ٹکڑیوں میں نظر آئے گی۔ شدید کمی کی صورت میں پتے کم چوڑے اور خشک ہو جاتے ہیں۔ جڑیں کمزور اور شاخیں (Tillering) بنانے کا عمل متاثر ہوتا ہے جبکہ مونجردانوں سے خالی لگتے ہیں۔

گندم: نئے پتے رگوں کے دونوں اطراف پہلے ہلکے سبز اور بعد میں پیلے ہوجاتے ہیں۔ شدید کمی کی صورت میں پتے چھوٹے، مکمل پیلے اور اوپر کی طرف مڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔تاہم پتوں کی درمیانی رگ سبز رہتی ہے۔بسااوقات پتوں کی سطح چکنی نظر آتی ہے۔ زنک کی کمی سے پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ گندم کی غذائی کوالٹی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

مکئی: زنک کی کمی کی علامات نئے پتوں کے نچلے آدھے حصے پر واضح نظر آتی ہیں۔ جن میں سفید یا زردی مائل لمبوترے نشان بنتے ہیں۔ دیگر علامات میں پودوں کا چھوٹا قد، پتوں کی مختصر جسامت، رگوں کے درمیان سبز مادے کا مرنا (کلوراسس) اور گانٹھوں کے درمیانی فاصلہ میں کمی شامل ہیں۔ شدید کمی کی صورت میں پورا پودا سفیدزردی مائل ہو جاتا ہے نشوونما جاتی ہے نشوونما جاتی ہے اور چھلیاں دیر سے لگتی ہیں۔

کپاس: پتوں کی رگوں کے درمیانی حصے جھلس جاتے ہیں یا سرخی مائل بھورے ہوجاتے ہیں۔ پودوں کی نشوونما کی کمیہوجاتی ہے اور شاخوں کا درمیانی فاصلہ کم رہ جانے کی وجہ سے پودے جھاڑی نما نظر آتے ہیں۔ پھول اور ٹینڈے بکثرت گرتے ہیں

ترشادہ پھل: پتوں کی رگوں کے درمیانی حصے زردی مائل ہوجاتے ہیں، پتے چھوٹے رہ جاتے ہیں اور گچھوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ پھول اور پھل کثرت سے گرتے ہیں۔ شدید کمی کی صورت میں رگوں کے علاوہ پتے کا تمام حصہ پیلا ہوجاتا ہے۔ پھل چھوٹا رہ جاتا ہے اور دیر سے پکتا ہے۔

سونا زنک کی دستیابی

پاکستان کی زمینوں میں زنک کی بڑھتی ہوئی کمی کے پیش نظر فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے اعلی'معیار کی درآمد کردہ کھاد سونا زنک کاشتکاروں تک بہم پہنچانے کا اہتمام کیا ہے جس میں خالص زنک کی مقدار 33 فیصد اور تھیلی کا وزن 3 کلو گرام ہے۔ یہ ہر قسم کے موسمی حالات اور آب و ہوا میں یکساں موثر ہے۔سونا زنک پانی میں حل ہوکر پودوں کوجلد دستیاب ہوجاتی ہے۔

سونا ذنک کی افادیت

  • سونا زنک پودوں میں بڑھوتری کیلئے اہم مرکب آگزن (Auxin) بنانے میں مدد کرتا ہے جس سے پودوں کی شاخیں اور کونپلیں زیادہ بنتی ہیں۔
  • سونا زنک پودوں میں مختلف پروٹین اور نامیاتی مرکبات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
  • سونا زنک گندم، چاول، مکئی وغیرہ میں سٹوں کی لمبائی، دانوں کی تعداد اور وزن میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ان کی کوالٹی اور پیداوار میں بھی اضافہ کرتا ہے۔
  • ونا زنک پودوں میں بیماریوں اور غیر موافق حالات کے خلاف مدافعت پیداوارکرتا ہے۔
  • سونا زنک گنے اور چقندر میں چینی کی تیاری میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔
  • سونا زنک سبزیوں اور پھلوں کی بہتر نشوونما، رنگت اور پیداوار اضافہ کرتا ہے۔
  • سونا زنک کے استعمال سے ترشادہ پھلوں کے پتے مناسب سائز کے بنتے ہیں جبکہ اس کا استعمال دیگر پھلداردرختوں مثلاً سیب، ناشپاتی، انگور، آڑو وغیرہ کے پتوں کو بد شکل، گچھا نما اور چھوٹا ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔

سونا زنک کی سفارشات

زیادہ اور منافع بخش پیداوار کیلئے کھادوں کا بروقت اور متناسب مقدار میں استعمال بہت ضروری ہے۔ کھادوں کی مقدار کا انحصار زمین کی زرخیزی، فصل کی ضرورت، پانی کی دستیابی اور پیداواری ہدف پر ہوتا ہے۔ اس لیئے ضروری ہے کہ زمین کا تجربہ کروالیا جائے اور زمین کی زرخیزی کے مطابق کھادوں کا متناسب استعمال کیا جائے۔ فوجی فرٹیلائزر کمپنی اجزائے کبیرہ کے ساتھ ساتھ اجزائے صغیرہ کے تجزیہ اور سفارشات کی سہولت بھی مفت بہم پہنچارہی ہے ۔تاہم اگر آپ نے زمین کا تجزیہ نہیں کروایا تو زنک کی طب کے لحاظ سے فصلوں کی درج زیل عمومی سفارشات پر عمل کریں ۔

مقدار و طریقہ استعمال

فصل

مقدار

وقت استعمال

چاول

6 کلو گرام یعنی 2 تھیلے

لاب لگانے کے 10 سے 15 دن بعد ڈالیں

گندم، کپاس، آلو، گنا، مکئی

6 کلوگرام یعنی 2 تھیلے

کاشت کے وقت استعمال کریں

مرچ، پیاز اور دیگر سبزیات

6 کلو گرام یعنی 2 تھیلے

پھول آنے سے پہلے استعمال کریں

آم، سیب، امرود اور ترشادہ پھل کے باغات

6 کلوگرام یعنی 2 تھیلے

پھول آنے سے پہلے پودوں کی چھتری کے نیچے ڈالیں

نوٹ: کھیت میں یکساں تقسیم کیلئے سونا زنک کی سفارش کردہ مقدار کو5 گنا باریک مٹی میں ملانے کے بعد چھٹہ دیں۔


فصلوں کی نشوونما کیلئے سونا بوران

PAR Jul 7, 2020 193

( بوریکس کم سے کم 10.5 فیصد بوران )

فصلوں کی نشوونما کیلئے درکارسولہ (16) غزائی اجزاء (کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن) پودے ہوا اور پانی سے جزب کرتے ہیں۔ ان غذائی اجزاء کو پودوں کی ضرورت کے پیش نظر اجزائے کبیرہ ثانوی اجزاء اور اجزائے صیغرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اجزائے کبیرہ نائٹروجن،فاسفورس اور پوٹاش ایسے اجزاء جو پودے زمین سے زیادہ مقدار میں حاصل کرتے ہیں جبکہ ثانوی اجزاء کیلشیم میگنیشیم اور سلفر ایسے غذائی اجزاء ہیں جنہیں پودے اجذائے کبیرہ کی نسبت کم لیکن اجذائے صیغرہ سے زائد مقدار میں استعمال کرتے ہیں۔ اجذائے صیغرہ (زنک، بوران، آئرن، مینگانیز، کاپر ،مولیبڈ نیم اور کلورین) وہ غزائی اجزاء ہیں جنہیں پودے قلیل مقدار میں جزب کرتے ہیں۔ لیکن مقدار میں جزب کرتے ہیں۔ لیکن مقدار سے قطع نظر پودوں کی نشوونما اور پیداوارکے لیئے ان اجزاء سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ پاکستان کی زمینوں میں اجزائے کبیرہ کے ساتھ ساتھ بعض اجزائے صغیرہ کی کمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے ان میں زنک کے ساتھ ساتھ بوران کی کمی واضح طور پر نمایاں ہوچکی ہے جس سے ہماری فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار اور کوالٹی متاثر ہورہی ہے۔مختلف فصلوں مثلاً کپاس، گندم، چاول، مکئی، چقندر اور سورج مکھی کے ساتھ ساتھ باغات اور سبزیوں میں بھی بوران کی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

بوران کی کمی کی وجوہات

پاکستان کے زرعی تحقیقاتی اداروں کے مطابق ہماری تقریباً 50 فیصد سے زائد زمینوں میں بوران کی کمی ہوچکی ہے جس سے فصلوں کی پیداوار میں 10 سے 20 فیصد یا اس سے بھی زائد کمی دیکھنے میں آئی ہے جسکی چیدہ چیدہ وجوہات درج زیل ہیں۔ زمین کے اساسی کیمیائی تعامل (PH) اور نامیاتی مادہ کی کمی کے سب پودوں کو بوران کی دستیابی متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح ریتلی اور ہلکی کم چکنی زمینوں میں بھی بوران کی پودوں کو دستیابی کم ہوتی ہے۔

زیادہ ترزمینوں میں کیلشیم کے مرکبات پائے جاتے ہیں جوکہ دیگر اجزائے صغیرہ کے ساتھ ساتھ بوران کی دستیابی پربھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

زیادہ پیداوارکی حامل اقسام کی مسلسل کاشت اور بوران والی کھادوں کا عدم استعمال بھی زمین میں بوران کا موجب بنتا ہے۔

سونا بوران کی دستیابی

زمینوں میں بوران کی بڑھتی ہوئی کمی کے پیش نظرفوجی فرٹیلائزر کمپنی نے ایک اعلی میعار کی کھاد سونا بوران (بوریکس) کاشتکار تک بہم پہنچانے کا اہتمام کر رکھا ہے۔جس میں خالص بوران کی کم سے کم مقدار 10.5 فیصد ہے۔ یہ اعلی'میعار کی کھاد ہے۔جو ہر قسم کے موسمی حالات اور آب و ہوا میں یکساں طور پر موثر ہے۔یہ پانی میں ہو کر پودوں کو جلد دستیاب ہو جاتی ہے۔اسے دیگر کھادوں کے ساتھ ملا کر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سونا بوران کی افادیت

سونا بوران پودوں کے خلیوں کے بننے میں معاونت کرتاہے فصل کی بڑھوتری میں اضافہ ہوتاہے۔ سونا بوران کے استعمال سے کپاس میں گڈیاں،پھول اور ٹینڈے نہ صرف زیادہ بنتے ہیں بلکہ سونا بوران انہیں گرنے سے بھی روکتا ہے۔ سونا بوران عمل زیرگی (Pollination) میں بہتری لاتا ہے جس سے ٹیڈوں کی شکل بہتر، جسامت اور وزن میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ریشہ کی کوالٹی بھی بہتر ہو جاتی ہے مزید برآں یہ ٹینڈوں کے بروقت کھلنے میں بھی معاونت کرتا ہے۔

سونا بوران کے استعمال سے پھلدار درختوں میں چھال کی مضبوطی، پھل اور سبزیوں کی شکل ورنگت میں بہتری نیز ان کے چھلکوں کے پھٹنے میں کمی آتی ہے جس سے ان کی کوالٹی اور جسامت بہترہوجاتی ہے۔ سونا بوران دانے دار فصلوں کے سٹوں کی لمبائی ، کوالٹی، دانوں کی تعداد اور وزن و کوالٹی کی بہتری میں بھی معاون ہوتا ہے۔ سونا بوران چاول کے دانوں کی لمبائی ،کوالٹی، خوشبو اور رنگت میں بھی بہتری لاتا ہے۔

پودوں پر بوران کی کمی کے اثرات

بوران کی کمی سے پودوں کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہیں جس سے ان کی نشوونما اور پیداوار میں بھی خاطر خواہ کمی ہو جاتی ہے ۔پودوں میں بوران کی کمی درج زیل علامات سے ظاہر ہوسکتی ہے۔ اپودوں میں کم متحرک ہونے کے سبب بوران کی کمی پہلے نئے اور نوخیز پتوں پر ظاہر ہوتی ہے جس سے کونپلوں کے سروں کی نشوو نمارک جاتی ہے نوخیز پتوں کی شکل بگڑ جاتی ہے اور وہ جھری دار موٹے ہو جاتے ہیں۔ شاخوں کا درمیانی فاصلہ کم ہوجاتا ہے اور نئی نکلنے والی شاخیں کمزور ہونے کی وجہ سے اکثر مرجاتی ہیں۔ بوران کی کمی جڑوں کی خلیاتی دیوار میں ایسی تبدیلی آتی ہے کہ جڑیں فاسفورس، پوٹاش اور کلورائیڈ جزب نہیں کرسکتیں۔ بوران کی کمی سے جڑوں کے سروں کی نشوونما ہوتی ہے نیز جڑ کے موٹے حصوں پر سیاہ دھبے نمودار ہو جاتے ہیں یا جڑدرمیان سے پھٹ (براون ہارٹ) جاتی ہے۔ بوران کی کمی سے پھل چھوٹا اور کمزور ہونے کی وجہ سے گر جاتا ہے۔شدید کمی سے پھلوں کا چھلکا پھٹ جاتا ہے جس سے کوالٹی بھی متاثر ہوتی ہے۔ بوران کی کمی کی علانات مختلف فصلوں پر مختلف ہوسکتی ہیں جیسے کپاس کے پھلولوں یا گڈیوں کا گرنا،ٹینڈوں کا صحیح طرح سے نہ کھلنا، ریشے کی کوالٹی کا کمتر ہونا، ٹینڈے کم بننا نیز ان کا جسامت میں چھوٹا رہ جانا اور شکل کا چپٹا ہونا وغیرہ۔اسی طرح مکئی کی چھوٹی اور مڑی ہوئی دانوں سے خالی تنے، چاول کے چھوٹے اور دانوں سے خالی سٹے نیز چاول کا چھڑائی (Milling) کے دوران ٹوٹنا وغیرہ بوران کی کمی کی واضح علامات ہیں

اہم فصلوں کے لیئے سونا بوران کی سفارشات

زیادہ اور منافع بخش پیداوار کے لیئے کھادوں کا بروقت اور متناسب مقدار میں استعمال بہت ضروری ہے۔ کھادوں کی مقدار کا انحصار زمین کی زرخیزی ،فصل کی ضرورت، پانی کی فراہمی اور پیداواری ہدف پر ہوتا ہے ۔اس لیئے ضروری ہے کہ زمین کا تجربہ کروالیا جائے اورزمین کی زرخیزی کے مطابق کھادوں کا متناسب کیا جائے۔ فوجی فرٹیلائزر کمپنی آپ کو اجزائے کبیرہ کے ساتھ ساتھ اجزائے صغیرہ کے تجزیہ وسفارشات کی سہولت بھی مفت بہم پہنچارہی ہے تاہم اگر آپ نے زمین کا تجزیہ نہیں کروایا تو بوران کے لیئے ہماری درج زیل عمومی سفارشات پر عمل کریں۔

فصل مقدارسونا بوران فی ایکڑ وقت اور طریقہ استعمال
کپاس، گندم، چاول، مکئی سورج مکھی، سرسوں، آلو، مونگ پھلی، تمباکو، چقندر، گوبھی، پیاز، سٹرابیری وغیرہ 3 کلو گرام تمام سونا بوران دوسری کھادوں کے ساتھ بوائی کے وقت استعمال کریں نوٹ: فصلوں کی کیلئے بوران کی قلیل مودار درکار ہوتی ہے لہذا کاشتکار سال میں ایک کھیت پر صرف ایک ہی دفعہ سونا بوران کا استعمال کریں نیز تھور باڑہ زمینوں میں بوران کاا ستعمال تجزیہ اراضی کے بغیر ہرگز نہ کریں

کھادوں کی سفارشات

PAR Jul 7, 2020 193

پودوں کو خوراکی اجزاء مہیا کرنے کے لیے ہر زمین کی صلاحیت بلحاظ زرخیزی مختلف ہوتی ہے اسی طرح ہر فصل کی خوراکی ضرورت دیگر فصلوں سے مختلف ہوسکتی ہے۔ لہذا سب زمینیں تمام اقسام کی فصلوں کو درکار خواکی اجزاء مہیا نہیں کرسکتیں ۔فصلوں کی بہتر نشوو نما اور اچھی پیداوار کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ زمین سے درکار خواکی اجزاء کی ترسیل توازن اور تواتر سے جاری رہے جو ان کی نشوونما اور منافع بخش پیداوار کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ لہذا مختلف فصلوں کی خواکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کھادوں کی سفارشات مرتب کی جاتی ہیں۔ عمومی طور پر ہماری زیادہ تر سفارشات نائیٹروجنی اور فاسفورسی کھادوں کے استعمال پر مبنی ہوتی ہیں کیونکہ ان دونوں خواکی اجزاء کی زمین میں بہت زیادہ کمی واقع ہوگئی ہے جبکہ اب زیادہ پیداوار دینے والی فصلیں کاشت کرنے کی وجہ سے پوٹا شیم، زنک اور بوران کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا استعمال بھی بہت ناگزیر ہوگیا ہے۔ زمین کی زرخیزی کا معیار تیزی سے بدل رہا ہے لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ اس بدلتے ہوئے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے کھادوں کی سفارشات مرتب کی جائیں اور کھادوں کے متوزان استعمال کو یقینی بنایا جائے۔کھادوں کے متوازن استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے اپنے فارم ائڈوائزری سینٹر زپر مٹی و پانی کے تجزیہ کی جدید کمپیوٹر ئزڈ لیبارٹریاں قائم کی ہیں۔ تاکہ کاشتکار مٹی اور پانی کے مفت تجزیہ کے ساتھ ساتھ کھادوں کے متوازن استعمال کی سفارشات بھی حاصل کر سکیں کیونکہ کھادوں کے متوازن استعمال کے بغیر منافع بخش زراعت کا تصور ممکن نہیں رہا۔ ہمارے وہ کاشتکار جو زمین نہیں کرواسکے وہ اس کتابچہ میں درج سفارشات کے مطابق کھادیں استعمال کرکے اپنی فصلوں ،باغات اور سبزیوں کی فی ایکڑ پیداوار کو کافی حد تک بڑھا سکتے ہیں۔


پاکستان میں ٹماٹر کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

خوراکی و ادوایاتی اہمیت:

یہ سبزی تازہ اور مختلف مصنوعات کی صورت میں سال بھر استعمال کی جاتی ہے۔ ٹماٹر مجموعی طورپر گرم و خشک تا ثیر کا حامل ہوتاہے۔ اس میں وٹامن اے ، سی اور ضروری نمکیات کی فروانی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے جسم میں قوت مدافعت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ خون بھی پیدا کرتاہے۔ ٹماٹر میں وافر مقدار میں لاتکوپین ہوتاہے جو کہ کینسر کے علاج میں استعمال ہوتاہے۔ دانتوں کی بیماریوں مثلاً پایوریا کے خلاف مفیدثابت ہوتاہے۔ اشتہارآور یعنی بھوک بڑھاتاہے۔ جسم میں فاسد مادے اور جراثیم ختم کرتاہے ۔معدہ جگر کے لئے بھی مفید ہے ۔ شوگر کے مریضوں کیلئے مفید سبزی ہے۔ بچوں کو ٹماٹر کھلا یا جائے تو معدانیات کی کمی دور کرتاہے۔ السر کے مریض اور گردہ کی تکلیف والے نہ کھائیں۔

فصلی ترتیب:

پنجاب کے مختلف علاقوں میں یہ فصل مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے:

  • ٹماٹر + پیاز (دسمبر جنوری) بھنڈی یا کدو(جون) گوبھی (نومبر)
  • ٹماٹر(وسط نومبر ہائی ٹنل والا) ٹماٹر (وسط نومبر ہائی ٹنل والا)
  • ٹماٹر (وسط نومبر ہائی ٹنل والا) کریلا ہائی برڈ (جون) کھیرا (نومبر)
  • ٹماٹر (نومبرچھورے والا) کدویا کریلا (جون)۔گندم (نومبر)
  • ٹماٹر (آخراپریل ۔ Risky) مولی (آخر جولائی) مٹر (اکتوبر)
  • ٹماٹر + کماد (اکتوبر) گندم (اگلے سال نومبر یا دسمبر)
  • ٹماٹر (فروری)۔چاول (جون) کھیرا ٹنل (دسمبر جنوری)

آب و ہوا:

ہر قسم کے اوسط حالات کے پیش نظر ٹماٹر کے بہتر اگاؤ کے لئے اوسطاً 16 تا 29، بڑھو تری کے لئے 21 تا 24، پھل آوری کے لئے 19 تا 24 اور پھل پکنے کے لئے 20 تا 24 سینٹی گریڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ فصل معتدل آب وہوا میں بہتر افزائش کرتی ہے۔ 5 سینٹی گریڈ سے درجہ حرارت پر اسکی بڑھوتری رک جاتی ہے۔ جبکہ کہر سے اس کو بہت نقصان پہنچ سکتاہے۔ پھل آوری کے دوران زیادہ گرم اور خشک آب وہوامیں بھی زر دانے مر جاتے ہیں اور پھل نہیں لگتا۔ درجہ حراتی برداشت کے لحاظ سے ٹماٹر مندرجہ ذیل حالات میں بھی اگایا جاسکتاہے :

ٹماٹر کم از کم 9 تا 10 سینٹی گریڈ پر بھی اگ سکتاہے ۔ لیکن اوسط 15 تا 25 اور زیادہ سے زیادہ 30 تا 35 درجے سینٹی گریڈ پر بھی اگ سکتاہے۔ مجموعی طور پر یہ فصل 20 تا 30 درجے سیٹی گریڈ پر بہتر نشوونما کرتی ہے۔ نرسری کا بہتر اگاؤ بھی سی درجہ حرارت پر بہتر ہوتاہے۔ اگر درجہ حرارت 30 سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو یا 10 درجے سے کم ہوجائے تو بیشتر اقسام کو پھل۔ آوری کم ہوجاتی ہے۔ 37 درجے سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ زرد انے مرجاتے ہیں اور پیشتر او پی اقسام کی پیداواری بر طرح متاثر ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کی دوغلی اقسام مثلاً ریڈ چیمپین جون اور جولائی کی گرمی (40 درجے سینٹی گریڈ) میں بھی بہتر پیدا۔ وار دے سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی طور پر ایسی اقسام تیاری کی جائیں جو جون اور جولائی کے زیادہ درجہ حرارت پر بھی پھل پیدا کرسکیں۔

زمین:

ٹماٹر اچھے نکاس والی میرا و بھاری میرا زمین میں بہتر اگاؤ دیتاہے ۔ہلکی اور ریتلی زمین میں اگرچہ ٹماٹر کی فصل از جلدی تیار ہوجاتی ہے۔ لیکن پیداوار کم ہوتی ہے۔ اسی طرح چکنی زمین بھی ٹماٹر کے لئے موزوں نہیں ہوتی ۔ نیز ٹماٹرسخت تہہ والی اورکمزور نکاس والی زمین میں بہتر پید اوار نہیں دے سکتا۔ ٹماٹر کی بھر پور پیداوار کے لئے 6.6 تا7.5 تعامل والی زمین بہترین ہوتی ہے۔ لیکن پنجاب میں ایسی زمین کی دستیابی کافی مشکل ہے۔ اس کے بیج چونکے بہت زیادہ باریک ہوتے ہیں اس لئے نرسری میں اس کے بہتر اگاؤ کی خاطر بہت باریک زمینی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا زمینوں میں ٹماٹر کی جڑوں کا پھیلاؤ کئی فٹ تک ہوسکتاہے۔ اسی لئے زمین زیادہ گہری تیار کی جائے تو ٹماٹر اچھی پیدا وار دیتاہے ۔ اس مقصد کے لئے ڈسک پلو اور روٹا ویٹر کا استعما ل کیا جاسکتاہے۔

کاشت کے علاقے:

ٹماٹر پنجاب کے ہر علاقے میں اگایا جاسکتا ہے لیکن ضلع مظفرگڑھ اور گوجرانولہ میں بکثرت پیدا ہوتاہے۔ ان کے علاوہ سون سیکڑ (خوشاب)، لاہور، فیصل آباد، ملتان، ٹوبہ ٹیک سنگھ، خانپور (رحیم یار خان)، بہاولپور، فاروق آباد ( شیخوپورہ) اور ساہیوال کے علاقے بھی ٹماٹر کی پیداوار میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے علاقوں میں کورا نہیں پڑتا وہاں بھی کاشت کی جاتی ہے۔ پنجاب میں کاشتہ کل ٹماٹر کا ستر فیصد سے زیادہ انہی اضلاع میں کاشت ہوتاہے۔

اقسام:

اس کی دیسی اقسام میں نقیب، نگینہ، ریوگرانڈی، پاکٹ، روما اور کنی دوغلی اقسام شامل ہیں۔حالیہ دوغلی اقسام مثلاً منی میکر، جیوری، یوکی، ٹی 1359 اور کیمیا، ایڈن ایف ۱ ، فونٹو (حاجی سنز) کی پیداواری صلاحیت اوپی یا مخلوط اقسا م کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔ بعض دوغلی اقسام مثلاً ریڈ چیمپئن اور ڈومینیٹر کافی لیٹ یعنی جون اور جولائی کی گرمی (40 درجے سینٹی گریڈسے زیادہ درجہ حرارت) میں بھی بہتر پیداوار دے سکتی ہیں۔ ٹماٹر کی اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

ریو گرانڈی:

رنگت زیادہ سرخ و پرکشش ، کمبوتر ا سائز اور درمیانہ اور بڑا ، پیداوار زیادہ (400 من فی ایکڑ)۔ سٹوریج اور ٹرانسپورٹ کی صلاحیت بہترہرعلاقے کے لئے عمومی کاشت کے لئے مگر بہتر ین قسم ہے۔

نگینہ:

پھل کا سائز لمبوتر ا اور رنگ ہلکا سرخ ہوتاہے۔ پر کشش، پیداوار روما کے مقابلے میں زیادہ ، سٹوریج اور ٹرانسپورٹ کی صلاحیت کم، پنجا ب میں عمومی (ٹنل سے باہر) کاشت کے لئے بہترین قسم ہے۔

روما:

اس قسم کا پھل لمبوترا، سرخ اور پر کشش ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں بیج کم ہوتے ہیں، پیداوار درمیانی، سٹوریج اور ٹرانسپورٹ کی صلاحیت بہتر، پختونخواہ اور سون سیکیسر میں عمومی کاشت کیلئے بہترین قسم ہے۔ یہ قسم کافی عمر رسیدہ ہوچکی ہے۔

ٹنل کی اقسام :

ہائی ٹنل میں کاشت کی صورت میں صرف مسلسل بڑھنے والی (Indelerminale) اقسام مثلاً ساحل، منی میکر جیوری، شارمن وغیرہ کاشت کی جاسکتی ہیں۔

منی میکر:

اس کا پھل گول، سائز بڑا (King size) ،پھل کے اندر بیج کی مقدار کم ٹنل میں کاشت کیلئے زیاد ہ موزوں پیداو۔ ار بھی زیادہ ، سٹوریج اور ٹرانسپورٹ کی بہترین صلاحیت رکھتی ہے۔ ٹنل میں پودوں کی شکل کو کنڑول کرنے کیلئے فالتو بلغلی شاخوں (Lateral branches) کی کٹائی بہت ضروری امور میں سے ہے۔ یو کی، نقیت، ریوگرانڈی، پاکٹ، ٹائیگر، طلسمی اور دیگر اقسام لوٹنل میں یا کھلے عما فیلڈ میں کاشت کی جاسکتی ہیں۔ حال ہی میں ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے میں تیار کی گئی بعض دوغلی اقسام کی صلاحیت غیر ملکی اقسام سے زیادہ پائی گئی ہے۔

کھادیں اور خوراکی اجزا:

زمین کی قدرتی زرخیزی ، علا قہ و وقتِ کاشت، اقسام کی نوعیت، طریقہ کاشت، تعدا د و ذریعہ آبپاشی، گوڈیوں کی تعداد، نا۔ میاتی مادے کی مقدار اور زمینی ساخت جیسے امور کے تغیرات کی مناسبت سے کھادوں کی مقدار میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ ٹماٹر کے لئے 25-35-56 تا 75-50-90 کلوگرام نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ ٹماٹر کی بہتر پیداوار کے لئے نائٹروجن اور پوٹاش کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ نائٹروجن اور پوٹاش ملا کر استعمال کی جائیں تو بھر پور پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ حالیہ تجربات سے پتہ چلا ہے کہ 4 کلوگرام کے حساب سے زنک سلفیٹ استعمال کی جائے تو ٹماٹر کی ریکارڈ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر زمینی تھور کی وجہ سے ٹماٹر کی بڑھوتری رکی ہوئی ہو تو پوٹاشیم پر مبنی ہیو۔ مک ایسڈ بھی استعمال کیا جائے ۔ نیز کھالیوں میں US-20 یا اس کے متبادل تیزابی اثرات کے حامل مرکبات فلڈ کئے جائیں۔

کھادیں استعمال کرنے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

بیرونی کاشتہ عمومی فصل:

ایک تہائی نائٹروجن، تمام فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقتِ کاشت ڈالی جائے۔ بقیہ نائٹروجن اور پوٹاش منتقل کرنے کے بعد 35 تا 100 دن کے اندر اندر قسط وار کرکے ڈالیں۔

کون سی کھادبہتر ہے؟

مٹی چڑھاتے وقت نائٹروفاس یا اس کے متبادل کھادیں ڈالی جائے تو زیادہ مفیدثابت ہوتی ہے۔ 15 تا 20 ٹن روڑی یا 10 ٹن پولٹری کی کھادیں ڈالی جائے توٹماٹر کی فصل بہتر ہو تی ہے۔ یوریا کے بجائے گوارا کھاد یا کیلشیم امونیم نائٹریٹ بہتر نتائج دیتی ہے۔اگر یوریا کے ساتھ پوٹاش ڈالی جائے تو زیادہ پیداوارحاصل ہوتی ہے۔ پوٹاش والی اضافی کھاد ڈالنے سے ٹماٹر کی بہتر پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔

ٹنل میں کھادوں کا استعمال:

ٹنل میں نر سری منتقل کرتے وقت نصف بوری یوریا و پوٹاش، ایک ڈی اے پی ڈالیں۔ ڈیڑھ ماہ بعد از منتقلی چھ کلو یویا، تین کلو پو ٹاش ، اس کے بعد ہر دو ہفتے بعدچھ کلو یوریا اور تین کلو پوٹاش فی کنال ملا کر ڈالتے جائیں تو بھر پو ر پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

کھادوں کی سپرے:

حالیہ تجربات سے پتہ چلا ہے کہ زمین میں پوٹاش ڈالنے کے بجائے پوٹاش کی سپرے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔ 45:15:5 تا 44:3:14 گریڈ کی فولئر فر ٹیلائزر فصل منتقل کرنے کے بعد 50 تا 80 دن کے اندر اندر دو تا تین بار سپرے کی جائے تو بھر پور پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

آبپاشی:

ٹماٹر کی بہتر پیداوار کے لئے زیادہ نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نرسری، ٹنل اور بیرونی کاشتہ فصل کی آبی ضروریات پوری کرنے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

نرسری اور ٹنل میں آبپاشی:

فوارے سے روزانہ آبپاشی کرتے ہوئے نرسری کا اگاؤ مکمل کیاجائے۔ نرسری کو دھوپ میں پانی نہ لگایا جائے۔ منتقلی کے بعد پہلی دو آبپاشیاں بھی ایک ہفتے کے وقفے سے کی جائیں ۔ سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے شدید کہر کے دنوں میں ایک آبپاشی ضرور کی جائے۔ جھلساؤ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ درجہ حرارت 30 سینٹی گریڈ سے زیادہ ہونے کی صور ت میں ٹنل میں کاشتہ ٹماٹر کو آبپاشی کی مقدار کم کردی جائے۔

بیرونی کاشتہ ٹماٹر کی آبپاشی:

نشوونما کے کسی بھی مرحلے پر پانی پٹٹریوں کے اوپر نہیں چڑھنا چاہئے۔ مجموعی طور پر ٹماٹر کو شملہ مرچ کے مقابلے میں زیادہ آبپاشی (نمی) کی ضرور ت ہوتی ہے۔ پھول آوری کے دوران اور پھل لگنے کے بعد کسی بھی مرحلے پر پانی کی قلت ٹماٹر کی پیداوار کو بری طرح متاثر کرسکتی ہے۔ اس لئے زیادہ سو کا لگنے سے پہلے پہلے ہلکی آبپاشی کردینی چاہئے ۔ پھل آوری کے دوران زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن پانی کھیلیوں کے اندر ایک دودن سے زیادہ کھڑا نہیں رہنا چاہئے ۔

آبپاشی اور پھل کا پھٹنا:

اگر پھل لگنے کے بعد اپریل کے آخر یا مئی جیسے گرم و خشک موسم کے دوران زیادہ سو کا لگاکر آبپاشی کی جائے تو پھل کے پھٹنے کی شکایت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لئے گرم و خشک موسم میں زیادہ سوکا لگنے سے پہلے پہلے آبپاشی کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

شرح بیج اور پودوں کی تعداد:

ایک ایکڑ میں ٹماٹر کی نرسری منتقل کرنے کے لئے دیسی اقسام کا 80 فیصد اگاؤ والا100 تا 150 گرام بیج کافی ہوتا ہے۔ 90 فیصد سے زیادہ اگاؤ والا دوغلی اقسام کا 100 تا 125 گرام بیج استعمال کیاجاتا ہے۔ دس گرام میں عموماً 2500 تا تین ہزار بیج آتے ہیں جس سے پورا پورا بیج خریدنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک ایکڑ میں ٹنل میں منی میکر کے دس تابارہ ہزار جبکہ شارمن اور ساحل جیسی اقسا م کے 15 ہزار جبکہ ٹنل سے باہر کاشت کی جانے والی بیشتر اقسام کے 6 تا 7 ہزار پودے لگائے جاتے ہیں۔

وقتِ کاشت:

ٹنل سے باہر ٹماٹر لگانے کیلئے گٹھہ سگر ہل میں اس کی نرسری جولائی اگست میں کاشت کی جائے اور ستمبر میں منتقل کردی جائے ۔ جنوبی پنجاب میں اکتوبر کے آخر میں کاشت کی جائے اور نومبر کے آخر یا دسمبر کے شروع میں منتقل کردی جائے۔ وسطی پنجاب میں نرسری نومبر کے پہلے دو ہفتوں کے دوران کا شت کی جائے اور دسمبر میں کوراشروع ہونے سے پہلے پہلے منتقل کر۔ دی جائے۔

بدلتے موسم میں تناظر میں:

گذیشتہ عشروں کے مقابلے میں آج کل وسطی و جنوبی پنجاب کے موسم بھی پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں کہر کا خطرہ کم سے کم ہو چکا ہے۔ ا س لئے وہاں نرسری دسمبر میں بھی منتقل کی جاسکتی ہے ۔ تا ہم نومبر یا دسمبر میں منتقلی ہرسال کہر کے خطرے سے خالی نہیں ہوسکتی ۔ اس فصل کو کہر سے بچانا ضروری ہوتاہے۔ سردی میں منتقل کردہ ٹماٹر کا پھل فروری میں منتقل کردہ فصل کے مقابلے میں پہلے مارکیٹ میں آتاہے۔

پلاسٹک شیٹ کا استعمال:

جدید طریقوں کی روشنی میں موجودہ موسمی حالات کے تناظر میں نرسری پر پلاسٹک شیٹ استعمال کرکے بیرونی فصل کے لئے بھی دسمبر کے پہلے ہفتے کے دوران کاشت کرکے فروری میں منتقل کے قابل بنائی جاسکتی ہے۔

سون سکیسر:

سون سیکسر میں نرسری اگست ستمبر کے دوران کاشت کی جائے اور اکتوبر میں منتقل کردی جائے تو یہ فصل جنوری سے لیکر مارچ تک پھل پیدا کرتی ہے۔

طریقہ کاشت:

ٹماٹر کی کاشت ٹنل یا گرین ہاوس کے اندر یا کھلے عام پٹٹریوں کے کناروں پر نرسری منتقل کرکے کی جاتی ہے۔ حال ہی میں خورابی (Hydroponic) طریقے سے ٹماٹر کاشت کرنے کے کامیاب تجربات کئے گئے ہیں۔ اس طریقے میں زیادہ بڑے کھیتوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ لیباٹری نما گرین ہاؤس بنائے جاتے ہیں۔ طریقہ کاشت کی مناسبت سے دو تین مرلے رقبہ پر کاشتہ نرسری سے ایک ایکڑ ٹماٹر کاشت کئے جاسکتے ہیں۔ نرسری کی تیاری کا طریقہ مندرجہ ذیل ہے:

نرسری کی تیاری:

ایک ایکڑ ٹماٹر لگانے کے لئے خوب باریک تیار کردہ دو تین مرلہ جگہ پر ایک ایک میٹرکی کیاریوں میں تین تین انچ کے فاصلے پر لکیریں لگا کر نرسری کاشت کی جائے۔ اس مقصد کے لئے پلاسٹک کی ٹرے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ ابتدائی بیمار۔ یوں سے بچانے کے لئے کو پھپھوند کش (ٹاپسن ایم یا متبادل) زہر لگا کر کاشت کیا جائے۔ اور بیج پر پھل کی ہلکی تہ ڈال کرسر۔ کنڈی پرالی سے ڈھانپ دیں۔ اس کاا گاؤ مکمل ہونے تک فوارے کی مدد سے روزانہ شام کے وقت پانی لگائیں۔ اگاؤ مکمل ہوتے ہی سرکنڈا اتار دیاجائے۔ زیادہ اگیتی نرسری کی صورت پر دس دس دن کے وقفے سے ریڈومل گولڈ یا اس کے متبادل زہروں کے دو تا تین سپرے کئے جائیں۔ اگر سردی زیادہ ہوتو شمالی سمت میں سرکیاں لگائیں یا روزانہ شام کو پلاسٹک شیٹ ڈالی جائے۔ اسے کیڑوں سے بچانے کیلئے (کونفیڈاریا ایکٹارا یا موسپیلان یا ان کے متبادل) زہریں سپرے کی جاسکتی ہیں اگر نرسری کاشت کرنے سے ایک ماہ قبل گوبر یا پتوں کی کھاد ڈالی جائے تو نرسری جلدی اور صحت مند تیار ہوتی ہے۔ موٹے تنوں والی صحت مند نرسری اچھی فصل کی ضامن ہوتی ہے۔ اگر نرسری زیادہ گھنی اگ آئے تو اگاؤ مکمل ہونے کے بعدیعنی دو ہفتے کے اندر اندر زیادہ ناتواں و کمزور پودوں کو نکال دیاجائے۔

نرسری کی منتقلی:

اگر احتیاط سے لگایا جائے تو پانچ سات پتوں والی (ایک ماہ) کی نرسری بھی منتقل کے قابل ہو جاتی ہے۔ لیکن گرم موسم میں چھ تا آٹھ پتوں والی نرسری منتقل کی جائے تو اس کی کامیابی کا تناسب زیادہ ہوتاہے۔ اگر منتقلی سے ایک ہفتہ پہلے پانی کا سوکا لگاکر نرسری کو سخت جان بنا لیاجائے تو منتقلی کے بعد اچھی نشوونما کرتی ہے۔ نرسری کی جڑوں کو ٹاپسن ایم یا ریڈومل گولڈ کے محلول میں ڈبو کر منتقل کیاجائے تو فصل ابتدائی بیماریوں خصوصاً (فاٹا فتھورا) سے محفوظ رہتی ہے۔ گرم دو پہر یا دھوپ میں اسے منتقل نہ کیاجائے ۔ بلکہ کھیلیوں کو پانی لگانے کے بعد شام کے وقت منتقل کیا جائے تو منتقل کے بعد پودوں کے مرنے کی شرح کم رہتی ہے۔ٹھنڈے موسم میں خصوصاً دسمبر جنوری کے دوران ٹنل میں کسی وقت بھی اسے منتقل کیا جاسکتاہے۔

ٹنل کے اندر کاشتہ ٹماٹر:

پودوں کا فاصلہ ڈیڑھ اور پٹٹریوں کا 4 فٹ برقرار رکھا جاتاہے۔ ٹنل میں منی میکر کے دس تا بارہ ہزار لگائے جاتے ہیں ۔ ٹنل کے اندر کاشتہ ٹماٹر کورسیوں یا جال کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اوسط پیداوار 400 من فی ایکڑ ہے۔ اس سے پیداواری فرق (Yield gap) کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر مئی جون میں بیج پکایا جائے تو 15 تا 20 کلو گرام فی ایکڑ دستیاب ہوسکتا ہے۔ ٹنل سے باہر کاشت کی گئی مقامی اقسام کی بھر پور فصل سے 800 من پھل یا 25 کلو گرام تا ایک من بیج حاصل ہوسکتا ہے۔ کئی دوغلی اقسام ہائی ٹنل سے باہر کاشت کی صورت میں بھی 600 من فی ایکڑ تک پیداوار دے سکتی ہیں۔ حالیہ دوغلی اقسام (جیوری و ساحل اور منی میکر وغیرہ) سے ہائی ٹنل کی صورت میں 1000 سے1500 من اور خورابی (Hydroponic) طریقے سے کاشت کی صورت میں 3000 من فی ایکڑ تک پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس وقت ٹماٹر پیداکرنے والے ٹھنڈے یورپی ممالک مثلاً ہالینڈ اور بر طانیہ کے گرین ہاوس میں فی ایکڑ پیداوار پانچ ہزار من سے بھی زیادہ حاصل کی جارہی ہے۔ ہمارے ممالک میں چونکہ مارچ کے بعد درجہ حرارت تیزی سے بڑھ جاتاہے۔ اس لئے اتنی زیادہ پیداوار تو نہیں لی جاسکتی تاہم ہائی ٹنل میں دوغلی اقسام کاشت کر کے بھر پور پیدا وار حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر ٹماٹر پھول آوری کے دوران گروتھ ہامون کی سپرے کی جائے تو اس کی پیداوار میں مزید اضافہ ہوسکتاہے۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے کلور د فینو کسی ایسٹیک ایسڈ 15 تا 75 ملی گرام فی لٹر پانی ملاکر سپرے کیا جاسکتاہے۔ مارکیٹنگ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ اگرچہ مختلف صوبوں سے اسکی سپلائی سال بھر جاری رہتی ہے لیکن پنجاب میں ٹنل سے باہر کاشت کی گئی زیادہ تر ٹنل میں منتقل کرنے کے دو تین تا چار ہفتے کے دوران سہارے لگانے کا عمل مکمل کردیاجائے۔ ٹنل میں کاشتہ اقسام کے پودوں کی مناسبت شکل ، پھل کا بکساں سائز بر قرار رکھنے اور بھر پور پیداوار کے لئے فالتو شاخیں اور بلغمی شگوفے کاٹ دیے جاتے ہیں اقسام کی مناسبت سے ٹماٹر کے گچھوں میں دس بارہ یا زیادہ پھل لگتے ہیں۔ اگر صرف بڑے سائز کا پھل درکار ہوتو ہر گچھے میں پانچ یا چھ سے زائد چھوٹے پھل شروع میں ہی توڑ دیے جائیں ۔ پٹٹریوں کی چوڑائی ایک میڑ ، کھالی کی چوڑائی نصف میڑ اور اونچائی تیس سینٹی میڑ یا ایک فٹ رکھی جائے۔

ٹنل سے باہر کاشتہ فصل:

زمینی ساخت، صحت، طریقہ کاشت اور اقسام کی مناسبت سے فاصلے او ر پودوں کی تعداد میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ ٹنل سے باہر کاشت کی صورت میں ٹماٹر کی بیشتر اقسام کے پودوں کا فاصلہ ڈیڑھ تا دوفٹ اور پٹٹریوں کا بیشتر اقسام کے پودوں کا فاصلہ ڈیڑھ تا دوفٹ اور پٹٹریوں کا 4تا5 فٹ برقراررکھتے ہوئے ایک ایکڑ میں 6 تا 7 ہزار پودے لگائے جاتے ہیں بیرونی کاشتہ فصل کو سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

مخلوط کاشت:

ٹماٹر کی کئی فصلوں کے ساتھ ملا کر بھی کاشت کیا جاسکتاہے۔ مثلاً پٹٹریوں کے ایک طرف بندگوبھی اور دوسری جانب ٹماٹر کاشت کئے جاسکتے ہیں۔ یا ایک طر ف پیاز و دھنیا اور دوسری جانب ٹماٹر کا شت کئے جاسکتے ہیں ۔ ستمبر کاشتہ کماد میں بھی ٹماٹر کاشت کئے جاسکتے ہیں۔

ٹماٹر کی برداشت اور پیداوار:

ٹنل میں کاشتہ ٹماٹر کی پہلی چنائی عموماً 80 تا 100 دنوں میں تیار ہوسکتی ہے۔ ٹنل سے باہر فروری میں کاشتہ فصل کی چنائی ، پھل کیلئے اپریل تاجون کے دوران اور بیج کے لئے پھل کی چنائی جون کے پہلے دو ہفتوں کے دوران کی جاسکتی ہے۔ اگرٹماٹر زیادہ دورتک منتقل کرنا مقصود ہوتودس فیصد رنگ تبدیل ہونے پر توڑلیا جائے۔ توڑنے کے بعد اس کی درجہ بندی کی جائے اور دس دس کلو گرام کے گتے کے ڈبوں میں اخبار ر کھ کر بند کیا جائے تو دو تین دن میں بیشتر ٹماٹر سرخ ہوجاتے ہیں۔

پیداوار:

پنجاب میں دیسی اقسام کی اوسط پیداوار ٹنل سے باہر کاشت کی صور ت میں بمشکل دیڑھ سو من فی ایکڑ ہے۔ اس وقت ٹماٹر پیدا کرنے والے ممالک کی فصل وسط مئی سے وسط جون کے دوران مارکیٹ میں آتی ہے۔ اس فصل کا ریٹ کم سے کم سطح پر ہوتاہے۔جولائی اگست میں خیبر پختونخواہ سے آنے والے ٹماٹر کا ریٹ زیادہ ہوتاہے۔ ستمبر سے دسمبر تک کوئٹہ اور اورالائی سے جبکہ جنور ی فروری میں سندھ سے یا بعض اوقات بھارت سے بکثر ت ٹماٹر سپلائی ہوتاہے۔ پنجاب میں ٹنل کاشتہ ٹماٹر فروری سے اپریل تک نفع بخش ثابت ہوسکتاہے۔ وسطی پنجاب کے کاشتکاروں کو مطلع کیا جاتاہے۔ کہ اگر بھارتی ٹماٹر کی یلغار نہ ہو تو ہر تین سال بعد ایک سال ایسا بھی آسکتاہے۔ جب ٹماٹر کا ریٹ کافی زیادہ ہوجاتاہے۔ ان حالات میں صر ف وہی کاشتکار نفع کماسکتے ہیں جو مستقل مزاجی سے ہر سال ٹماٹر کاشت کرتے ہیں۔

بیماریاں:

نرسری کو مرجھاؤ اور بڑی فصل کو بلائٹ یا جھلساؤ کی بیماری زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ ان کے علاو ہ سڑاند اور اکھیراکی بیماریاں بھی نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ بیماٹوڈزیا خطیے بھی ٹماٹر کی پیداوار متاثر کرتے ہیں۔

نیما ٹوڈز یا خھیئے:

نرسری منتقل کرنے سے پہلے کاربوفیوران زہر ایک کلو گرام فی کنال کے حساب سے زمین میں ملائی جائے تویہ فصل بیشتر بیماریاں خصوصاً نیما ٹوڈز یا خطیئے سے محفوظ رہتی ہے۔ اگر ٹماٹر کی فصل کو دھان کے بعد کاشت کی جائے تو نیماٹوڈز کا شدید حملہ نہیں ہوتااور کار بوفیوران ڈالنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ ٹماٹر یا مرچ یا آلو یا بینگن کے بعد ٹماٹر کاشت کئے جائیں تو بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

بلائٹ یا جھلساؤ:

اس بیماری میں ٹماٹر کے پتے موٹے ہو کر مڑنے لگتے ہیں۔ پھل بہت کم لگتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے کاشتی امور کی بہتری کی جائے۔ خاص طور پر جڑی بوٹیاں تلف کریں اور قوت مدافعت رکھنے والی پہلے سے آزمودہ اقسام کا شت کی جائیں۔ اگیتے جھلساؤ کے لئے سکور 125 ملی لٹر یا ٹاپسن ایم 100 گرام جبکہ پچھیتا جھلساؤ کی صورت میں ریڈومل گولڈ اڑھائی گرام یا کیبر یوٹاپ تین گرام فی لٹر پانی ملا کر سپرے کرئے ۔ ان کے علاوہ پری کیور کومبی یا سکسس یا الرٹ پلس 250 تا 300 گرام فی ایکڑ یا ان کے متبادل زہریں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ اگر رائزوکٹونیا کا حملہ ہوتو کاپر آکسی کلورائیڈ 250 گرام یا پر یوینٹ یا سیور ایک لٹر فی سو لٹر پانی ملا کر استعمال کی جاسکتی ہیں۔

کامیاب کاشتکاروں کا ذاتی تجربہ:

کامیاب کاشتکار ڈائی فینا کو نازول سوملی لٹر اور مینکوزیب 800 یعنی دونوں کم خرچ والی زہریں ملا کر ہر ہفتے یا دس دن کے وقفہ سے باقاعدگی سے احیتاطی سپرے کرتے ہیں ان کی سپرے کا عمل فصل کے پھل پکنے تک جاری رکھتے ہیں۔ اس طریقے سے فصل کو اگیتے یا پچھیتے جھلساؤ سے محفوظ رکھتے ہیں۔

کیڑے مکوڑے:

اگر چہ نقصان پہنچانے والے کیڑوں میں چورکیڑا ، امریکن سنڈی ، پھل کی مکھی ، لیف مائنر اور تیلہ وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن فوٹ بورریں امریکن سنڈی اور لیف مائنر ٹماٹر کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ فروٹ بورر کا حملہ ٹنل سے باہر کاشتہ فصل میں اور لیف مائنر کا حملہ ٹنل میں شدید تر ہوتاہے۔ مختلف کیڑوں کو کنڑول کرنے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

چورکیڑا:

مارچ میں نو منتقل شدہ فصل پر شروع میں حملہ کرتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے کراٹے یا لیمذا 300 یا طا لسٹار یا ہائی فینتھرین 200 ملی لٹر یا ٹریسر 40 ملی لٹر پانی میں ملا کر صرف شام کے وقت سپرے کی جاسکتی ہیں۔

سنڈیاں:

امیریکن سنڈی یا فروٹ بورر اور پھل کی مکھی سے بچاؤ کے لئے ٹریسر 40 تا 60 ملی لٹر یا رنر 200 ملی لٹر ایک سو لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں۔ لیٹ کاشتہ فصل پر گرم مرطوب موسم میں لشکری سنڈی حملہ آور ہوسکتی ہے ۔ اس سے بچاؤ کے لئے رنر 200 یامیچ لیو فینوران 400 ملی لٹر سولٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

سست تیلہ:

فروری مارچ میں سست تیلہ شدیدحملہ کرسکتاہے۔ اس کے حملے کی صورت میں کونفیڈار 100 ملی لٹریا موسپیلان 125 گرام یا ان کے متبادل زہریں ایک سولٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

لیف مائنر:

ٹنل میں کاشتہ ٹماٹر پر لیف مائنر یا سرنگی مکھی کاشدید حملہ ہوتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے ٹرائی گارڈیا ڈائی گارڈ 100 ملی لٹر ایک سو لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہے۔

سفید مکھی:

اکتوبر میں کاشتہ فصل پر سفید مکھی حملہ کرسکتی ہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے موسپیلان 125 گرام سولٹر پانی میں ملاکر یا حالات کی مناسبت سے زرعی ماہرین کے مشورہ سے ان کے متبادل زہریں استعمال کی جاسکتی ہیں۔

جڑی بوٹیاں اور ان کا انسداد:

نومبر دسمبر میں ٹنل سے باہر منتقل کردہ ٹماٹر میں ہاتھو ، دمبی سٹی، قلفہ، چولائی اور دمب گھاس جیسی جڑی بوٹیاں زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ فروری اور مارچ میں منتقل کردہ فصل میں اٹ سٹ، ڈیلا ، سوانکی ، لمب گھاس، مدھانی چیرا وغیرہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ سون سکیسر میں طفیلی جڑی بوٹی آور بینکی بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

بیشتر جڑی بوٹیاں:

ٹماٹر پر زہروں کے محفوظ استعمال کے لئے ضروری ہے کہ خشک کھیلیوں پر زہر سپرے کرکے پانی لگادیا جائے اور ہفتہ دس دن بعد زمین وتر آنے پر کھرپے کی مدد سے نرسری منتقل کرکے آبپاشی کی جائے۔ سپرے کے ڈیڑھ ماہ بعد گوڈی بھی کی جائے۔ جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کے لئے پینڈی میتھالین 33 فیصد ڈیڑھ لٹر یا ڈوآل گولڈ 700 تا 800 ملی لٹر فی ایکڑ مناسب تربیت کے بعد سپرے کی جائے۔

گھاس نما جڑی بوٹیوں کا مسئلہ:

اگر کوئی بھی زہر استعمال نہ کی جاسکی ہو اور صرف گھاس خاندان کی جڑی بوٹیوں کا مسئلہ ہوتو اگی ہوئی گھاس نما جڑی ۔ بوٹیوں (دمب گھاس، دمبی سٹی، جنگلی مبنی، لمب گھاس، مدھانہ اور سوانکی وغیرہ) کے لئے فینوکساپراپ 500 ملی لٹر یا پرسیپٹ 400 ملی لٹر ایک سو لٹر پانی ملا کر ٹماٹر سمیت تمام رقبے پر یکسان سرے کی جاسکتی ہے۔

آروبینکی کا مسئلہ:

صوبہ پختون خواہ ، راجن پور( تحصیل جامپور) اور کٹھ سکرال کے ٹنل سے باہر کاشتہ ٹماٹر کے کھیتوں میں تفیلی جڑی ۔ بوٹی(weed Parasitic) آروبینکی یا گد ڑ تمباکو یا موتھر ٹماٹر او ر تمباکو کی فصل کو شدید نقصان پہنچارہی ہے۔ حالیہ سالوں کے دوران ا س کا حملہ ضلع شیخوپورہ (شاہکوٹ) کے ٹماٹر کے علاقوں میں بھی دیکھا گیاہے۔ اس کا حملہ ہر سال بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ بری طرح متاثر کھیتوں میں چند سال کے لئے اس کے متبادل فصلیں کاشت کی جائیں۔ اگر باہر مجبوری انہی کھیتوں میں کا شت کرنا ہوتو نرسری منتقل کرنے سے تین ہفتے پہلے پینڈی میتھالین ڈیڑھ لیٹرفی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جائے اور پھر پانی لگادیا جائے۔ وتر آنے پر زمین تیار کی جائے ۔ سپرے کرنے کے تین ہفتے گزرنے کے بعد نرسری منتقل کردی جائے تو تین ماہ تک ٹماٹر کی فصل دیگر جڑ ی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ کافی حد تک آوربینکی یا موتھرکے حملہ سے بھی بچی رہتی ہے۔

پلاسٹک ملچ کا استعمال :

ٹنل کے اندر چونکہ کافی مہنگی کاشتکاری ہوتی ہے اور تھوڑے رقبے سے کافی زیادہ آمدن متوقع ہوتی ہے اس لئے دستی طریقے سے گوڈی کرکے جڑی بوٹیاں تلف کرنا ہی بہتر ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک ٹنل کے اندر کالی پلاسٹک شیٹ ( پلاسٹک ملچ) بچھا کر بھی جڑی بوٹیوں کو کنڑول کیاجاسکتاہے۔ پلاسٹک ٹنل میں ہر آدمی زہریں استعمال نہیں کرسکتابلکہ اس میں زہریں سپریں کرنے سے قبل خصوصی تر بیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ٹنل کے اندر درجہ حرارت اور نمی زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے اس کے اندر کاشتہ سبزیوں کے لئے زہروں کی مقدار باہر کاشتہ سبزیوں کے مقابلے میں 40 تا 50 فیصد کم استعمال کی جائے۔ دوغلی اقسام کی کمی (غیر ملکی بیج بہت مہنگا ہے) ، کیڑوں، بیماریوں، جڑی بوٹیوں کی فروانی شامل ہیں ۔

پیداوار عوامل کا حصہ:

اہم پیداوار عوامل کے اخراجات میں ٹنل سے باہر کاشت کی صورت میں آبپاشی و کھادوں کا حصہ تقریباً 25 فیصد، زمینی ہمواری و تیاری و کاشت کا 15 فیصد ، کیڑوں ، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کا 30 فیصد، فصل کی برداشت و مارکیٹنگ کا 30 فیصد بنتاہے۔ لیکن ٹنل میں کاشت کی صورت میں اکیلے بیج و کھادوں کا حصہ تقریباً 50 فیصد ، زمینی ہمواری و تیاری و کاشت کا 10 فیصد ، کیڑوں، بیماریوں و موسمی اثرات اور جڑی بوٹیوں سے بچاؤ (پلاسٹک شیٹ) کا 20 فیصد، فصل کی برداشت و مارکیٹنگ کا 20 فیصد بنتا ہے۔

پیداواری اخراجات اور آمدن:

حالیہ سالوں کے دوران ذاتی زمین کی صورت میں لوٹنل میں ٹماٹر پیدا کرنے کافی ایکڑ خرچ 70 ہزار روپے سے زیادہ بنتاہے۔ بہتر پیداوارٹیکنالوجی پر عمل پیراہونے کے ساتھ ساتھ اگر مارکیٹ میں بھارتی ٹماٹر کی بھر مارنہ کی جائے اور موسمی حالات بھی ساز گار رہیں تو 500 تا 600 من ٹماٹر پیدا ہو سکتے ہیں۔ جن سے دو لاکھ روپے کمائے جاسکتے ہیں ۔ اگر ٹنل کے ساختی و خراجات شامل نہ کئے جائیں تو ٹماٹر پیدا کرنے کافی ایکڑ خرچ 60 ہزار روپے (زمینی تیاری و کاشت 5000، اچھی قسم کے بیج 5000، کھادیں 20000، پانی 7000، جڑی بوٹی 3000 کیڑے 6000، بیماری 4000، بردا۔شت (15 چنائیاں) 6000، ٹرانسپورٹ 12000، متفرق 2000، کل 70000) بنتاہے۔ جدید ٹیکنالوجی پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اگرا ﷲکے کرم سے موسم اور مارکیٹ کے حالات بھی سازگار رہیں تو 600 من ٹماٹر پیدا ہوسکتے ہیں۔ جن سے ڈیڑھ لاکھ روپے کمائے جاسکتے ہیں۔

نفع بخش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کی نفع بخش کاشتکاری کے اہم ترین رازوں میں آب و ہوا یا ٹنل و بیرونی کاشت کی مناسبت سے اچھی قسم کاشت کرنا، پوٹاش والی کھاد بکثر ت استعمال کرنا ، نشونما اور پھل آوری کو تحریک دینے والے مرکبات کی سپرے کرنا، کیڑوں ، جڑی بوٹیوں، بیماری ( جھلساؤ) سے بچانے کے لئے دورست زہر کا انتخاب کرنا اور گریڈ نگ کرنے کے بعد مارکیٹنگ کرنا بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔


پاکستان میں پیاز کی کاشت حصہ ب

PAR Jul 7, 2020 193

کھادیں اور خوراکی اجزا:

زمین کی قدرتی زرخیزی ، وقتِ کاشت ، اقسام کی نوعیت ، طریقہ کاشت ، ذریقہ آبپاشی کی نوعیت، گوڈیوں کی تعداد، نامیاتی مادے کی مقدار ااور زمینی ساخت جیسے امور کے تغیرات کی مناسبت سے کھادوں کی مقدار میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ نارمل موسم میں ایک ایکڑ سے دو سومن پیاز پیدا کرنے کے لئے فاسفورس کے مقابلے میں نائٹروجن اور اور پوٹاش کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بیج والی فصل کو نائٹروجن کو مقابلے میں فاسفورس اور پوٹاش والی کھادیں زیادہ ڈالی جائیں۔

کتنی کھاد ڈالی جائے؟

بیشتر حالات میں کم از کم 25-23-32 کلوگرام فی ایکڑ نائٹروجن ، فاسفورس اور پوٹاش ڈالنے کی سفارس کی جاتی ہے ۔ کھاد کی یہ مقدار ڈی اے پی ، ایک یوریا اور ایک ایس او پی سے پوری کی جاسکتی ہے۔ دوغلی اقسام کی خوارکی ضررویات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ درمیانی اور کمزور زمینوں میں دوغلی اقسام کو 50-50-54 کلوگرام فی ایکڑ نائٹرو۔ جن، فاسفورس اور پوٹاش ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ کھاد کی یہ مقدار دو بوری ڈی اے پی ،دوبوریا اور 5 بوریا ایس اوپی یا ان کے متبادل کھادوں سے پوری کی جاسکتی ہے۔

کھاد کب ڈالی جائے؟

ایک تہائی نائٹرجن، تمام فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقتِ کاشت ڈالی جائے ۔ بقیہ نائٹروجن میں سے ایک تہائی منتقلی کے 25 تا 40 دن کے اند ر اندر آبپاشی کے ساتھ ڈالیں۔ بقیہ نائٹروجن اور پوٹاش منتقلی کے 45تا60 دن کے اندر اندر آبپاشی کے ساتھ ڈالیں۔ منتقلی کے بعد ہر قسم کی کھاد ہمیشہ اوص خشک ہونے پر ڈالی جائے۔ اسکو کیلشئم کی بہت زیادہ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یوریا استعمال کرنے کے بجائے کیلشیم امونیم نائٹریٹ کھاد اس کیلئے زیادہ مفیدثابت ہوئی ہے۔ پیاز کاشت کرنے والے کاشتکاروں کی رائے یہ ہے کہ اسے بیشتر کھاد منتقل کر تے وقت ہی ڈالی جائے اور منتقلی کے بعد کم سے کم کھاد ڈالی جائے تو بیماری سے پاک رہتی ہے۔

اضافی مرکبات:

جب پیاز کی فصل پچاس ساٹھ دن کی ہوجائے تو کیلشیم امونیم نائٹریٹ کھاد اور ہیو مک ایسڈ ملا کر فرٹیگیشن کے طریقے سے دیے جائیں۔ کلر اٹھی زمین میں نومبر دسمبر میں منتقل شدہ فصل سے بہتر پیدا وار لینے کرنے کے لئے فروری یا مار۔ چ کے دوران 5 کلوگرام ہیومک ایسڈ یا 15 کلو گرام فی ایکڑ US-20 ایک بوری کیلشیم امونیم نائٹریٹ کے ساتھ ملا کر آبپاشی کے ساتھ دیاجائے۔ اگر پھپھوند کش زہروں کے ساتھ ملا کر امائنو ایسڈ بھی استعمال کئے جائیں تو اس کی مثالی فصل پید ا کی جاسکتی ہے۔ جس علاقے میں بار بار پیاز کے بعد پیاز ہی کاشت کیا جاتاہو وہاں نرسری منتقل کرنے کے ڈیڑھ تا دوماہ بعد چھوٹے خوراکی اجزا کا مرکب (مائکرو پاور یا اس کے متبادل) سپرے کرنے سے نہ صرف چھو۔ ٹے خوراکی اجزا کی کمی دور ہوجاتی ہے۔ بلکہ پیاز زیادہ عرصہ تک سبز حالت میں رہتاہے۔ اور اس کا سائز بڑا ہوجاتا ہے۔

پیاز کی بیماریاں اور ان کا انسداد :

نرسری کو پثر مردگی (Damping off) ،منتقل شدہ پیاز کو روئیں دار پھپھوندی اور بیج والی فصل کو گردن کی سڑاندیا پرپل بلاچ (Purpliblotch) اور جھلساؤ کی بیماریاں زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ پیاز کو مختلف مراحل پر بیماریوں سے بچانے کے لئے مندر جہ ذیل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔

رسری:

گرم موسم میں کاشتہ نرسری کو نوخیز پودوں کی پثر مردگی (Damping off) کی بیماری نقصان پہنچاتی ہے۔ اس بیماری میں پیاز کے پودے اگنے کے بعد جلدی (دو ہفتے کے اندر اندر) ہی مر جاتے ہیں۔اس سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ اگیتی نرسری کاشت کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ نرسری پر سبز شیٹ کی مدد سے سائے کا انتظام کیا جائے ۔ پھپھوند کش زہر ( ٹاپسن ایم ڈائناسٹی) بیج کو لگا کر کاشت کیا جائے تواس بیماری کی وجہ سے کم سے کم نقصان ہوتاہے۔ نرسری مکمل ہونے کے بعد روئیں دار پھپوندی کا حملہ بھی ہوسکتاہے اس سے بچاؤ کے لئے ایگرو۔ بیٹ یا ریڈومل گولڈ ، ڈائی تین بار بدل بدل کر سپرے کریں۔

نرسری سے منتقل شدہ فصل نرسری سے منتقل شدہ فصل پر روئیں دار پھپوندی کا حملہ زیادہ ہوتاہے۔ اس بیماری میں پیاز کے پرانے پتوں کی نوکیں پیلی ہونے کے بعد خشک ہونے لگتی ہیں۔ اس بیماری سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ منتقل کرنے کے ایک ماہ بعد انٹرا کال یا ریڈومل گولڈ دو مرتبہ سپرے کی جائے۔ بیماری کی کم شدد کی صورت میں کرزیٹ 300 گرم اور ٹاپسن ایم 100 گرام یا ان کے متبادل زہریں سو لٹر پانی میں ملا کر دو تاتین مرتبہ سپرے کی جاسکتی ہیں۔ جب یہ بیماری زیادہ شدد اختیارکرتی ہے تو سڑاند یا پرپل بلاچ کا حملہ بھی ہوجاتاہے۔ اس بیماری میں پیاز کے پتوں پر بڑے بڑے داغ پڑ جاتے ہیں اور پیاز کے پتے ٹوٹ کر گرجاتے ہیں۔ پیاز کو ڈائپنی اور سڑاند سے منتقل کرنے کے 50تا90 دنوں کے دوران ایزوکسی سڑوبن پلس ڈائی فینا کو نازول ( ایی سٹارٹاپ) یا ان کے متبادل زہر سپرے کی جاسکتی ہے۔

بیج والی فصل:

بیج والی فصل کو گردن والی سڑاندیا پرپل بلاچ زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔

تھرپس:

تھرپس کا بالغ کیڑا بہت چھوٹا سا ، سیاہ یا بھورے رنگ کا سلنڈر نمایا زیرے کی طرح کا ہوتاہے۔ ستمبر سے لے کر نومبر تک منتقل کیے گئے اگیتے پیاز کو یہ کیڑا نقصان نہیں پہنچاتا۔ لیکن جنوری فروری میں منتقل کی جانے والی فصل کو فروری مارچ سے لے کر فصل کے پکنے (اپریل مئی) تک نقصان پہنچاتا ہے۔ وسط مارچ سے لے کر وسط اپریل کے درمیان اس کا شدید حملہ ہوتاہے۔ اتنا چھوٹا سا ہوتاہے کہ کھلی دھوپ یا زیادہ ورشنی میں بغور مشاہد ہ کرنے سے ہی نظر آتاہے۔ بچے پیلے رنگ کے ہوتے ہیں،۔ بچے اور بالغ سب نئی کونپلوں میں چھپ کرپیاز کا رس چوستے ہیں۔ ان کے شدید حملہ کی صورت میں نئے پتوں کے کچھے سے بن جاتے ہیں۔ پتوں کی شکل خراب ہوجاتی ہے۔اور نیچے کی طرف جھک جاتے ہیں۔ حملے کی وجہ سے پیاز میں گٹھیاں اور بیج نہیں بنتا ۔ تھرپس کی حملہ شدہ فصل پر بیماری کا حملہ بھی زیادہ ہوسکتاہے ۔

تھرپس کا انسداد:

اس کے ابتد ائی حملے کی صورت میں امیڈا یا کونفیڈار اور فپرونل الگ الگ یا دونوں زہریں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں شدید حملہ کی صورت میں بہتر نتائج کے لئے ایک ہفتے میں دو مرتبہ سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ شدید حملہ کی صورت میں کلورفن پائر (ایسیفیٹ) 250 گرام یا ٹریسر 40 ملی لٹر یا لیسینٹا 25 گرام یا ان کے متبادل زہریں 100 لٹر پانی میں ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

موثر زہر پاشی کی سفارش:

دسمبر جنوری میں کاشتہ پیاز کو فروری اور مارچ کے دوران جبکہ فروری مارچ کے دوران کاشتہ پیاز کو اپریل کے دوران تین سے چار مرتبہ زہر پاشی کی ضرورت درپیش ہو سکتی ہے۔ کیڑے مار زہر کے ساتھ پھپھوندکش زہریں بھی ملا ئی جا۔ سکتی ہیں۔ کونپلوں کے اندر تک زہر پہنچا نا کافی دشوار ااور محنت طلب عمل ہو سکتاہے۔ ہالوکون ٹوزل لگاکر تسلی بخش طر۔یقے سے پیاز کی کونپلوں میں سپرے کیے بغیر تھرپس کا پورا انسداد ممکن نہیں ہوتا۔

جڑی بوٹیاں او ر ان کا انسداد:

وقتِ کاشت اور علاقے کی مناسبت سے گرمی اور سردی والی جڑی بوٹیاں نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ دسمبر جنوری میں منتقل کیے گئے پیاز کو جنگلی ہالوں، جنگلی پالک، جنگلی چولائی، قلفہ، ہاتھو، دمبی سٹی اور کرنڈ وغیرہ زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ ستمبر اکتوبر میں منتقل شدہ پیاز کو اٹ سٹ، ڈیلا لمب گھاس، سوانکی، مدھانہ، بھوئیں اور کرنڈ وغیرہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ ان کی تلفی کے لئے اگاؤ سے پہلے یا اور اگاؤ کے بعد مناسب جڑی بوٹی مار زہر سپرے کرنے کے ایک ماہ بعد کمازکم ایک مرتبہ گوڈی کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ جڑی بوٹیوں کے گوناں گوں مسائل کی مناسبت سے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔

اگاؤ سے قبل سپرے:

اگاؤ سے قبل پینڈی میتھالین یا ایس میٹو لا کوریا ڈوآل گولڈ استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس دونوں میں سے کونسی زہر سپرے کی جائے؟ وقتِ کاشت اور جڑی بوٹیوں کی نوعیت کی مناسبت سے اس امرکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

اگیتی فصل کو جڑی بوٹیوں سے کیسے بچایا جائے؟

جولائی سے لے کر اکتوبر کے درمیان منتقل کیے جانے والے اگیتے پیاز کو ڈیلا، سوانکی، تاندلہ اور اٹ سٹ جیسی جڑی بوٹیاں زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ ان سب کی تلفی کے لئے ڈوآل گولڈ 700 ملی لٹر فی ایکڑکے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر نرسری منتقل کرنے کے ایک دن بعد (مناسب انتدائی تربیت لینے کے بعد) پیاز سمیت تمام کھیت میں سپرے کردی جائے۔ اگر ڈیلے اور تاندلے کا مسئلہ نہ ہو اور صرف اٹ سٹ اور سوانکی کا مسئلہ ہو تو اگیتی فصل میں بھی ڈوآل گولڈ کی بجائے پینڈی میتھالین (1000 ملی لٹر) استعمال کی جاسکتی ہے۔اگیتی فصل پر ڈوآل گولڈ کا منفی اثر زیادہ ہوتاہے۔ زہروں کی اثر سے بچ جانے والی اکاد کا جڑی بوٹیوں کی تلفی اور جڑوں کی ہواداری کیلئے سپرے کرنے کے ایک ماہ بعد گوڈی بھی کردی جائے۔ اگر زہر کا اثر ختم ہونے کے بعد کچھ جڑی بوٹیاں دوبارہ نکل آئیں تو حسب ضرو۔ رت دوسری گوڈی کا بھی بندبست کیا جائے۔

موسمی فصل کو جڑی بوٹیوں سے کیسے بچایا جائے؟

سردیوں کی فصل پر ڈوآل گولڈ کا منفی اثر کم ہوتاہے۔ اس لئے دسمبر یاجنوری میں منتقل کی جانے والی فصل کے لئے ڈو آل گولڈ یا پینڈی میتھالین میں سے کوئی ایک استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس موسم میں گرمیوں کے مقابلے میں دونوں زہروں کی زیادہ مقدار ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ چنانچہ ڈوآل گولڈ 800 ملی لٹر یا پینڈی میتھالین 1200 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر نرسری منتقل کرنے کے ایک دن بعد سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے ۔جڑوں کی ہواداری اور بچ جانے والی جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے ضروری ہے کہ سپرے کرنے کے ڈیڑھ ماہ بعد ایک مرتبہ گوڈی بھی کر دی جائے ۔

Sets والی فصل کو جڑی بوٹیوں سے کیسے بچایا جائے؟

اگست میں چھوٹے پیازوں (Sets) والی فصل منتقل کرنے سے پہلے آبپاشی کردی جائے اوت چھوٹے پیاش لگا۔ دیے جائیں۔ آبپاشی کے ایک دن بعد گیلے وتر میں زمینی ساخت کی مناسبت سے ڈوآل گولڈ 700 تا 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر سپرے کر دی جائے۔ اگر کھیلیوں کی چونیوں پر چوڑے پتوں والی جری بوٹیا۔ ں بچ گئی ہو تو اس سرے کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر 300 ملی لٹر آکسی فلورفن ( آکسیجن یا ٹT کسی فن) سولٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے۔ سپرے کرنے کے ایک تا ڈیڑھ ماہ بعد ایک مرتبہ گوڈی بھی کردی جائے تو یہ فصل ہر قسم کی جڑی بوٹیوں سے بچ جاتی ہے۔

اگاؤکے بعد سپرے:

اگاؤ کے بعدآکسیجن فلورفن (کسی فن)، فینوکساپراپ یا پیوکساڈین (ایگزیل) وغیرہ استعمال کی جاسکتی ہیں۔ ان زہروں کے استعمال کرنے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ اگر منتقلی کے وقت کوئی بھی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو اور پیاز میں چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں اگ چکی ہوں تو آکسی فلورفن (آکسی فن) گرمیوں میں 300 ملی لٹر اور سردیوں میں 400 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے منتقل کرنے کے بعد تین تا چار ہفتے کے اند ر اندر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر صرف گھاس خاندان کی جڑی بوٹیوں کا مسئلہ ہوتو پیوکساڈین (ایگزیل) 300 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر پیاز میں ہر قسم کی جڑی بوٹیاں اگ چکی ہوں تو مزکورہ دونوں اقسام کی زہریں ملاکر سپرے کرنے کے بجائے ہفتے بھر کا وقفہ کرکے الگ الگ سپرے کی جاسکتی ہیں۔

ڈیلا کیسے ختم کیا جائے؟

گرمیوں میں کاشتہ پیاز کوڈیلا شدید نقصان پہنچاتاہے۔ اگنے کے بعد زہروں کی مدد سے پیاز میں سے ڈیلے کو پوری طرح کنٹرول کرنا کافی مشکل ہے۔ڈیلا کنڑول کرنے کے لئے ہیلو سلفیوران یا گلائی فوسیٹ مندرجہ ذیل حالات میں استعما ل کی جاسکتی ہیں۔

ہیلو سلفیوران:

اگر پیاز کاشت کرنے سے پہلے سابقہ فصل مکئی کاشت کی گئی ہو اور اس مکئی میں ہیلو سلفیوران 15 تا 20 گرام فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی گئی ہو تو بیشتر ڈیلا گٹھیوں سمیت تلف ہوجاتاہے۔ مئی بعد اگست سے دسمبر تک کسی وقت پیاز کاشت کیا جائے تو ڈیلے سے بچا رہتاہے۔

گلائی فوسیٹ:

کھیت کو ڈیلے سے پاک کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کاشت سے 40 دن پہلے خالی کھیت میں ڈیلا اگاکر اس پر راونڈاپ یا گلائی گوسیٹ ڈیڑھ تا دولٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جائے ۔ سپرے کاعمل تین ہفتے تک ڈیلا اگانے کے بعد وتر حالت میں کیا جائے ۔ سپرے شدہ کھیت دو سے تین ہفتے تک وتر قائم رکھا جائے ۔ ڈیلے کی زیرِ زمین گٹھیون تک بہتر سرایت پزیری کے لئے وتر قائم رکھنا ضروری ہے۔ سپرے کرنے کے ایک تا ڈیڑھ مہینہ بعد زمین تیار کرکے ڈیلے سے مبرا (Deela Free) کھیت میں پیاز کاشت کیے جاسکتے ہیں۔

پیاز پر زہریں کس حد تک محفوظ ہیں؟

گرمی کاشتہ پیاز پر زہریں کم محفوظ ہیں لیکن سردیوں کی فصل ان کے منفی اثرات سے کافی حد تک محفوظ رہتی ہے۔

پینڈی میتھالین:

مجموعی طور پر پینڈی میتھالین زہر ڈوآ ل گولڈ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے۔ اٹ سٹ اور سوانکی ، مدھانہ جیسی موسمی جڑی بوٹیاں اگنے کا امکان ہوتو پینڈی میتھالین کو ترجیح دی جائے۔ یہ زہر گرمیوں اور سردیوں میں کاشتہ پیاز پر یکسا۔ ں محفوظ ہے۔ تاہم چھوٹی عمر کی یا دو دو پتوں والی نرسری سے کاشتہ فصل متاثر ہوتی ہے۔ یہ زہر پیاز کی نرسری کی بجائی کے وقت استعمال نہیں کی جاسکتی ۔

آکسی فلورفن:

پیاز میں اٹ سٹ اور سوانکی، مدھانہ جیسی موسمی جڑی بوٹیاں اگنے کا امکان ہو تو اکسی فلورفن (آکسی فن،T آکسیجن یا ہدف) گرمیوں میں 300 اور سردیوں میں 400 ملی لٹر پینڈی میتھالین کے متبادل کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے نرسری منتقل کرنے کے ایک دن بعد سپرے کی جائے تو محفوظ ثابت ہوتی ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ زہر نہ صر ف پینڈی میتھالین کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے بلکہ جڑی بوٹیوں کے گاؤ کے بعد بھی سپرے کی جاسکتی ہے۔ بیز بیج والی فصل اور چھوٹے پیازوں (Sets) والی فصل پر یہ زہر کافی حد تک محفوظ ثابت ہو تی ہے۔ لیکن گرم موسم میں منتقل شدہ پیاز پر نئی کونپلیں نکلنے کے بعد سپرے کی جائے۔ تو پتوں کو معمولی نقصا۔ ن پہنچاتی ہے۔ پیاز کی نرسری میں اس زہر کا محتاط استعمال ابتدائی تربیت کے بعد ہی کیا جاسکتاہے۔

ایس میٹولا کلور:

اگر پیاز میں ڈیلا یا تاندلہ اگنے کا قوی امکان ہو تو اضطرارا ڈوآل گولڈ یا ایس میٹو لا کلور سپرے کی جاسکتی ہے۔ یہ زہر پیاز کی ابتدائی نشوونما کوروکتی ہے۔ دسمبر جنوری میں منتقل شدہ فصل کے مقابلے میں گرمیوں والی فصل اس زہر سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔اسی طر ح چھوٹی عمرکی یا دودو پتوں والی نرسری کے مقابلے میں چار چار پتوں پر مشتمل زیادہ عمر کی نرسری کم متاثر ہوتی ہے۔

برداشت اور سنبھال :

وسطی پنجاب کی جنوری میں منتقل کی گئی فصل مئی میں برداشت کی جاتی ہے۔ جبکہ جولائی کاشتہ خزاں کی فصل نومبر دسمبر میں تیارہوجاتی ہے۔ جب پیاز کے تنے خشک ہو کر گرجائیں تو اسے اکھاڑ لیا جائے ۔ اگر تنے گرنے سے پہلے ہی اکھاڑ لیا جائے تو کٹائی کے بعد نئی پھوٹ نکل آتی ہے جو پیاز کا معیار خراب کرتی ہے۔ فصل کو اچھی طرح پکا کر اکھاڑ ا جائے تو پھوٹتانہیں اور پیاز کو زیادہ عرصہ کے لئے سٹور کیاجاسکتاہے۔ پیاز اکھاڑنے کے بعد ایک دو دن کے لئے سایہ دار جگہ میں خشک کیا جائے پھر اس کے پتوں کی کٹائی کی جائے ۔ اکھاڑ نے کے بعد اسی روز کٹائی نہ کی جائے۔سخت اور بھاری میرا زمین میں پیاز اکھاڑنے کا عمل درمیانے یا کم وتر میں کھرپے کی مدد سے کیا جائے۔ اسی طرح گیلے وتر میں اکھاڑ ا گیا پیاز جلدی خراب ہوسکتاہے۔ کٹائی کے بعد چار انچ یا اس سے چھوٹی تہہ کی صورت میں سایہ دار جگہ پر سٹور کیا جائے ۔

پیداوار:

مجموعی طور پر پاکستان کی اوسط پید اوار بہت کم ہے ۔ دیسی پیاز کی عمومی پیداوار ڈیڑھ تا دو من او ر بیج کی 3تا4 من فی ایکڑ تک ہوجاتی ہے۔ لیکن بہتر کاشت اور ساز گارموسمی حالات کی بدولت 300 من پیاز یا 5تا7 من بیج فی ایکڑ حاصل کیا جاتا سکتا ہے۔ پیشہ ورانہ طریقے سے کاشت کیا جائے تو دوغلی اقسام کا پیاز 500 تا 600 من فی ایکڑ پیداوار دے سکتاہے۔ حالیہ سالوں کے دوران دیسی اقسام کی کاشت بہت محدود ہوتی جارہی ہے ۔وسیع پیمانے پر کاشت کرنے کے لئے بیشتر کاشتکار صرف دوغلی اقسام ہی کاشت کرتے ہیں۔

مارکیٹنگ ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ:

پاکستان کی پیداوار میں پنجاب کی فصل کا حصہ تقریباً25 فیصد ہے ۔ مارکیٹ میں وسیع پنجاب کے پیاز کی آمد اپریل مئی سے جون تک جاری رہتی ہے اور اکثر اس فصل کا ریٹ کم ہوتاہے اور کافی اچھے ریٹ پر بکتاہے ۔ بلو چستان کی فصل کی حصہ 25 فیصد سے زیادہ ہے۔ بلو چستان میں فروری مارچ میں براہ راست پیاز ہوتے ہیں جو ستمبر سے لیکر نومبر تک مارکیٹ کو کنڑول کرتاہے۔سند ھ کی پیداوار کا حصہ تقریباً 40 فیصدہے۔ سندھ میں اگست میں منتقل کرتے ہیں جودسمبر میں تیار ہوجاتاہے۔ یہ فصل دسمبر سے لیکر مارچ تک مارکیٹ کو کنڑول کرتی ہے۔ وسط نومبر اور دسمبر کے درمیان پیاز کی قلت ہوجایا کر تی تھی لیکن بھارت سے درآمد کی وجہ سے حالیہ سالوں کے دوران اس عرصہ میں بھی پیاز کی قلت نہیں رہی۔ گویا پنجاب کے کاشتکار بہت اگیتی کاشت یا چھوٹے پیازوں والی کاشت سے بھی منافع نہیں کماسکیں گے۔

پیداواری مسائل:

اس کے اہم پیداواری مسائل میں جڑی بوٹیاں، بیماری (پرپل بلاچ) موسم وآب و ہو اکی ناسازگاری، غیر مستحکم مارکیٹ یا قیمتوں کا اتار چڑھاؤ ، کھادوں کا غیر متناسب اور سٹوریج کی سہولتوں کا فقدان وغیرہ شامل ہیں۔

پیاز کا بیج بنانا:

وسطی پنجاب میں پیاز کا بیج بنانے میں بیماری ( پرپل بلاچ ) کافی بڑی روکاوٹ ہے۔ کسی سال موسم ساز گار رہے۔ تو پیاز کا بیج کافی مقدار (5 تا 7 من فی ایکڑ) میں پیدا ہوجاتاہے۔ بیج پیدا کرنے کیلئے شروع دسمبر میں پیاز لگانے کی سفارش کی جاتی ہے۔ بجائی سے قبل تیز چاقویا چھری سے چوٹی سے پیاز کا ٹ کر بویا جائے تو اگاؤ بہتر ہوجاتاہے۔ نومبر کاشتہ اگیتی فصل پر بیماری (پرپل بلاچ) کا حملہ زیادہ شدت کے ساتھ ہوتاہے۔ لیکن دسمبر کاشتہ پیاز پر یہ بیماری کم آتی ہے۔ بیج والی فصل کاشت کرنے کے لئے علاقے کی مناسبت سے مقامی اقسام کی ضرورت ہوتی ہے۔ وسطی پنجاب می سوات۔1 کے مقابلے میں پھلکارہ اور دیسی سرخ زیادہ کامیابی کے ساتھ بیج پید ا کرسکتے ہیں۔ بیج کی بھر ۔ پور پیداوار حاصل کرنے کے لئے ایک ایکڑ میں درمیانہ سائز (40 تا 50 گرام) کے 18 تا 20 من یا 20 تا 22 ہزار پیاز ہونے ضروری ہیں۔بیج والے پیاز کاشت کرنے کے لئے لائنوں کا فاصلہ دو تا اڑھائی فٹ اور پودوں کا نو دس انچ رکھاجائے ۔ جب پیاز کی بیج والی ڈنڈیاں گنارے پوری طرح نکل آئیں تو پیاز کو مٹی چڑھادی جائے ۔ اگر مٹی نہ چڑھائی جائے تو پیاز کے گنارے پھولداری کے بوجھ سے گر سکتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے ڈوآل ۔ گولڈ 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر کاشت کرنے کے ایک دن بعد پیاز سمیت تمام کھیت میں سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر منتقلی کے وقت کوئی بھی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو اور پیاز میں چوڑے پتو ں والی جڑی بو۔ ٹیاں اگ چکی ہوں تو آکسی فلورفن(آکسی فن) 400 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے منتقل کرنے کے بعد تین تا چار ہفتے کے اند ر اندر سپرے کی جاسکتی ہے۔ کیڑے (تھرپس) سے بچانے کے لئے موزوں زہروں کا استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔ بیج والی فصل پر پرپل بلاچ کی بیماری شدید حملہ کرسکتی ہے۔ یہ بیماری بیج والی ڈنڈی ( Penduncle) پر ہلکے جامنی رنگ کے دھبوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور پیاز کی فصل بیج پیدا نہیں کرسکتی ۔ اس بیماری کے لئے انتیس درجے سینٹی گریڈ اور نمی کا تناسب پچاس فیصد انتہائی سازگارہے۔ایسا موسم اکثر مارچ کے مہینے میں ہوتا ہے۔ اس سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ کاشت کرتے وقت پیاز کو ٹاپسن ایم کے تین فیصد محلول میں ڈبو کر لگایا جائے۔ فروری اور مار چ کے دوران جب اس بیماری کے شدید حملے کی توقع ہوتی ہے۔ اس وقت کر زیٹ 300 گرام اور ٹاپسن ایم 100گرام دونوں زہریں سو لٹر پانی میں ملا کرہفتے ہفتے کے وقفہ سے تین سے پانچ مرتبہ سپرے کی جائے تو بیج والی فصل اس بیماری سے کافی حد تک بچھی رہتی ہے۔

معیاری پیاز کا حصول کیسے ممکن ہے؟

معیاری پیداوارحاصل کرنے کے لیے مناسب بیج کا انتخاب اولین شرط ہے۔ اگر بیج کا درست انتخاب نہ ہو تو بیشتر پیاز گنارے نکال کر ضائع ہوسکتاہے۔ مثلاً لمبے دنوں میں پیاز گنارے والی اقسام جو سوات، کوئٹہ اور مری سائیڈ میں لگائی جاتی ہیں وہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں لگائی جائے تو وہ پیاز نہیں بنائیں گی ۔ اسی طرح زیادہ عمر کی نرسری بھی مناسب سائز کے پیاز نہیں بناسکتی ۔ زیادہ عمر کی نرسری منتقل کی جائے تو پیاز نسارو ہو سکتاہے ۔ ڈیڑھ ماہ کی نرسری منتقل کردی جائے ۔ علاقے کی مناسبت سے اقسام منتخب کی جائیں۔ زیادہ اگیتا (دسمبر کے شروع میں) منتقل شدہ پھلکارہ پیاز تو یقینی اور پردس فیصد تک نسارو ہوتاہے۔

پیداوری عوامل کا حصہ:

اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں و آبپاشی کا حصہ تقریباً 25 فیصد ، زمینی تیاری و بیج یا نرسری و کاشت کا 25 فیصد ،کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کا 25 فیصد ، فصل کی برداشت اور مارکیٹنگ کا 25 فیصد بنتاہے ان اخراجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں ہے۔

پیداواری اخراجات اور آمدن:

موجودہ پیداواری حالات کے دوران ذاتی زمین کی صورت میں پیاز پیدا کرنے کا فی ایکڑ خرچ 66 ہزار (وسطی اور جنوبی پنجاب کے 1 تا 10 ایکڑ والے ایسے کاشتکار جن کو نصف مقدار نہری پانی بھی دستیاب ہو اور بعض ناگزیر اطلاقی اخراجات بھی شامل کریں تو زمینی تیاری و کاشت 10000، بیج ( ہائی برڈ) 10000، کھادیں 20000 ، پانی 3000، گوڈی و جڑی بوٹیوں کی تلفی 5000، کیڑے 1000، بیماری 1000 برداشت 7000، ٹرانسپورٹ 7000، متفرق 2000، کل 66,000) روپے بنتاہے ۔


پاکستان میں پیاز کی کاشت حصہ الف

PAR Jul 7, 2020 193

خوراکی و ادویاتی اہمیت :

پیاز کی تاثیر گرم درجہ اول اور خشک درجہ دوم میں ہے۔ یہ خون کی شریانوں میں فالتو کولیسٹرول کو تحلیل کرکے دل ے امراض سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔ یہ نظامِ ہضم کی رطوبتوں میں اضافہ کر کے بھوگ بڑھاتاہے۔ یض و پیشاب آور ہونے کے ساتھ ساتھ جراثیم کش خصوصیات بھی رکھتا ہے۔ ہاضم طعام ہونے کے ساتھ ساتھ دافع، بلغم بھی کھتاہے۔ نیز قوت باہ میں تحریک پید اکرتاہے ۔ نزلہ زکام ، ہیضہ کے امراض میں مفید ثابت ہوتاہے۔ خون کی کمی کا علاج ہے۔ کثیر استعمال سے ریاح غیلظ پیدا کرتاہے۔ہوا سو گرام پیاز میں 60 حرارے توانائی 10 گرام نشاستہ ، کیلشیم و فاسفورس تیس تیس ملی گرام، اس میں وٹامن بی اور سی کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ فصل کس حد تک منافع بخش ہے؟ اس کا شمار درمیانی اور کم منافع بخش فصلوں پرہوتاہے۔ اگر جدید دوغلی اقسام کاشت کرکے بھر پور پیداوار حاصل کی جائے تو پیاز ایک منا فع بخش فصل ہے۔ جیسا کہ حالیہ سالوں کے دوران بھارت کو ترجیحی ملک قرار دیاجا چکاہے اور ہماری مارکیٹ میں بھارتی پیاز کی مسلسل یلغان ہوتی رہتی ہے۔ ان حالات میں پیاز کی فصل زیادہ منا فع بخش نہیں رہی۔

فصلی ترتیب:

وسطی پنجاب میں یہ فصل مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے۔

  • پیاز ( دسمبر جنوری)۔ چاول (جون)۔ گندم ( نومبر)
  • پیاز ( فروری)۔ کدو کریلا (جون)۔ مٹر ( اکتوبر)
  • پیاز ( فروری) ۔ بھنڈی (جون) ۔ گوبھی ( اگتوبر)
  • پیاز + مرچ ( فروری)۔ چاول (جولائی) ۔ گندم ( نومبر)
  • پیاز + کپاس( فروری)۔ پیاز + مرچ(اگلے سال فروری)
  • پیاز گڈی( اگست)۔ گندم(نومبر دسمبر) ۔ چاول ( جون)
  • پیاز اگیتا( اکتوبر) ۔ ٹماٹر (جنوری فروری)۔ مولی جولائی)

کیسی زمین میں کاشت کی جائے؟

پیاز میرا و ہلکی میرا زمین میں بہتر پیداوار دیتاہے۔ کلراٹھی اور ریتلی زمین میں اس کی پیداوار کم ہوتی ہے۔ یہ کم گہری جڑوں والی فصل ہے۔ اس لئے زمین زیادہ گہرائی تک تیار نہ کی جائے۔ لیزر لیولر کی مدد سے ہموار شدہ زمین میں روٹا ویٹر چلانے کے بعد رجر کی مدد سے کھیلیاں بنائی جائیں۔ یکساں سائز کی کھیلیوں میں نہ صرف آبی استعمال کی کفا۔ یت ہوتی ہے۔ بلکہ ساری فصل (Uniform) پیداہوتی ہے

کاشت کے علاقے:

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو پیاز چین میں سب سے زیادہ اگایا جاتاہے۔ پیاز کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان اگرچہ دنیا میں پانچویں نمبر پرہے۔ لیکن فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے جنوبی کوریا پہلے اور پاکستان 75 ویں نمبر پر ہے جس سے ظاہر ہے کہ فی ایکڑ پیدا وار کے لحاط سے بہت پیچھے ہے۔ حالیہ سالوں کے دوان پاکستان میں پیاز تین لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کاشت کیا جارہاہے۔ جس سے کم و پیش تین لاکھ ٹن پیداوار حاصل ہوئی۔ کم و پیش پورے پنجاب میں اگایا جاتاہے۔ لیکن ملتان، بہاولپور اور لیہ میں زیادہ کاشت ہوتا ہے۔

آب و ہوا اور اگاؤ:

معتدل اور خشک آب و ہوا میں بہتر پیداوار دیتاہے۔ یہ سردی اور کورابرداشت کرسکتاہے لیکن گرم موسم میں متاثر ہوتا ہے۔ پیا زکوا گاؤ کے لئے کم از کم 3 تا 5 اوسطاً 10 تا 15 اور زیادہ 32 تا 35 درجہ سینٹی گریڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا عمومی اگاؤ 70 تا 90 فیصد ہوتاہے۔ معتدل خشک آب و ہوا میں اسے بیماری نہیں لگتی ۔ اگر مارچ میں فضائی نمی زیاد ہ ہوجائے تو بیماری (روئیں دار پھپوندی) کا شدید حملہ ہوسکتاہے۔

اقسام اور بیج کی دستیابی:

پنجاب میں عام طوپر چھوٹے (10 تا 12 گھنٹوں والے) دنوں میں پیاز بنا نے والی کھلے عام اختلاط کرنے والی (Open polinated) اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ چھوٹے دنوں والی دوغلی اقسام بھی کاشت کی جاسکتی ہیں۔ پنجاب میں لمبے (14 تا 15 گھنٹوں والے) دنوں میں پیاز بنانے والی اقسام کاشت نہیں کی جاسکتیں ۔ کھلے عام اختلاط کرنے والی مقامی اقسام میں پھلکارہ ، ڈارک ریڈ، سوات۔1 دیسی سُر خ وغیرہ شامل ہیں۔ مقامی طور پر تیار شدہ بیج نا کافی ہوتاہے۔ اس لئے پنجاب میں دیسی اقسام کا بیشتر بیج انڈیا سے اور دوغلی اقسام کا امریکہ اور دیگر مما لک سے درآمد کیا جاتاہے۔

ان میں سے اہم اقسام کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

پھلکارہ:

یہ قسم پنجاب اور سندھ میں اگائی جاتی ہے۔اس کی پیداوار ی صلاحیت کافی زیادہ (200 تا 250 من) فی ایکڑ تک ہوتی ہے ۔رنگ قدرے گلابی، چھلکا موٹا، سٹوریج کولٹی بہترہے۔ یہ قسم اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہو چھوٹے اور بڑ۔ ے دنوں میں پیاز بنا سکتی ہے۔ اسی وجہ سے پنجاب میں اسکی کا شت کا دورانیہ کافی طویل ہے۔

دیسی سرخ اور دیسی سفید:

دیسی سرخ قسم پنجاب میں بکثرت اگائی جاتی ہے۔اس کی پیداواری صلاحیت درمیانی، رنگ گلابی، چھلکا د درمیانہ۔ سٹوریج کوالٹی بہترین ، Short day ، لیکن دیسی سفیدسفید کی سٹوریج کوالٹی کم ، پنجاب میں اس کی پیداوار دیسی سرخ کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ دیسی سفید کی مانگ بھی کم ہے۔ فیصل آباد اگیتی یہ قسم پنجاب میں اگائی جاتی ہے۔ اس کی پیداوار زیادہ ( 200 تا 250 من، رنگ گلابی ، چھلکا درمیانہ ، سٹوریج کوالٹی بہترین ،Short day پودا ہے۔

سوات:

یہ قسم زیادہ تر سرحد (پختونخواہ) میں اگائی جاتی ہے۔ لیکن پنجاب میں کامیاب ہے ۔ اس کی پیداوار زیادہ، رنگ ہلکا۔ گلابی، چھلکا موٹا، اس کی سٹوریج کوالٹی بھی کافی بہتر ہے۔

دوغلی اقسام:

جدید کاشتکاری میں دوغلی اقسام زیادہ اہمیت حاصل کر چکی ہیں۔ پیاز کی مقامی اقسام میں سٹور کیے جانے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے لیکن ان کی پیداوار ی صلاحیت کم ہوتی ہے۔کم پیداوار کی وجہ سے دیسی اقسام ملکی ضرورت پوری نہیں کر سکتیں ۔ پیاز کے پیشہ ور کا شتکار صرف دوغلی اقسام ہی کاشت کرتے ہیں۔ پیاز کی کاشت کا تجربہ نہ رکھنے والے کاشتکاروں کو چاہئے کہ دوغلی اقسام کا شت کرنے سے پہلے قسم کی پوری پوری چھان بین کرلیں ۔ صرف اپنے علاقے اور ماحول سے مناسبت رکھنے والی اقسام ہی کاشت کریں۔ حالیہ دوغلی اقسام میں ایس پی ریڈ، ریڈ بیوٹی، سیلون، ریڈ کمانڈر، ریڈ پرنس، ریڈڈائمنڈ، روزیٹا، ریڈبون، رائل ریڈ اور تکی وغیرہ شامل ہیں۔ ان اقسام کا بیج کافی مہنگا ہوتاہے۔ حالیہ سالوں کے دوران ایک کلوگرام ہائی برڈ بیج 10 تا 25 ہزار روپے میں فرورخت ہو رہاہے۔ پنجاب کی مارکیٹ میں ہلکے سرخ رنگ والے پیاز کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے ریڈ بیوٹی اور روز یٹا جیسے جامنی سرخ رنگت والے پیاز کی ڈیمانڈ کم ہوتی ہے۔ سفید رنگت والے پیاز کی ڈیمانڈ کراچی کی مارکیٹ میں زیادہ ہوتی ہے۔ایسی دوغلی اقسام جن کے پیاز نصف کلو گرام یا اس سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں وہ بلوچستان کی وادیوں میں کاشت کیے جاتے ہیں۔ یہ لمبے دنوں والی اقسام ہیں۔ یہ اقسام پنجاب کے بیشتر علاقوں میں پیاز نہیں بناتیں۔ اس اقسام کو زیادہ عرصہ کے لئے سٹور نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے درمیانے سائز کے پیاز پیدا کرنے والی اقسام کو ترجیح دی جاتی ہے۔ چند اہم حالیہ دوغلی اقسام کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

رید کمانڈ:

ریڈ کمانڈ کی پیداواری صلاحیت 500 تا 600 من فی ایکڑ تک ریکارڈ کی جا چکی ہے۔ اس کا سائز درمیانہ و بڑا و رنگت پر کشش گلابی ، پھولداری (Peduncle) نکالے بغیر پیاز بناتاہے۔ اسی وجہ سے ان اقسام کو پیداواری صلاحیت دیسی اقسام کے مقابلے میں زیادہ وہوتی ہے۔

روزیٹا:

اس کی پیداواری صلاحیت بھی 500 من فی ایکڑ تک ہے۔ لیکن اس کا سائزدرمیانہ رنگت ہلکی گلابی ، پھولداری نکا۔ لے بغیرپیاز بناتاہے۔

ریڈبیوٹی:

اس قسم کی پیداواری صلاحیت ریڈ کمانڈر اور روزیٹا سے کم نہیں ہے لیکن گہرے سرخ اور جامنی رنگت کی وجہ سے مار۔ کیٹ میں یہ پیاز درمیانی قیمت پر فروخت ہوتاہے۔ پیاز بننے کے دوران ہلکی سی پھولداری بھی نکال لینا ہے۔ مثالی کاشتکاری کے لئے صرف دوغلی اقسام کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

شرح بیج:

اقسام کی نوعیت اور اوقاتِ کاشت کی مناسبت سے اس کی شرح بیج میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ بیج کی روئیدگی عموماً ایک سال تک ہی بہتر رہتی ہے۔ ایک سال بعد اس کی روئیدگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس لئے صرف تازہ بیج کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ ایک گرام میں پیاز کے تقریباً تین سو بیج آتے ہیں۔ پیاز کے ایک ہزار بیجوں کا وزن عموماً 4 تا 5 گرام ہوسکتا ہے۔ بہتر ٹیکنالوجی کی بدولت اگر سارے بیج اگ کر منتقلی کے لئے تیار ہوجائیں تو اڑھائی لاکھ پیازوں کے لئے صرف ایک تا سوا کلو گرام بیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف حالات میں مندرجہ ذیل شرح بیج استعمال کی جاسکتی ہے۔

موسمی کاشت:

اکتو بر کاشتہ موسمی فصل کے لئے 99 فیصد اگاؤ والا ایک کلو گرام ہائبر دیج دو تا تین مرلے جگہ پرکاشت کیا جاسکتا ہے۔ دیسی اقسام پھلکارہ یا نصرپوری کا (60 تا 70 فیصد اگاؤ) 2کلو گرام تین تا چار مرلے رقبہ پر کیاریاں بنا کر کاشت کیا جائے۔

نرسری کی اگیتی کاشت:

پھلکارہ یا دیسی اقسام کی جولائی کا شتہ فصل کیلئے تین کلوگرام بیج استعمال کیاجائے۔ دیسی اقسام کا بیج تین مرلے رقبہ پر کیاریاں بنا کر کاشت کیا جائے تو ایک ایکڑ کی صحت مند نرسری حاصل ہوتی ہے۔

چھوٹے پیاز کی اگیتی کاشت:

پیاز کی سائز کی مناسبت سے ایک ایکڑ میں سات تا دس من چھوٹے پیاز (Sets) استعما ل ہوتے ہیں۔

بیج والی فصل:

بیج والی فصل کاشت کرنے کے لئے درمانہ سائز (40 تا 50 گرام) کے 18 تا 20 من پیاز کی ضرورت ہوتی ہے

نرسری کی تیاری:

باریک تیاری کردہ پوری طرح خشک اور ہموار شدہ چار مرلے زمین میں چھوٹی چھوٹی (ایک میٹر چوڑی اور دو میٹر لمبی) کیاریوں میں چھٹہ کرکے کاشت کیا جاتا ہے چھٹے کی صورت میں اگر زیادہ گھنی نرسری اگ آئے تو نہ صرف اس پر بیماری کا حملہ زیادہ ہوت اہے بلکہ کمزور نرسری سے چلنے والی فصل میں بہت سے پودے مر جاتے ہیں اور پیاز کی بھر پور پیداوار نہیں ملتی۔ اس لئے پیاز کی نرسری زیادہ گھنی کاشت نہ کی جائے۔ چھٹے سے کاشتہ فصل کا کافی زیادہ بیج کیڑے چراکر لے جاسکتے ہیں۔ اس لئے چھٹہ کی بجائے 3تا4 انچ کے فاصلے پر قطاروں میں نرسری کاشت کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً چھوٹے پیمانے پر کاشت یا زیادہ اگیتی کاشت کی صورت میں قطاروں میں نر سری کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

پیاز کو اگاؤ کے لئے زیادہ نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اگاؤ مکمل ہونے تک روزانہ فوارے کی مدد سے آبپاشی کریں۔ اگاؤ کے بعد نرسری کو ہلکی آبپاشی کی جائے۔ اگیتی کاشت کی صورت میں نمی برقرار رکھنے کے لئے اس پر پرالی یا سر کنڈ ا وغیرہ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اگر زمین ہلکی میرا ہوتو فورے سے پانی ڈالنے کے بجائے ہلکی آبپاشی بھی کی جاسکتی ہے۔ بیج اٹھانے والے کیڑے کے خاتمہ کیلئے نرسر ی کے گرد اگرد کو نفیڈار کے 2 فیصد آبی محلول کی سپرے کو پیکس پاوڈر کا دھوڑا کیا جاسکتاہے۔ نرسری کا اگاؤ مکمل ہونے کے بعد اس پر بیماری کے خلاف دو تا تین مرتبہ خطرہ کش زہریں مثلاً ایمی سٹار، کیبریو ٹاپ ، ریڈومل گولڈ یا سکسس سپرے کی جائیں۔ اکتوبر میں کاشتہ 35تا 45 دن میں منتقلی کے قابل ہوجاتی ہے۔ لیٹ (نومبر) کاشتہ نرسری دو ماہ میں تیار ہوجاتی ہے۔ زیادہ اگیتی نرسری کو منتقل کرنے سے ایک ہفتہ قبل پانی بند کردیا جائے تاکہ سخت جان ہو جائے۔ اکھاڑنے کے دوران زمین میں وتر موجود ہونا چاہئے تاکہ اکھاڑنے میں سہولت رہے۔ اگر نرسری پھپھوندکش زہر ٹاپسن ایم کے دو فیصد آبی محلول میں ڈبو کر منتقل کی جائے تو ابتدائی بیماری سے محفوظ رہتی ہے۔ بہتر یہی ہے نرسری اکھاڑنے کے بعد اسی دن منتقل کردیا جائے۔ اگرچہ بلوچستان اور جنوبی مغربی پنجاب کے کچھ علاقوں میں براہ راست بیج سے بھی پیاز اگایا جاتا ہے۔ لیکن پنجاب میں زیادہ تر پیاز نرسر ی منتقل کرکے کاشت کیا جاتاہے۔ لیہ اور تھل ایریا کی آبپاش زمینوں میں کھیلیوں کے کناروں پر چوکے کی مدد سے وسیع پیمانے پر پیاز کی کامیاب کاشت کے امکانا ت موجود ہیں ۔ پیاز کی نرسری منتقل کرنے کا طریقہ ہائے کاشت کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

کیاریوں میں کاشت:

میرا اور ہلکی میرا زمینوں میں اور جہاں پانی کے نکاس کا اچھا انتظام ہو وہاں پیاز کیاریوں میں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔ کیاریوں میں نرسری منتقل کرتے وقت اقسام کی مناسبت سے قطاروں کا باہمی فاصلہ 6 تا 9 انچ اور پودوں تین تا چار انچ ہونا چاہئے۔ گویا ہموار زمین میں 6x4 یا 8x3 انچ کے حساب سے ایک ایکڑ میں کم از کم دو لاکھ پیاز لگائے جا۔ ئیں توبھر پور پید ا وار حاصل ہوسکتی ہے۔

کھیلیوں پر کاشت:

بھاری میرا اور سخت زمینوں میں پیاز کی کاشت کیاریوں پر نہ کی جائے۔ بلکہ کھیلیاں بنا کر ان کے کناروں پر منتقل کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ نرسری کو زیادہ گہرانہیں دبایا جائے تو پیاز کا سائز چھوٹا رہ جاتاہے۔چھے سے آٹھ ہفتے کی نرسری کھیلیوں کے کناروں پر منتقل کی جاتی ہے۔ سوا دو دو فٹ کی کھیلیوں کے دونوں کناروں پر منتقل کرتے وقت پودوں کا فاصلہ دو تین انچ رکھاجائے ۔

چھوٹے پیازوں (Sets) کی کاشت:

نئی ٹیکنالوجی کی بدولت پیاز سے نفع کمانے کے لئے دوسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں پھلکارہ یا نصر پوری کا 3 کلو بیج چھ تا آٹھ مرلے پر نرسری کاشت کریں۔ اتنی سردی میں پیاز کا اگاؤ متاثر ہوتاہے۔ چنانچہ بہتر اگاؤ کے لئے اس پر پلاسٹک شیٹ استعمال کریں۔ پانچ ملی میٹر موٹائی کے قدرے گول کئے گئے سریے کیاریو ں پر گاڑنے کے بعد اس پر سفید ( شفاف) پلاسٹک شیٹ ڈالی جائے۔ اگاؤ مکمل ہونے پر شیٹ اتار دی جائے۔ اگر نرسری مارچ میں کا۔ شت کی جائے تو شیٹ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مئی کے آخر تک اس جگہ کھڑی نرسری سے چھوٹے چھوٹے پیاز تیار ہوجاتے ہیں۔ مئی میں اس سے بننے والے چھوٹے چھوٹے (مٹر کے دانے جتنے موٹے یا صرف اتنے موٹے کہ ایک کلو میں 600 عدد آجائیں) پیاز کھاڑ لئے جائیں۔ ایک ایکڑ میں سات آٹھ من چھوٹے پیاز (Sets) استعمال ہوتے ہیں۔ ہوادار بوریوں یا ٹوکریوں میں ڈال کر ان کو تین ماہ تک ٹھنڈی جگہ پر سٹور کر لیں۔ مون سون کے دوران یعنی جولائی کے آخر یا اگست کے شروع ان کو 75 سینٹی میٹر کی کھالیوں کے دونوں طرف دو تین انچ کے فاصلہ پر کاشت کردیں اور ایک ایکڑ میں ڈیڑھ تا دو لاکھ پیاز کاشت کیے جاسکتے ہیں۔ واضح رہے کے کھالیوں میں منتقلی کی بجائے کھالیوں کو پانی لگانے کے فوراً بعد پیاز کی گنڈیاں منتقل کی جائیں۔ لہذا منتقلی کے ایک دن بعد اس پر ڈو آل گولڈ کا اعتشاریہ آٹھ فیصد آبی محلول سپرے کیا جائے۔ یہ فصل پیاز کی قلت کے دوران یعنی نومبر میں بطور سبز پیاز او ر دسمبر میں بطور خشک تیار ہوجاتی ہے۔ اس فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھنا اور پوٹاش ڈالنا بے حد ضروری امور میں سے ہے۔

بہت اگیتی کاشت کرنے کا طریقہ:

دوسراطریقہ یہ ہے کہ پھلکارہ جو لائی کے آخر میں چھ انچ اونچی ، تین مربع فٹ کی پٹٹریوں پر تین تین انچ کے فاصلے پر لکیریں لگا کر کاشت کیاجائے۔ کاشت کے فوراً بعد اسے پرالی یا سر کنڈا وغیرہ سے ڈھانپ دیا جائے۔ فوارے سے روزانہ ہلکی آبپاشی کرتے ہوئے اس کا اگاؤ مکمل کیا جائے۔ جب اگنا شروع ہوجائے تو دن کے وقت شدید دھوپ سے بچانے کے لئے کیاریوں پر پرالی یا سر کنڈا کی سر کی ڈال دی جائے اور روزانہ شام کو اتار دیاجائے۔ نرسری کے بہتر اگاؤ کے لئے کم و بیش دس دن تک یہ عمل بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دس دن بعد سایہ ہٹا دیاجائے۔ اگر مسلسل زیادہ دنوں تک پرالی یا سرکنڈا اگے ہوئے پیاز پر پڑارہے تو اسے مرجھاؤ کی بیماری (Damping off) لگ جاتی ہے۔ اگاؤ کے بعد پہلے ایک ماہ کے دوران اس پر بیماری کے خلاف کم از کم دو مرتبہ ریڈومل گولڈ یا متبادل زہر کا سپر ے ضروری ہے۔ یہ نرسری ستمبر کے دوران کیاریوں میں یا کھالیوں کے کنارے منتقل کردی جائے۔ یہ پیاز قلت کے دنوں میں دسمبر میں مارکیٹ میں آتاہے اور او نچے ریٹ پر بکتا ہے۔

مخلوط کاشت کا طریقہ:

ستمبر اکتوبر یا فروری میں وسیع پیمانے پر مخلوط کاشت کی صورت میں کماد پٹس پیاز بہت نفع بخش ثابت ہوسکتی ہے۔ اڑ۔ ھائی فٹ کے فاصلہ پر کھینیاں بناکر سمبر کے آخر میں کھالیوں میں کماد اور کھالیوں کے کناروں پر پیاز کاشت کردیا جائے۔ فروری مارچ کاشتہ کماد میں پیاز کاشت کرنے کا طریقہ یہ ہے۔ کہ دسمبر میں اڑھائی تا تین فٹ کے فاصلے پر کھلیاں بناکر پیاز کاشت کردیا جائے ۔ اسے فروری تک جڑی بوٹیوں سے اچھی طرح صاف رکھا جائے۔ فروری کے دوران اس کی کھالیوں میں کماد کاشت کردیا جائے ۔ جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کے لئے 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے ڈوآل گولڈ سپر ے کی جاسکتی ہے۔ کماد کے علاوہ مرچ ، تمباکو ، ٹماٹر، بھنڈی توری، کپاس اور دیگر کئی فصلو۔ ں کے ساتھ اس کی مخلوط کاشت کی جاسکتی ہے۔

آبپاشی:

نرسری منتقل کرنے کے بعد دسمبر سے اپریل تک پیاز کو زمین اور آب و ہو کی مناسبت سے چھ سے آٹھ مرتبہ پانی لگانے کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ منتقلی کے بعد پہلی دو آبپاشیاں ایک ہفتے کے وقفے سے کی جائیں۔ فصل اگر کھالیوں پر کاشت کی گئی ہوتو پانی کسی بھی سٹیج پر ان کے اوپر نہیں چڑھنا چاہئے۔ فصل کو کسی بھی مرحلے پر بھر پور آبپاشی سے نقصان ہوسکتاہے۔ دسمبر جنوری کے دوران منتقل شدہ پیاز کو اگر فروری کے دوران سوکا (Water Stress) لگ جائے تو کنارے نکال سکتاہے۔ اس لئے کسی بھی مرحلے پر پانی کا سوکا نہیں لگنا چاہئے۔ منتقلی سے چند یو م پہلے پانی روک کر نرسری کو سخت جان بنا لیا جائے۔ تو منتقلی کے بعد اچھی نشوونما کرتی ہے۔

وقتِ کاشت اور منتقلی:

وسطی پنجاب میں بیشتر فصل اکتوبر میں کاشت کی جاتی ہے۔ وسط اکتوبر سے وسط نومبر کے دوران کاشتہ نرسری کو دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں منتقل کیاجاتاہے۔ اکتوبر میں بوئی گئی نرسری منتقل کرنے کا بہترین وقت وسط دسمبر تا آخر دسمبر ہی ہے۔ لیکن ہمارے کاشتکاری اپنے اپنے کاشتی حالات کی مناسبت سے جنوری سے مارچ تک اس کی منتقلی کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ جو کہ دوست نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ پیاز کو ماہ دسمبر کے دوران ہی منتقل کیاجائے۔ اگر اکاد کا پودوں پر گنارے توڑدیے جائیں تو پیداوار میں زیادہ کمی واقع نہیں ہوتی ۔ تاہم دسمبر میں منتقل کردہ پیاز کی پیدا وار فروری میں منتقل کردہ پیاز کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔

وقتِ کاشت کے نئے افق:

حالیہ سالوں کے دوران پنجاب میں پیاز کو مختلف طریقوں سے کاشت کیاجانے لگاہے۔ اس لئے اس کے اوقاتِ کاشت بھی مختلف ہوچکے ہیں۔

زیادہ اگیتی کاشت:

جدید ٹیکنالوجی کے مطابق پنجاب میں پھلکا رہ پیاز کی کاشت جولائی اگست میں کی جاسکتی ہے۔ اسے ستمبر کے شروع میں منتقل کیاجاتاہے۔ اس موسم کی نرسری بیماری (Damping off) سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ نرسری منتقل کرنے کے بعد اس فصل پر جڑی بوٹیوں کا حملہ بھی زیادہ شدت کے ساتھ ہوتاہے۔

چھوٹے پیازوں کی کاشت:

چھوٹے پیاز (Sets) حاصل کرنے کے لئے پلاسٹک شیٹ ڈال کر دسمبر جنوری میں بھی نرسری کاشت کی جاسکتی ہے۔ مئی جون میں چھوٹے پیاز اکھاڑ لئے جاتے ہیں۔ دو ماہ تک ان کو ٹھنڈی اور ہو ادار جگہ پر سٹور کیاجاتاہے۔ یہ فصل وسط اگست کے دوران منتقل کی جاتی ہے۔ اور دسمبر جنوری میں تیار ہوجاتی ہے۔

پیاز کے گٹارے (Peduncle) نکلنا:

اگر نرسری دسمبر کے دوران اگائی جائے اور اس کی منتقلی فروری کے دوران کی جائے تو گٹارے نہیں نکلتے ۔ لیکن اتنی لیٹ نرسری منتقلی کرنے کی وجہ سے پیاز کی پیداوار کم ہوجاتی ہے۔ گٹارے نکلنے کا انحصار اقسام کی بجائے آب و ہو ا پر ہوتا ہے۔ اگر اگیتی منتقلی کی جائے تو گٹارے زیادہ نکلتے ہیں۔ اکتوبر کاشتہ نرسری کو دسمبر جنوری میں ( آٹھ ہفتے کی نرسری کو) منتقل کیا جائے تو پیاز نسارو نہیں ہوتا۔ منتقلی کے بعد بڑھوتری کے دوران کم و بیش ایک ماہ تک درجہ حرار۔ ت مسلسل 4 سینٹی گریڈ یا اس سے کم رہے تو آٹھ دس فیصد پودوں پر بھولداری یا گٹارے نکل سکتے ہیں۔ اگردسمبر جنوری میں بھی درجہ حرارت 6 سینٹی گریڈ سے زیادہ ہی بر قرار رہے تو گٹارے نہیں نکلیں گے۔ عام طور پر وسط جنوری کے بعد درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوجاتاہے۔ چنانچہ وسط جنوری کے بعد کی جائے تو بھی گٹارے کم نکلتے ہیں۔


پاکستان میں شملہ مرچ کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

خوراکی و ادویاتی اہمیت:

دیسی مرچ کے مقابلے میں نرم طریقے سیہضم کرنے والی رطوبات پیدا کرتی ہے۔ قبض کشاہونے کے ساتھ ساتھ بلغم و فالتو رطوبات اور گیس کا خاتمہ کرتی ہے۔ یہ وٹامن اے اور سی کا اہم مآخذ ہے۔ شملہ مرچ دیسی مرچ کے مقا۔ بلے میں نرم خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ اسی لئے دیسی مرچوں کے برعکس اس کا کثیر استعمال انتڑیوں کے لئے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتا۔

زمین اور علاقے:

اگرچہ شملہ مرچ میرا و ہلکی میرا زمین میں بہتر پیداوار دیتی ہے لیکن اس کو بھاری میرا زمین میں بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔ چکنی اور کلر اٹھی اور ایسی زمین جس میں ہوادار ی کا نظام کم ہو اس فصل کے لئے موزوں نہیں ہے۔ ایسی زمین نہ صرف اس کی نشوونما بہتر طور پر نہیں ہوتی بلکہ کالر راٹ کی بیماری جلدی حملہ آور ہوتی ہے۔ یہ فصل آبپاشی پنجاب کے ہر ضلعے میں کاشت ہوسکتی ہے۔ لیکن قصور ، لاہور ، گوجرانوالہ، چنیوٹ اور وادی سون میں زیادہ کاشت کی جاتی ہے۔

آب و ہوا:

شملہ مرچ معتدل گرم وخشک آب و ہوا میں بہتر پیداوار دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 24 تا 28 درجے سینٹی گریڈ پر بہتر نشوونما پاتی ہے۔ شدید گرمی اور کہر آلود سردی اس کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ گرم اور مرطوب موسم میں اس پر جھلساؤ کی بیما۔ ری ملہ آور ہوتی ہے۔ 10 درجے سینٹی گریڈ سے کم پر اسکا اگاؤ نہیں ہوتا۔ اگاؤ کے لئے کم از کم 15تا18 اسطاً 21 تا 25 اور زیادہ سے زیادہ 28 تا 35 درجے سینٹی گریڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔

موسمی اثرات سے نچاؤ:

بیرونی کاشت کی صورت میں جون اور جولائی میں شدید گرمی سے شملہ مرچ کا نقصان ہوتاہے ۔ اگر کھیت کے ارد گرد اور درمیان میں شر قاًغرباً ہر چھ چھ میٹر پر ڈھانچہ بود یا جائے تو یہ فصل مئی جون کے گرم موسم میں بھی اچھی پیداوار دے سکتی ہے۔ ڈھانچہ فصل کو گرمی اور آندھی وغیرہ کے نقصان دہ اثرات بھی بچا تاہے اور کھیت میں رطوبت بھی بڑھاتا ہے۔ جس سے پودے گرمی کے نقصان دہ اثرات سے بچے رہتے ہیں۔ موسمِ بہار (مارچ) کی بارش سے کالر راٹ کی بیماری زیادہ پھیلتی ہے۔ مارچ اپریل میں بارش نہ ہو تو کالرراٹ کی بیماری کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ ٹنل میں کاشت کی صورت میں سردی سے بچ جاتی ہے۔

فصلی ترتیب:

یہ فصل وسائل کی دستیابی اور طریقہ ہائے کاشت کے تغیرات کی مناسبت سے مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے۔

  • شملہ مرچ ٹنل ( اکتوبر) کریلا (جون) کھیرا (نومبر)
  • شملہ مرچ (فروری) مونجی (جون جولائی) گندم (نومبر)
  • شملہ مرچ (فروری) مولی (جولائی اگست) گندم ( نومبر)
  • شملہ مرچ (فروری) گاجر (اگست) گندم (دسمبر)

اقسام:

اس کی اہم اقسام میں کیلیفورنیا ونڈر، یولونڈر اور کئی دیگر دوغلی اقسام (مثلاً آسٹر، آروبیل، کمانڈ ینٹ وغیرہ)

کیلیفورنیا ونڈر:

یہ قسم ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے میں 1969 میں پاس ہوئی تھی۔ ہلکے سبز رنگ کی لمبو تری قسم ہے۔ پیداوار صلاحیت بہت زیادہ (200 من فی ایکڑ) ہونے کی وجہ سے پنجاب میں مقبول ہے۔

یولو ونڈر:

گہرے سبز رنگ کی تقریباً گول قسم ہے۔ پیداواری صلاحیت کافی زیادہ (180 من فی ایکڑ)، مارکیٹ میں اس کی دیمانڈ کیلے فورنیا ونڈر اور دوغلی اقسام کے مقا بلے میں کم ہے۔

آروبیل، کمانڈینٹ:

یہ اقسام ٹنل کے لئے بہتر ہیں۔ گہرے سبز رنگ کی تقریباً گول یا لمبوتری ، پیداواری صلاحیت بہت زیادہ، مارکیٹ میں اس کی ڈیمانڈ سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

کھادیں:

کھادڈالنے سے پیداوارمیں 30 تا 40 فیصد اضافہ ہوتاہے۔ زمین کی قدرتی زرخیزی وساخت ، علاقہ و وقتِ کاشت، اقسام کی نو عیت، طریقہ کاشت، تعداد و ذریعہ آبپاشی، گوڈیوں کی تعداد اور جڑبوٹیوں کی نوعیت و شدت کی مناسبت سے کھادوں کی مقدار میں کمی پیشی کی جاسکتی ہے۔

کتنی کھاد ڈالی جائے:

بیرونی کاشتہ فصل نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش بالتر تیب 25-30-50 تا 50-50-100 کلو گرام فی ایکڑ ڈا۔ لنے سے بہتر پیداوار دیتی ہے۔

کب استعمال کی جائے؟

ساری فاسفورس، نصف پوٹاش اور ایک تہائی نائٹروجن نوقتِ کاشت ڈالی جائے۔ ڈوڈیاں بننے یا ابتدائی پھول ظاہر ہونے پر نائٹروجن اور پوٹاش کا استعمال یقینی بنایا جائے۔ ہر تین چوبائیوں کے بعد یوریا وار ہر چھ چنائیوں کے بعد یوریا اور پوٹاش ملاکر ڈالی جائیں تو فصل کی ریکارڈ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔

نشوونمائی محرکات کا استعمال:

اگر ایک مرتبہ تین ہفتے کی نرسری پر اور دومرتبہ منتقلی کے بعد نشوونما ئی محرکات مثلاً میگز یموسپریا ووکو زم 300 ملی لٹر فی ایکڑ یا گروتھ ہارمون سپرے کیے جائیں تو بہتر پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

ایک وضاحت:

جس کھیت میں گوبر کی کھاد زیادہ مقدار میں ڈالی گئی ہو وہاں کالرراٹ کے امکانا ت بڑھ جاتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ شملہ کو گوبر کی کھاد ڈالے بغیر یعنی مصنوعی کھادوں کی مدد سے اگایاجائے۔

وقتِ کاشت:

آب و ہوا، علاقے و طریقہ کاشت کی مناسبت سے اسے ستمبر کے آخر سے لے کر دسمبر تک کاشت کیا جاسکتا ہے۔ وسطی پنجاب کے حالا ت میں اس کی نرسری کا موزوں ترین وقتِ کاشت اکتوبر کا پورا مہینہ ہے۔ موسمی حالات کنڑول کرکے یعنی ٹنل میں اسے یکم اکتوبر سے وسط دسمبر تک بھی کاشت کیا جاسکتاہے۔ بیرونی کاشت کی صورت میں وسط اکتوبر تا آخر اکتوبر کے دوران نرسری کی کاشت کی جائے۔ ٹنل کے لئے شروع اکتوبر کے دوران کی جائے اوراسے وسط نومبر کے دوران ٹنل میں منتقل کردیا جائے۔ بیرونی کاشت کی صورت میں اکتوبر کے وسط میں نرسری کاشت کی جائے ۔ کورے کا خطرہ ٹل جانے پر (فروری کے شروع میں) اسے کھیت میں منتقل کردیا جائے۔

نرسری کاشت:

نرسری کا بہتر اگاؤ حاصل کرنا بڑے اہم عومل میں سے ہے۔ 40 تا 60 دن کی نر سری بہتر چلتی ہے۔ منتقلی والے دن کھیلیوں کو صبح کو پانی لگائیں۔ اور شام کو ان کے مرطوب کناروں پر منتقل کریں۔

نرسری برائے ٹنل:

پلاسٹک ٹنلزمیں مرچ کی کاشت کے لئے سب سے اہم مرحلہ مناسب قسم کی صحت مند نرسری اْگانا ہے۔ اگرنرسری اچھی طرح کاشت کرلی جائے تو شملہ مرچ کی کامیابی کا پہلا اہم مرحلہ مکمل ہوجاتاہے۔ زمینی ہمواری کی مناسبت سے ہر ٹنل کی لمبائی اور چوڑائی کا تعین کر کے پٹٹریوں اور پودوں کی تعداد معلوم کرلیں۔ کیڑے بیماریاں، چوہے اور موسمی حالات بھی اگاؤ کو متاثر کرتے ہیں لہذا متوقع ناغوں (Gaps) سے بچنے کے لئے نرسری کاشت کرتے وقت کم از کم بیس فیصد زیادہ بیج خریدیں۔ نرسری کی 24 x12 فٹ سائز کی ایک ٹنل میں 2880 تک بیج کاشت کیے جاسکتے ہیں۔

وقتِ برداشت:

ٹنل میں منتقل کی گئی فصل کی پہلی چنائی عموماً 65 تا 80 دنوں میں تیار ہوسکتی ہے۔ لو ٹنل والی مرچ فروری سے اپریل تک بھر پور پیداوار دیتی ہے۔ اور جون میں ختم ہوجاتی ہے۔ ٹنل سے باہر کاشتہ فصل مئی سے جولائی اگست تک منا۔ سب پھل دیتی رہتی ہے۔

شرح بیج اور پودوں کی تعداد:

80-75 فیصد اگاؤ والا 250 گرام بیج ایک ایکڑ کی نرسری تیار کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ منتقلی کے وقت پٹٹر۔ یوں کا فاصلہ تین تین فٹ اور پودوں کاباہمی فاصلہ اقسام کی مناسبت سے ڈیڑھ تا دو فٹ رکھا جائے۔ اس طرح ایک ایکڑ میں پودوں کی تعدا د ا قسام کی مناسبت سے 12-10 ہزار ہونی ضروری ہے۔ اگر واک اس ٹنل میں پلاسٹک شیٹ کے نیچے سپن بونڈڈ ( Spunn bondid) شیٹ بھی ڈالی جائے تو شملہ مرچ ابتدائی کیڑوں سے بچی رہتی ہے۔ زیادہ طویل عرصے تک صحت مند رہ کرزیادہ پیداوار دیتی ہے۔

آبپاشی:

شملہ مرچ کو زمینی اور موسمی ماحول کی مناسبت سے 8 تا 12 مرتبہ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ منتقل کرنے سے قبل پانی کو سوکا لگاکر نرسری کو سخت جان بنا لیاجائے اور کھیلیوں کو پانی لگاکر نرسری منتقل کی جائے۔ پانی کی زیادتی خصوصاً تنے کے ساتھ لگنے والا پانی نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔ اس لیے ہر آبپاشی ہلکی مگر کم وقفے کے ساتھ کی جائے۔ پانی پٹٹریوں کے اوپر نہ چڑھنے دیاجائے۔

پیداوار:

ہماری سفارشات پر عمل کرکے درمیانی فصل سے 200-150 من فی ایکڑ شملہ مرچ حاصل ہوتی ہے۔ لیکن بہتر پیداواری ٹیکنالوجی اور موسمی سازگاری کی بدولت ٹنل میں اس کی پیداوار 250 من فی ایکڑ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ٹنل فارمنگ کے ذریعے بیرونی کاشتہ فصل کے مقابلے میں تین گناہ زیادہ پیداوا ر حاصل کی جا سکتی ہے۔

مارکینگ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ:

ٹنل کاشتہ شملہ مرچ فروری ، مارچ اور اپریل میں مارکیٹ میں اونچے بھاؤ بکتی ہے۔ وسطی پنجاب کے فروری کاشتہ شملہ مرچ مئی سے جولائی تک مارکیٹ میں آتی ہے۔ جو کم ریٹ پر بکتی ہے۔ صوبہ سرحد اور سون سیکسر کی شملہ مرچ اگست سے اکتوبر نومبر تک مارکیٹ میں آتی ہے۔ جو کافی اچھی قیمت پر فروخت ہوتی ہے۔ سندھ کی مرچ فروری، مارچ اور اپریل میں مارکیٹ میں آتی ہے جو مہنگی بکتی ہے۔

بیماریاں:

گالا یا مرجھاؤ یا کالر راٹ، کوڑھ، وائرس اور جڑکی گٹھلیاں یا خیطئے اس کی پیداوار میں بڑی روکاوٹ ڈالتے ہیں۔ ان سب میں سے شملہ مرچ کو کالرراٹ یا تنے کا گالازیادہ نقصان پہنچا تی ہے۔

کالرراٹ یا تنے کا گالا:

یہ بیماری شملہ مرچ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ بیماری inferstans Phytaphthora نامی فنگس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کھبی کھبی چھوٹی سٹیج پر بھی بیماری ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن اکثر پھول اور پھل آوری کے دوران سطح زمین کے قریب سے پودے کی جلد گل جاتی ہے اور پھل سے بھرا ہو ا پودا ایک دو دنوں میں سوکھ جاتاہے۔

غیر کیمیائی انسداد:

کاشتی امور سے بہتری کرنے سے بچاؤ ممکن ہے۔ یہ بیماری پانی اور بارش کے ذریعے زیادہ پھیلتی ہے اس لئے رچیں وٹوں کے کناروں پر اتنی اونچائی پر کاشت کی جائیں کہ پانی تنوں کو نہ چوئے۔ جس زمین میں زیادہ گوبر کی کھاد ڈالی گئی ہو یا ہواداری کا نظام کم ہوتو بیماری جلد ی حملہ آور ہوجاتی ہے۔ اس لئے اچھے نکاس والی یا ہلکی میرا اور ہوادار زمین میں مرچ کاشت کی جائے۔ ہر سال جگہ بدل کرنئے نئے کھیتوں میں مرچ کاشت کی جائے ۔

کیمیائی انسداد:

ٹاپسن ایم کا 5 فیصد آبی محلول ڈرنچنگ (Drenching) کرنے سے مرتے ہوئے پودوں کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ پریوینٹ یا ریڈومل گولڈ یا متبادل زہریں 3 تا 5 مرتبہ بدل بدل کر سپرے کریں۔ ریڈویل گولڈ یا کار بینڈ ازائم ایک گرام ایلئٹ اور دو گرام ریڈومل گولڈ فی لٹر پانی میں ملاکر ڈرنچنگ (Drenching) کرنے سے بھی علاج کیا جاسکتاہے۔

مرجھاؤ:

کاشتی امور کی بہتر ی (جڑوں کی ہواداری کے لئے بکثرت گوڈی کرنے) کے ساتھ ساتھ بیج کو ٹاپسن ایم لگا کر کا۔ شت کریں۔

جڑ کی گٹھلیاں یا خیطئے:

سے مسلسل بچا ؤ کے لئے ضروری ہے۔ کہ منتقلی کے ڈیڑھ ماہ بعد کاربوفیوران 9 کلوگرام یارگبی 4 کلوگرام گی ایکڑ ڈال کر مٹی چڑھائیں۔ یہ زہر ڈالنے سے فصل شروع سے لے کر لمبے عرصہ تک سرسبز اور ہری بھری رہ کر پھل پیدا کرتی ہے۔

وائرس:

سخت گرم اور خشک موسم میں شملہ مرچ وائرس سے متاثرہوسکتی ہے۔ متاثرہ پودے تلف کردیں تو مزید پھیلاؤ نہیں ہوتا۔ بہتر قسم اور متناسب کاشتی امور کی موجودگی میں وائرس کا حملہ نہیں ہوتا۔ وائرس بنیادی طورپر گرمی کی شدت کی وجہ سے احق ہوتاہے۔ وائرس سے بچاؤ کے لئے فصل کو شدیدگرمی سے بچایا جائے۔ اگر قرب و جوار کا موسم (مائکرو کلایمیٹ ) ہتر ہوتو وائرس سے متاثرہ شملہ مرچ کے پودے کسی حد تک بحال ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ اگر مارچ کے آخر میں ہر چھٹی کھیلی کے بعد جنتر کاشت کادی جائے تو جولائی کے دوران فصل کافی حد تک گرمی (Sunburn) سے بچائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ رس چوسنے والے کیڑوں خصوصاً سفید مکھی کا بروقت انسداد کریں۔

کیڑے:

شملہ مرچ پر فروری مارچ میں سست تیلہ ، اپریل مئی میں تھرپس اور امریکن سنڈی کا حملہ ہوسکتاہے۔ لو ٹنل میں لیف مائنر کا حملہ بھی ہو سکتاہے۔ سست تیلہ اور تھرپس کی صورت میں کونفیڈار یا امیڈا 200 ملی لٹر یا موسپیلان یا ایسیٹا مپرڈ 150 گرام، امریکن سنڈی کی صورت میں ٹریسر 40 تا 60 ملی لٹر فی ایکڑ

بڈمائٹس یا جوؤں:

جب مئی جون میں نئی کوبپلوں کے پتے چھوٹے چھوٹے رہ جائیں تو ہڈ مائیٹس یا جوؤں کو حملہ ہوتاہے۔ ان سے بچاؤ کے لئے ڈائی کو فال 300 ملی لٹر یا نسوران 200 ملی لٹر یا 500 ملی لٹر نو واسٹار یا ان کے متبادل زہریں سو لٹر پانی میں ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

جڑی بوٹیاں:

مرچوں کی جڑی بوٹیوں میں اٹ سٹ، سوانکی، مدھانہ، ڈیلا چولائی، تاندلہ اور لمب گھاس وغیرہ شامل ہیں۔ ٹنل میں دمبی سٹی، باتھو، جنگلی پالک اور جنگلی ہالوں بھی اگ آتی ہیں۔ منتقل کی جانے والی شملہ مرچ سے جڑی بوٹیاں تلف کر۔ نے کے لئے مندرجہ ذیل طریقے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔

پہلا طریقہ:

محفوظ طریقہ یہ ہے کہ کھیلیوں کو پانی لگانے کے ایک دو دن بعد ڈو آل گولڈ بحساب 5 ملی لٹر یا پینڈی میتھالین دس ملی لٹر فی لٹر پانی میں ملا کر صرف وتر مقامات پر سپرے کریں۔ سپرے کرنے کے ایک ہفتہ بعد کلی کی مدد سے سوراخوں میں نرسری منتقل کر کے پانی لگائیں۔ اس طریقہ سے جڑبوٹیوں سے نجات مل جاتی ہے اور مرچیں بہت حد تک زہروں کے منفی اثرات سے محفوظ رہتی ہیں۔

دوسراطریقہ:

پٹٹریوں کو پانی لگانے کے بعد نرسری منتقل کریں۔ مزید ایک تا دو یوم کے دوران وتر میں ڈو آل گولڈ بحساب 4 ملی لٹر یا پینڈی میتھالین آٹھ ملی لٹر فیلٹر پانی میں ملاکر صرف وتر مقامات پر سپرے کریں۔ اس طرح زہر استعمال کی جائیں تو دونوں زہریں شملہ مرچ کی نشوونما متاثر کرتی ہیں لیکن ڈوآل گولڈ زہر پینڈی میتھالین کے مقابلے میں زیادہ محفوظ پائی گئی ہے۔ زہر استعمال کرنے کے بعد 35 تا 40 یوم کے دوران ایک گوڈی کرکے فصل کو تقویت پہنچائی جائے۔ اگر نرسری کمزور ہویا بہت چھوٹی عمر کی ہوتو اس طریقے سے زہر استعمال نہ کریں۔

تیسرا طریقہ:

یہ ہے کہ پٹٹریوں کو پانی لگانے کے بعد فروری میں نرسری منتقل کریں۔ کیھلیوں کو پانی لگانے کے ایک دو دن بعد ڈوآل گولڈ بحساب 7 ملی لٹر فیلٹر پانی میں ملا کر صرف وتر مقامات فصل کو بچاکر وتر کھیلیوں کے اندر اندر سپرے کریں تویہ زہر ڈیلا سمیت بیشتر جڑی بوٹیوں کو تلف کرتی ہے۔

پیداواری عوامل کا حصہ:

ٹنل سے باہر عمومی کاشت کی صورت میں اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں کو حصہ تقریباً 30 فیصد، کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کا 20 فیصد، فصل کی برداشت و مارکیٹنگ کا 30 فیصد بنتاہے۔ ان اخر۔ اجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل ہے۔ لیکن لوٹنل میں کاشت کی صورت میں دوغلی اقسام کے بیجوں، کھادوں اور پلاسٹک میلچ کا حصہ تقریباً 50 فیصد، زمینی ہمواری و تیاری وکاشت و آبپاشی کا 10 فیصد، کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کا 20 فیصد ، فصل کی برداشت و مارکیٹنگ کا 20 فیصد بنتا ہے۔

پیداواری آخراجات اور آمدن:

موجودہ حالات کے دوران ذاتی زمین میں ٹنل سے باہر کاشت کی صورت میں شملہ مرچ پیداکرنے کافی ایکڑخرچ 40 ہزار ( سطی پنجاب کے 10 تا 20 ایکڑ والے کاشتکار، نصف مقدار نہری پانی دستیاب ہونے کی صورت میں زمینی تیاری 4000، بیج 2000 کیڑے، بیماری 2000 ، برداشت (15 چنائیاں) 10000، ٹرانسپورٹ 6000، متفرق 1000 کل 40000) روپے خرچ آتے ہیں۔ پوری پیداواری ٹیکنالوجی پر عمل پیراہونے کے ساتھ ساتھ اگر ذاتِ حق کی مہربانی سے موسمی حالات بھی سازگار رہیں تو 200 من شملہ مرچ پیدا ہوسکتی ہے۔ جس سے ایک لاکھ روپے کمائے جاسکتے ہیں۔ لیکن لوٹنل میں اشت کی صورت میں ایک ایکڑ پر 97 ہزار ( زمینی تیاری 4000 ، بیج 3000 ، کاشت 1500 ، کھادیں 20000 ، پانی 1500 ، پلاسٹک شیٹ 35000 کیڑے ، بیما۔ری 2500 ، برداشت ( 25چنائیاں ) 15000 ٹرانسپورٹ 12000 ، متفرق 3000 کل 97000) روپے خرچ آتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی پر عمل پیر ا ہونے کے ساتھ ساتھ اگر موسمی حالات بھی سازگار رہیں تو 200 من شملہ مرچ آسانی سے پیدا ہوسکتی ہے۔ جس سے ڈیڑھ لاکھ روپے کمائے جاسکتے ہیں۔ بہتر مارکیٹنگ اور مناسب حکمتِ عملی کی بدولت مذکورہ اخراجات میں کمی کرکے اس سے زیادہ بچت کی جاسکتی ہے۔

نفع بخش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کے نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں اچھی قسم کو نومبر کے وسط میں ہائی ٹنل میں پودوں کی مطلوبہ تعداد ( 10 تا 12 ہزار پودے لگانا)، باریک و ہموار زمین میں کاشت کرنا اور فصل کو جڑی بوٹیوں، کیڑوں و بیماریوں سے بچانے کے لئے اچھی زہروں کا انتخاب کرنا، بھرپور پیداوار کے لئے کاشت سے پہلے ڈی اے پی، پوٹاش اور پولٹری کی کھاد استعمال کرنا اور درجہ بندی (گریدنگ) کر کے با اعتماد طریقے سے مارکیٹنگ کرنا شامل ہیں ۔ کھیرے کے مقابلے میں اسے سردی سے بچانا زیادہ ضروری ہے۔


پاکستان میں کریلا کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

خوراکی و اد ویاتی اہمیت:

اگرچہ کریلے میں توانائی کی کیلوریز بہت کم ہوتی ہیں۔ یہ وٹامن اے، بی، سی، پوٹاشیم، فاسفورس، زنک اور مینگاٹیز کا اہم مآخذ ہے۔ حکمت کی زبان میں اس کی تاثیر گرم خشک درجہ دوم میں شمار کی جاتی ہے۔ خون سے زہریلے مادے تلف کرتاہے۔ داد، چنبل اور زخموں کے خلاف قوتِ مدافعت میں اضافہ کرتاہے۔ مقوی ہاضمہ ہونے کی وجہ سے بھوک بڑھاتاہے۔ نیز گردے کی پتھری اور جوڑوں کے درد کی بیماریوں میں انتہائی مفید ثابت ہوتاہے۔ جسم سے فاضل رطوبتوں کا خاتمہ کرتاہے اور انسان کو چست و توانا رکھتا ہے۔ یہ جگر ( اور پتے) کے افعال میں معاونت کرتا ہے۔ اسی وجہ سے شگر کے مریضوں کے لئے بہت مفید اور ادویاتی نوعیت کی سبز ی ہے۔ کریلا چونکہ اعصاب کو تقویت بخشتا ہے اس لئے جریان واحتلام کی بیماری کے علاج میں بھی استعمال ہوتاہے۔ جسم کو ہر قسم کے عوارض سے بچانے اور طبی لحاظ سے فٹ رہنے کے لئے روزانہ درمیانے سائز کے ایک تا دو دیسی کریلے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ استعمال نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔ اس کے جوس کا ایک تا دو گھونٹ شہد یا سیب کے جوس کے ساتھ ملا کر استعما ل کرنے سے بواسیر میں حیرت انگیز فائدہ پہنچا تاہے۔ کریلے کا کثیر استعمال بلغمی مزاج افراد کیلئے مفید مگر گرم مزاج افراد اور حاملہ خواتین کے لئے مضر ثابت ہو سکتاہے ۔

فصلی ترتیب:

یہ فصل وسائل کی دستیابی کی مناسبت سے مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے۔

  • کریلا + دھنیا(مارچ) ۔ گوبھی(اگست) ۔ گندم ( نومبر)
  • کریلا (مئی جون) ۔ مٹر(نومبر) ۔ کپا س ( مارچ)
  • کریلا چھاپے یا نیٹ والا(مئی) ۔ کریلا ٹنل ( وسط دسمبر)
  • کریلا ٹنل (وسط دسمبر) گوبھی ( اگست) ۔ کریلا ٹنل
  • کریلا ٹنل (وسط دسمبر) ۔ کھیرا (دسمبر) ۔ ٹینڈی ( نومبر)
  • کریلا چھاپے والا (مئی) کینولا (اکتوبر) ۔گندم ( نومبر)

زمین اور علاقے:

اچھے نکاس والی میرا و بھاری میرا زمین میں بہتر ہوتاہے۔ اگرچہ پورے آبپاش پنجاب میں اگایا جاسکتا ہے لیکن آج کل ساہیوال ، فیصل آباد، شاہکوٹ اور ٹوبہ تحصیل گوجرہ کے گاؤں (چونڈہ) میں زیاد ہ ہوتاہے۔

آب و ہوا:

نیم گرم اور معتدل آب و ہو ا میں کریلا بہتر پیداوار دیتاہے۔ پٹٹریوں پر کاشتہ دیسی کریلے کی چھدری بیلوں کو سخت گرمی ( مئی جون) کے دوران انتہائی گرم و خشک اور لودار موسم میں زرد انے (Pollen grains) مرجاتے ہیں ۔ صرف نر پھول ہی نظر آتے ہیں۔ لیکن (Pollen sterility) کی وجہ سے پھل کم لگتاہے۔ جبکہ گھنی فصل میں مناسب نمی کی وجہ سے گرم موسم میں بھی درجہ حرارت معتدل رہتاہے۔ اس لئے گھنی فصل کو پھل زیادہ لگتا ہے۔ اس کے برعکس دوغلی اقسام زیادہ گھنی کاشت کی جائیں توان کو پھل کم لگتا ہے۔ دوغلی اقسام کو صرف مناسب فاصلے پر کاشت کی صورت میں ہی زیادہ پھل لگتاہے۔ دیسی کریلا خصوصاً گوجرہ سلیکشن گرمی اور سردی کی شدت برداشت نہیں کرسکتا اس لئے دوغلی اقسام کے مقابلے میں ٹنل میں اس کی کاشت زیادہ مشکل ثابت ہوتی ہے۔ زیادہ بارش کی صورت میں اور کئی دنوں تک ابر آلود اور بارشی موسم میں پولن گرین تلف ہونے کی وجہ سے پھل بہت کم لگتاہے۔ اگاؤ کے لئے کم از کم 8 تا 10 اوسطاً 22 تا 27 اور زیادہ سے زیادہ 35 تا 38 درجے سینٹی گریڈ کی ضرورت ہوتی ہے اگاؤ کے لئے کریلے کے کدو ، تر اور خربوزے کے مقابلے میں زیادہ نمی او ر درجہ حرارت کی ضرور ت ہوتی ہے۔

اقسام :

فیصل آباد لانگ کریلے کی منظور شدہ قسم ہے ۔گوجرہ سلیکشن یا کالا کریلا اسی قسم کی سلیکشن ہے۔ اسی لیے اس کو الگ قسم کے طورپر منظور نہیں کیا گیا۔فیصل آباد اور سمندی کے علاقے میں گوجرہ سلیکشن وسیع پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے۔

فیصل آباد لانگ:

فیصل آباد لانگ کا سائز تو کافی ہلکا بڑا ہوتاہے۔ چھاپے پر چڑھانے کی صورت میں اس کی پیداواری صلاحیت تین سو من فی ایکڑ تک ہے۔

گوجرہ سلیکشن:

اس کو کالاکریلا بھی کہا جاتاہے۔ مارکیٹ میں گہرے سبز رنگ اور مناسب سائز کی وجہ سے کالا کریلا زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ چھاپے پر چڑھانے کی صورت میں اس کی پیداواری صلاحیت چار سو من فی ایکڑ تک ہے۔ لیٹ (جون) کاشت کی صورت میں اس پر وائرس کا شدید حملہ ہوسکتاہے۔

کریلی:

اس کی ایک بہت لمبی قسم کریلی بھی ہوتی ہے۔ دوغلی اقسام اور گوجرہ سلیکشن کی پسند ید گی کی وجہ سے آج کل کریلی کی کاشت متروک ہوتی جارہی ہے۔

دوغلی اقسام:

بیشتر ترقی پسند کاشتکار زیادہ تر دوغلی اقسام کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوغلی اقسام تیزی سے فروغ پارہی ہیں۔ آج کل بلیک ڈائمنڈ، پالی، سیمینس۔ 2000، این ایس۔ 126، این ایس۔ 241، این ایس۔ 48 جیسی دوغلی اقسام کاشت کی جارہی ہیں۔ دوغلی اقسام کا بیج کافی مہنگا ہوتاہے۔

پالی:

کا سائز ایک فٹ تک ہوسکتاہے ۔ کیڑے اور بیماری کے خلاف یہ بہت سخت جان واقع ہوتی ہے۔ اس کی پیدا۔ واری صلاحیت اگرچہ ہزار من فی ایکڑ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اس کا چلکا سخت ہونے کی وجہ سے یہ قسم پنجاب میں گوجر ہ سلیکشن (کالا کریلا) کے مقابلے میں زیادہ مقبو ل نہیں ہوسکی۔ البتہ نومبر دسمبر میں جب کالا کریلا ختم ہوجاتا ہے۔ تو پالی اور دوغلی اقسام کا سکہ چلتاہے۔

کھادیں:

کریلے کو پوٹاش اور نائٹروجن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ زیادہ عرصہ تک پھل پیدا کر نے کے لئے گلی سڑی روڑی کااستعمال مفید ثابت ہوتاہے۔ کریلے کی بیج والی فصل کو فاسفورس اور پوٹاش والی کھادیں زیادہ مقدار میں ڈالی جائیں۔ تو بیج کی زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے

الف۔ کتنی کھاد ڈالی جائے؟

طریقہ کاشت اور زمینی حالات کی مناسبت سے 25-30-20 تا 50-50-50 کلو گرام نائٹروجن ، فاسفورس اور پوٹاش ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے ۔ اس مقصد کے لئے دس بوری ایس ایس پی، دو بوری امونیم نائٹریٹ، دو بوری ایس او پی کے ساتھ ایک ٹن مرغیوں کی کھاد استعمال کی جائے تو زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے

کھاد کب ڈالی جائے؟

ایک تہائی نائٹروجن ، تمام فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقتِ کاشت ڈالی جائے۔ بقیہ نائٹروجن اور پوٹاش کاشت کر۔ نے کے بعد 35تا 70 دن کے اندر اندر قسط وار کرکے ڈالیں۔ پھول آوری کے دوران یوریا اور پوٹاش ملا کر استعمال کی جائیں تو زیادہ پھل لگتاہے۔

ج۔ نشونمائی معاونات:

پھل کی پیدا وار بڑھانے کے لئے چھوٹے نشوونمائی معاونات (Suppliments) سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر فصل کی رنگت ہلکی سبز ہوتو کسی با اعتباد مآخذ کی NPK سپرے کی جائے۔ اگر اگاؤ کے دوران گروتھ ہارمون ( انڈول ایسیٹک ایسڈ اور جبر یلک ایسڈ) کی سپرے کی جائے تو ابتدائی بڑ ھوتری تیز ہوجاتی ہے۔ اگر پھول آوری کے دوران سپرے کی جائے تو مادہ پھول زیادہ لگتے ہیں ۔ اگر قد بڑھانے کے لئے سپر ے کی جائے تو پتوں کا سائز بڑا ہوجاتاہے۔ گروتھ ہار مون سپرے کرنے کے بعد کریلے کی آبی و خوار کی بھوک میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس دوران کھیت میں کھاد اور پانی کی کمی نہیں آنی چاہئے۔

وقتِ کاشت:

بیرونی کاشت کی صورت میں پہلی فصل وسط فروری تا وسط مارچ اور دوسری فصل وسط جون تا وسط جولائی کے دوران کاشت کی جاتی ہے۔ گندم کے بعد مئی اور جون میں کاشت گو جر و سلیکشن پر اگست ستمبر کے دوران وائرس کا شدید حملہ ہوسکتاہے۔ بارشوں کے دوران روئیں دار پھپھوندی کا حملہ بھی یقینی ہوتاہے۔ اس لئے لو ٹنل میں (دسمبر جنوری) کا۔ شتہ فصل کے مقابلے میں یہ فصل زیادہ پر خطر (Risky) سمجھی جاتی ہے۔ اگیتی پیداوار کے لئے کالا کریلا لوٹنل میں دسمبرمیں لگانے کی سفارش کی جاتی ہے۔ کریلے کو چھپروں یا نیٹ پر چڑھا یا جائے تو زمین پر پھیلانے کے مقابلے میں چار پانچ گناہ زیادہ پھل دیتاہے۔ اگر بہتر اگاؤ حاصل کرلیا جائے تو ٹنل میں کاشتہ فصل سے باہر کاشت کر کے پٹٹریوں پر بچھانے کے مقابلے میں کئی گنا ہ زیادہ نفع کمایا جاسکتاہے۔

چنائی و برداشت:

لوٹنل میں دسمبر کاشتہ فصل کی پہلی چنائی عموماً 120 تا 130 دنوں میں تیارہوتی ہے۔ یہ کریلا اپریل کے آخر میں پھل آوری کا آغاز کرتاہے اور نگہداشت کی مناسبت سے جون یا جولائی میں اس کا زور ٹوٹ جاتاہے۔ اگر بہتر نگہداشت کرلی جائے تو یہی پھل ستمبر اکتوبر تک پھل پیدا کرسکتی ہے۔ ٹنل سے باہرمارچ کاشتہ فصل کی پہلی چنائی عموماً 65 تا 75 دنوں میں تیار ہوتی ہے۔ اگر وائرس کا حملہ نہ ہو۔ تو یہ فصل آخر مئی سے لے کر ستمبر اکتوبر تک پھل دیتی ہے مئی جون میں کاشتہ کریلا 50 دن بعد پھل پیدا کرنے لگتا ہے۔ اور وائرس سے بچنے کی صورت میں اکتوبر نومبر تک پھل پیدا کرسکتاہے۔

آبپاشی:

ٹنل سے باہر کاشتہ فصل کو موسم کی مناسبت سے دس تا پندرہ مرتبہ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن ٹنل میں کاشتہ کر۔ یلے کا دورانیہ کافی لمباہوتاہے۔ اس کو 12 تا 15 مرتبہ پانی لگانا پڑسکتاہے۔ ہر صورت میں پہلا پانی خاص احتیاط سے لگایا جائے ۔ پانی ہموار کھیلیوں سے نصف سے ذرا اوپر جائے لیکن پٹٹریوں پر نہیں چڑھنا چاہئے۔ بہتر اگاؤ کی خاطر ٹنل سے باہر کاشت کی صورت میں دوسرا پانی جلدی لگایا جائے۔ لیکن ٹنل میں دوسرا پانی کاشت کے 50 تا 60 دن بعد لگائیں ۔ مئی سے اگست تک گرم موسم میں پانی کی بہتر دستیابی کے نکتا نظر سے یہ ضروری ہے کہ کریلے کی کھیلیاں کافی گہری بنائی جائیں ۔ باہر کاشت کی صورت میں گرمی کے دوران زمین جتنی زیادہ ٹھنڈی رہے گی اتنے ہی ما دہ پھول زیادہ لگتے ہیں۔ واضح رہے کہ فرشی کاشت کی صورت میں پانی پٹٹریوں کے اوپرہر گز نہیں چڑھنا چاہئے۔ اگر پٹٹریوں پر پانی چڑھ جائے تو روئیں دار پھپھوندی کا اتنا شدید حملہ ہوسکتاہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر ساری فصل بر باد ہوسکتی ہے۔

شرح بیج اور پودوں کی تعداد:

بیرونی کاشت کی صورت میں 2 کلو گرام اور لوٹنل میں کاشت کی صورت میں ایک تا ڈیڑھ کلو گرام بیج کی ضرورت ہوتی ہے۔پودوں کا باہمی فاصلہ باہر ڈیڑھ تا 2 فٹ اور لوٹنل میں 2.5 فٹ اور لوٹنل میں 6تا8 فٹ رکھنے کی سفار۔ ش کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک ایکڑ میں پودوں کی تعداد 5-4 ہزار سے کم نہ کی جائے۔ پودوں کی تعدا د پوری رکھنا بہتر پھل آوری کے لئے بے حد ضروری ہے۔ورنہ پیدا وار متاثر ہوسکتی ہے۔ کریلے کے بیج کا عمومی اگاؤ 60 تا 70 فیصد ہوتاہے۔ لیکن اچھے بیج کا اگاؤ 90 فیصد تک ہوتاہے۔ دیسی کریلے کا بیج بھگو کر لگاجائے تو بہتر اگاؤ دیتاہے ۔ لیکن فروری میں براہ راست کھیت میں کاشتہ کریلے کا اگاؤ ساٹھ ستر فیصد دستیاب ہوتاہے۔ اس لئے ٹھنڈے موسم میں ہر جگہ دو دو بیج لگانے کی سفارش کی جاتی ہے۔ مارچ اپریل اور اس کے بعد گرمی میں کاشت کی صورت میں ہر جگہ صرف ایک ایک بیج لگایا جائے ۔ اس کے ایک ہزار بیجوں کا وزن عموماً 175 تا 180 گرام ہوتاہے۔ ان معلومات کی روشنی میں کریلے کا مہنگا بیج پورا پورا خرید نے میں مدد مل سکتی ہے۔

طریقہ ہائے کاشت:

کریلہ ٹنل میں یاٹنل سے باہر پٹٹریوں کے کناروں پر چوکے لگا کر کاشت کیا جاتاہے۔

پرانا طریقہ:

پٹٹریوں کا طریقہ زیادہ پرانا اور کم پیداواری صلاحیت کا حامل ہے۔ اگر کریلے کو چھپروں پر چڑھایا جائے تو یہ آٹھ دس ماہ تک مسلسل پھل پید ا کرسکتاہے اور اس کی پیداوار میں پٹٹریوں پر کاشت کے مقابلے میں دس گنا ہ تک کا اضافہ ہوسکتاہے۔ روایتی طریقے سے کاشتہ کریلا زیادہ منا فع بخش نہیں رہا۔ اس لئے نئی ٹیکنالوجی کے مطابق کاشت کرنے کے لئے کریلا کاشت کرنے والے کاشتکاروں یا زرعی ماہرین سے ابتدائی تربیت حاصل کرلی جائے تو بہت نتائج ملتے ہیں۔

جدید طریقہ نمبر:

آج کل نئی ٹیکنالوجی کے مطابق کماندار بانس یا جستی پائپوں کے اوپر جال پھیلا کر کریلے کو چڑھایا جاتاہے۔ جستی پائپ کی بجائے بانس کی ٹنل والا طریقہ زیادہ پیداوار دیتاہے ۔ یہ طریقہ کھیرے یا شملہ مرچوں کے لئے بنائی گئی درمیانی سرنگ (Walk in tunnel) بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ ٹنل کے ذریعے سبزیاں اگانے والے بہت سے کاشتکار کریلے کے لئے کھیرے یا شملہ مرچوں کے لئے بنائی گئی ٹنل ہی استعما ل کرتے ہیں ۔

جدید طریقہ نمبر:

دوسرااہم طریقہ چھاپے یا جال پر کریلا چڑھانے کا ہے۔ جال پر چڑھانے کے مقابلے میں چھاپے والا کریلا زیادہ پیداواردیتا ہے۔لوٹنل یہ فروری کاشت کی صورت میں آٹھ آٹھ جبکہ جون کاشت کی صورت میں چھ چھ فٹ کے فا۔ صلے پر جال لگائے جائیں۔ تین انچ موٹے بانسوں کاباہمی فاصلہ چودہ تا سولہ فٹ رکھا جائے ۔ ایک ایکڑ میں 200 سے زیادہ بانس استعمال ہوتے ہیں۔ ڈنگ یا تاریں (Tendrils) نکالنے سے پہلے پہلے جال لگانے کی سفارش کی جاتی ہے۔ جال کے کھچاؤ (Tension) کے لئے اوپر کی جانب چودہ نمبر کی دھاتی تار استعما کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ زیادہ مضبوطی کی غرض سے ترقی پسند کاشتکار کلچ وائر (Clutch wire) بھی استعمال کرتے ہیں۔ جال کو سیدھا رکھنے کیلئے نچلی جانب باریک دھاتی تاریا پلاسٹک کی تندھی بھی استعمال کی جاسکتی ہے ۔

چوہے سے بچاؤ:

کریلے کے پودوں کوچوہے کم نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بہت زیادہ ناغے بن جاتے ہیں۔ ایسی صو۔ رت میں چوہے مار کریم کی ٹکیاں استعما ل کی جائیں۔ ان ٹکیوں کو چوہے بڑے شوق سے کھا جاتے ہیں۔ ٹکیوں کا استعمال چوہے تلف کرنے کا جدید طریقہ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بیجوں کو زیادہ مقدار میں زنک فاسفیڈ لگاکر کاشت کریں۔ زیادہ زنگ فاسفائڈ لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک حصہ زہر اور تین حصے آٹا ملا کر اس کی لئی بنالی جائے اور بیجوں کو اچھی طرح زہر آلود گولیوں کی شکل میں تبدیل کردیا جائے۔ خشک ہونے کے بعد ان کو کاشت کردیاجائے اگرچہ بیج کو اس طرح زہر آلود رکرنے کی صورت میں بیجوں کو ابتدائی بیماری کش یا سرایت پزیر کیڑے مار زہر لگانے کا عمل نہیں ہوسکتا ۔ لیکن بیج چوہے سے بچا رہتاہے ۔ اور بار بار کاشت کرنے کی زحمت سے چھٹکارا مل جاتاہے ۔ ٹنل میں کاشتہ فصل کو چوہے سے بچاؤ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تھمٹ (Thimet) زہر پر کھیلی کے دونوں جانب بیس بیس گرام رکھ کو فوراً باہر نکل جائیں ۔ زہر ڈالنے کے بعد دس دن تک ٹنل کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھا جائے۔

متفرق معلومات:

بیج کو بھگو کر انگوری مارنے کے بعد لگایا جائے تو کریلا تین چار دن میں اگ آتاہے۔ لیکن بھگوئے بغیر لگائیں تو دس دن میں اگتاہے۔ ہر چوکا دو بیجوں پر مشتمل لگایاجائے اور اگاؤ مکمل ہونے پر ایک جگہ صرف ایک پودا چھوڑ کر باقی نکال دیں ۔ جو کاشتکار کریلے کو چھپروں پر نہیں چڑھاسکتے ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مئی جون کے گرم و خشک موسم کے دوران پٹٹریوں پر پھیلی ہوئی گھنی فصل چھدری فصل کے مقابلے میں زیادہ پیداوار دیتی ہے ۔

مارکیٹنگ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ:

اگرچہ مارچ اپریل میں سندھ سے آنیوالا کریلا مہنگا بکتاہے۔ لیکن پنجاب کے ٹنل کاشتہ کریلا جو کہ اپریل مئی میں مارکیٹ میں آتاہے وہ بھی اونچے بھاؤ بکتاہے۔ جون جولائی میں اس کاریٹ کم رہتاہے لیکن بارشوں کے بعد اگست ستمبر میں مقامی کریلے کی قیمت دوبارہ بڑھ جاتی ہے اور نومبر دسمبر تک اونچے بھاؤ بکتاہے ۔

پیداوار:

فروری مارچ میں پٹٹریوں پر کاشت کی صورت میں کریلے کی پیداوار عمومی حالات میں 100 من او ر بیج کی ایک ڈیڑھ من ہوجاتی ہے۔ لیکن جنوری میں کاشتہ لوٹنل پر چڑھائے گئے کریلے کے پھل کی پیداوار 1000 من اور بیج کی ڈیڑھ تا دد من فی ایکڑ تک ہوسکتی ہے۔

بیماریاں:

کریلے کو پتوں کا جھلساؤ یا مائرو تھیشئم سڑن ، روئیں دار، پھپوندی یا ڈاؤنی ملڈیو، جڑوں کا گالا اور وائرس کی بیماریاں نقصان پہنچا تی ہیں ۔

پتوں کا جھلساؤ:

اس بیماری میں پتے کناروں سے پیلے ہو کر خشک ہوجاتے ہیں ۔ پتوں کے پیلے ہونے والی یہی بیماری کریلے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے متوازن خوراک اور مناسب آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیماری کی ابتدائی علامات ظاہر ہوتے ہی ٹرائی ملٹا کس یا ریڈومل گولڈ یا ان کے متبادل زہریں سپرے کی جاسکتی ہیں۔

روئیں دار پھپھوندی:

ڈاونی یا روئیں دارسے بچاؤ کے لئے کاشتی امور کی بہتر ی کے ساتھ ساتھ انٹرا کال یا کرزیٹ یا سکسس یا ان کے متبادل زہریں تین سے پانچ مرتبہ بدل بدل کر سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

وائرس:

وائرس کاشدید حملہ جولائی سے ستمبر کے درمیان ہوتاہے۔ مئی جون میں کاشت کی گئی فصل وائرس سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اس بیماری میں پتے بہت چوٹے چوٹے رہ جاتے ہیں اور پھل پید ا کرنے کی صلاحیت انتہائی کم ہوجاتی ہے۔ وائرس کا حملہ شدید گرمی کی وجہ سے ہوتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے کھیت میں کھاد و پانی کی کمی نہ آنے دیں ۔ گروتھ ہارمون کے ساتھ وائرس کنڑول کرنے والی سپرے کی جائے۔ وائرس کنڑول کرنے والی سپرے مہیا کرنے میں ہمارا ادارہ معاونت کرسکتاہے۔

کیڑے:

کریلے کو اگر چہ امریکن سنڈی، سفید مکھی، لشکری سنڈی، لیف مائنر اور کھبی کھبی لال بھونڈی بھی نقصان پہنچاسکتی ہیں لیکنپھل کی مکھی سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔

پھل کی مکھی:

پھل کی مکھی کے لئے پھل آوری کے دوران ڈپٹیریکس یا ٹرائی کلورفون 100 گرام یا ٹریسر 40 تا60 ملی لٹر فی سو لٹر پانی ملا کر ہر ہفتے دس دن بعد سپر ے کریں۔ ان کے علاوہ ٹرائی ایزو فاس یا ہوسٹا تھیان 600 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جاسکتی ہیں ۔ میتھائل یوجینا ل کے جنسی پھندے لگائیں تو سپر کی تعداد میں کافی حد تک کمی کی جاسکتی ہیں۔ میتھائل یو جینا ل کے جنسی پھندے لگائیں تو سپرے کی تعداد میں کافی حد تک کمی کی جاسکتی ہے ۔ پھل کی مکھی تلف کرنے کا جدید طریقہ یہ ہے کہ دس لٹر پانی میں 330 ملی لٹر پروٹین ہائڈ رولیز (Protein hydrolase (ملا کر ایک ایکڑ کے لئے سٹاک سلوشن بنا لیا جائے ۔ اس کے بعد پانچ گرام فی لٹر پانی میں ڈپٹیر یکس زہر ملا کر ہر دس فٹ کے فاصلے پر صرف ایک مربع میڑمیں چھڑ کادی جائے۔ سپرے کا عمل صبح صبح یعنی زیادہ دھوپ چڑھنے سے پہلے پہلے کیا جائے۔ تو پھل کی مکھی کافی حد تک کنڑول ہوجاتی ہے۔

نیماٹوڈز کا حملہ:

فروری مارچ کاشتہ فصل کی جڑوں پر جولائی اگست میں نیماٹوڈز کا حملہ ہوسکتاہے اس سے بچاؤ کے لئے کاشتکار اپنے طورپر فیوراڈان یا کاربوفیوران استعمال کرتے ہیں ۔ اگر چہ اس زہر سے نیماٹوڈز کا کافی حد تک علاج ہوجاتاہے۔ اور فصل کی رنگت گہری سبز ہوجاتی ہے۔ لیکن حفظان صحت کے حوالے سے کریلے پر اس زہر کا زاستعمال درست نہیں ہے۔ اس لئے زہر کے بجائے گوڈی اور کھادوں کے متناسب استعمال کو ترجیح دی جائے۔

جڑی بوٹیاں اور ان کاانسداد:

ٹنل سے باہر عمومی کاشتہ کریلے کو اٹ سٹ ، سوانکی ، مدھانہ ، لمب ، چولائی ، قلفہ ، ڈیلا ، ہزار دانی وغیرہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ ان سے بچاؤ کے لئے وقتِ کاشت اور زمینی ساخت کی مناسبت سے ڈو آل گولڈ 5 تا 6 ملی لٹر یا پینڈی میتھا۔ لین 7 تا 9 ملی لٹر فی لٹر پانی ملاکر کاشت کے ایک دن بعد ابتدائی تربیت لیکر صرف وتر مقامات میں سپرے کریں۔ گرمی میں اس زہروں کی کم اور سردی میں قدرے زیادہ مقدار میں استعما ل کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ کریلے پر پینڈی میتھالین زہر ڈوآل گولڈ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ پائی گئی ہے۔ سپرے کرنے کے ایک تا ڈیڑھ ماہ بعد ایک تسلی بخش گوڈی کردی جائے اور کھاد ڈال کرمٹی چڑھا دی جائے۔

پیداواری مسائل:

اس کے اہم پیداواری مسائل میں جڑی بوٹیاں ، کیڑے (پھل کی مکھی) کا حملہ، وائرس اور کھادوں کا غیر متناسب استعمال شامل ہیں۔

کریلے کا بیج پیدا کرنا:

دسمبر جنوری میں ٹنل میں کاشتہ کریلے کا بیج مئی جون میں اکٹھا کرلیا جائے۔ فروری مارچ میں کاشتہ کریلے کا بیج بھیبا۔ رشی موسم شروع ہونے سے پہلے پہلے جون اور جولائی میں اکٹھا کرلیا جائے۔ مئی جون میں پکنے والے کریلے میں سفید اور خالی بیجوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ مون سون بارشوں کے دوران اس کے بیج کی کوالٹی بہت خراب ہوجا۔ تی ہے۔ بارشوں سے پہلے پہلے پکنے والے کریلے میں براؤن رنگ کے معیاری بیج کی مقدار زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ مئی جون کا شتہ کریلے سے بیج کا حصول بارشوں کی وجہ سے کافی مشکل ہوتاہے۔ بارشی سیزن کے دوران کریلے میں سفید اور خالی بیجوں کے تناسب میں اضافہ ہوجاتاہے ۔ ا س لئے بیج پکانے کے لئے گرم اور خشک موسم (مئی جون) کو ترجیح دی جائے۔ کریلے میں نر اور مادہ پھول الگ الگ مگرایک ہی پودے پر ہوتے ہیں۔ کریلے میں اختلاط نسل کیڑوں خصوصاً شہد کی مکھیوں سے ہوتاہے۔ خالص بیج پید ا کرنے کے لئے کریلے کی مختلف اقسام کے درمیان ایک کلو میڑ کا فاصلہ ہونا چاہئے۔ یکساں اور خالص بیج پید ا کرنے کے لئے کمزور اور غیر اقسام کے پودے شروع سے ہی نکال دیئے جائیں۔ وائرس سے متاثرہ پودوں سے بیج نا کٹھانہ کیا جائے۔ چھوٹے یا بڑے ہر سائز کے کریلے کا بیج اکٹھا کیا جاسکتاہے۔ یہ ضروری نہیں کہ چھوٹے کریلے سے حاصل کردہ بیج کو چھوٹے کریلے ہی لگیں گے۔ پھل کی مکھی کافی زیادہ پھل بیکار کرسکتی ہے اس لئے پھول آوری کے دوران اس کے انسداد کے لئے خصوصی بندوبست کیا جائے زمین پر پھیلی ہوئی فصل کے مقابلے میں جال یا چھاپے پر چڑھائی گئی چار گنا ہ سے لے کر دس گنا زیادہ پیداوار دے سکتی ہے۔جب کریلے کی رنگت پچاس فیصد پیلی ہوجائے تو اسے توڑ لیاجائے۔ پھٹنے سے پہلے پہلے برداشت کرنا ضروری ہوتاہے۔ اس کا پھل زیادہ پک کر پھٹ جاتاہے اور بیج ضائع ہوجاتاہے۔ فیصل آباد لانگ کی اچھی فصل سے اڑھائی من جبکہ کالا کریلا یا گوجرہ سلیکشن ڈیڑھ من فی ایکڑ بیج حاصل ہوسکتاہے۔

پیداواری عوامل کا حصہ:

کریلا کاشت کرنے کے اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں بیج ، زمینی تیاری و کاشت کا حصہ 20 فیصد ، کھادوں و آبپاشی کا 30 فیصد، کیڑوں ، بیماریوں سے بچاؤ کا 20 فیص، فصل کی نگہداشت ، برداشت اور مارکیٹنگ کا 30 فیصد بنتاہے۔

پیداواری آخراجات اور آمدن:

حالیہ سالوں کے دوران ذاتی زمین میں دسمبر جنوری میں لوٹنل میں اگیتا کالا کریلا اگا کر بانس والی سرنگ کے اوپر یا چھاپے یا جال پر چڑھانے کی صورت میں فی ایکڑ خرچ ،وسطی پنجاب کے 1 تا 10 ایکڑ والے کاشتکار، نصف مقدار نہری پانی دستیاب، امورازخودیلا قیمت انجام دینے کی صورت میں زمینی تیاری و کاشت 8000، بیج 5000، کھا۔ دیں 15000، پانی 8000 جڑی بوٹی 3000، کیڑے 6000، بیماری 5000، برداشت (20 چنائیاں) 10000، ٹرانسپورٹ 10000، بانس 6000 تاریں اور جال 10000، کل 140000) روپے بنتاہے۔ بہترین پیداواری ٹیکنالوجی پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اگر ذاتِ حق کی مہربانی سے موسمی حالات بھی سازگار رہیں تو 700 من کریلے پیدا ہوسکتے ہیں۔ جن سے کم و پیش 3 لاکھ روپے کمائے جاسکتے ہیں ، اگر بیج پکایا جائے تو 80 کلو گرام فی ایکڑ تک دستیاب ہوسکتاہے۔جس سے 2 لاکھ روپے کمائے جا سکتے ہیں۔

نفع بخش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کی نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں اچھی قسم (گوجرہ سلیکش ) کو دسمبر کے آخر میں لو ٹنل میں پودوں کی مطلوبہ تعداد (5-4 ہزار) کاشت کرنا اور بیلوں کو چھاپے یا جال پر چڑھانا، فصل کو جڑی بوٹیوں، کیڑوں ( پھل کی مکھی ) و بیماریوں (روئیں دار پھپھوندی اور برگی جھلساؤ) سے بچانا، بھر پور پیداوار کے لئے کاشت سے پہلے ڈی اے پی، پوٹاش اور گوبر کی کھاد استعمال کرنا اور درجہ بندی کر کے مارکیٹنگ کرنا شامل ہیں۔


پاکستان میں بھنڈی توری کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

خورا کی وادویاتی اہمیت:

سبزی طبی لحاظ سے سر دتر درجہ دوم کی تاثیر رکھتی ہے۔یہ منی پیدا کرتی ہے اور اس کو گاڑھا بھی کرتی ہے۔آئیوڈین کا سستا مآخذ ہے۔اس میں وٹامن اے،بی اور سی وافر مقدار مین پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں کیلشئیم، لوہا اور فاسفورس بکثرت موجود ہیں۔ طبی نکتہ نظر سے پھل کی بجائے اس کے بیج زیادہ مفید ہیں۔ جوکہ سرعت انزال جریان واحتلام جیسی بیماریوں کا علاج کرنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ٹھنڈی تاثیر کی وجہ سے پیشاب کی جلن دور کرتی ہے ۔ پیچش کا علاج کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اس لئے کمزور معدے والے افراد سے بکثرت ا استعماک نہ کریں۔

فصلی ترتیب:

یہ فصل مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے:

  • بھنڈی فروری مارچ ۔میتھرے (اگست) سبزی نومبر
  • بھنڈی فروری چاول (جولائی)۔گوبھی نومبر
  • بھنڈی توری فروری چاول (جولائی) گندم نومبر
  • بھنڈی (فروری مارچ) چاول (جولائی اگست)۔گندم نومبر
  • بھنڈی (مئی جون) گندم (نومبر دسمبر)۔ چاول جولائی

تیر تیب نمبر ایک وسطی وجنو بی پنجاب کی ٹھنڈی اور صحت مند زمینوں میں زیادہ نفع بخش ثابت ہو سکتی ہیں۔ ترتیب نمبر ایک اور دو زیادہ نفع بخش ثابت ہوسکتی ہیں۔ ترتیب نمبر تین ، چار اور پانچ میں زیادہ مداخلات (Inputs) استعمال کرکے ہی نفع کمایا جاسکتاہے۔

زمین اور اس کی تیاری:

میراچکنی میرازمین میں بہتر ہوتی ہے۔کلراٹھی زمینوں میں اس کا اگاؤ نا مکمل ہوتاہے۔ بڑ ھوتری بھی صحیح نہیں ہوتی۔ فصل انچی نیچی رہیتی ہے۔ ریتی زمین میں بھی اس کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اچھے نکاس اور بہتر ہواداری والی صحتnمند زمین میں کاشت کی جائے تو ریکارڈ پیداوار حاصل ہو سکتی ہے ۔مسلسل کئی سالوں تک ایک ہی زمین میں بھنڈی توری کاشت کی جائے بیماریوں کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ہر سال ایک ہی کھیت میں بار بار بھنڈی کاشت کی جائے۔ یہ زیادہ گہری جڑوں والی فصل ہے۔ اس لئے زمین کافی گہرائی تک تیار کی جائے۔ بھنڈی توری کے بیجوں میں اگنے کی طاقت زیادہ نہیں ہوتی اس لئے باریک شدہ اور لیزر سے ہموار کردہ زمین میں کاشت کی جائے تو یکساں اگاؤ کی وجہ سے بھر پور پیداوار حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ فصل اگر نامکمل زمینی تیاری کے بعد (زمین کو اچھی طرح خشک کیے بغیر) کاشت کردی جائے تو نہ صرف بھنڈی کا اگاؤ کم ہوتاہے بلکہ جڑی بوٹیاں اور سابقہ فصل کے بچے ہوئے کیڑے مکوڑے اس پر حملہ آور ہو کر شدید نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ اگر چہ سارے پنجاب کے آبپاشی علاقوں میں اگائی جاسکتی ہے لاہور، قصور، کمالیہ، ساہیوال، گوجرانوالہ اور شیخو پورہ میں زیادہ اگائی جاتی ہے۔

آب وہوا اور اگاؤ:

بھنڈی کم ازکم 15تا16 اسطاً25تا41 درجے سینٹی گریڈ پر اگ سکتی ہے۔سبزپری کا عمومی اگاؤ 60 تا80 فیصد دوغلی اقسام کا 95 فیصد سے بھی زیادہ ہوتاہے۔ 20 سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت پر بھنڈی کا اگاؤ کم ہو جاتا ہے ۔ بہتر حالات میں ذخیرہ کر دہ بیج کی روئیدگی دو سال تک بر قرار رہتی ہے۔لیکن احتیاطاً ایک سال سے زیادہ پرانا بیج نہ لگایاجائے۔ منل میں بھنڈی کاشت کرنے والوں کو مطلع کیاجا تاہے کہ یہ فصل سردی اور کورے سے بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ اس لئے منل میں بھنڈی کاشت کرنے سے گریز کیاجائے تاہم مخلوط کاشت کی صورت میں منل میں بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ گرم و قدرے خشک ماحول میں زیادہ پیداوار دیتی ہے۔ شدیدگرم وخشک موسم مین اس پر جوؤں کا حملہ ہوتا ہے۔ لیکن گرم مرطوب آب وہوامیں اس پر کیڑے اور بیماری (وائرس)کاشدید حملہ ہوسکتا ہے۔

اقسام:

سبزپری بھنڈی کی بہترین مقامی قسم ہے۔ اس کے علاوہ دوغلی اقسام میں مخملی، بہاریہ ایف۔1 قسم نمبر 008 اور ادایچ152 بھی زیر کاشت ہیں۔

الف سبزپری:

اس کا رنگ ہلکا سبز ہوتا ہے اس لئے دوغلی اقسام کے مقابلے میں کم پسند کی جاتی ہے۔پیداوار بہتر،فروری کاشت کی صورت میں اس پر وائرس کا حملہ کم ہو تا ہے لیکن مئی جون میں کاشت کی صورت میں اس پر وائرس کا شدید حملہ ہوسکتا ہے۔بہاریہ کاشت کی صورت میں کئی دوغلی اقسام سے بہتر پیداوار دیتی ہے۔اس کے پھل پر دوغلی اقسام کے مقابلے میں بال زیادہ ہوتے ہیں۔یہ قسم چونکہ مقامی حالات میں تیار کی گئی ہے اس لئے انڈیا سے درآمدہ بیج کے مقابلے میں مقامی آب وہوا کے ساتھ بہتر مقابلہ کر سکتی ہے۔

ب - دوغلی اقسام:

اوایچ 152 ، بہاریہ الف۔ 1 اور قسم نمبر 008 کی بھنڈی کارنگ گہر ا سبز اور مارکیٹ میں سبز پری کے مقابلے میں زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ان کے پودے جھاڑی نما (Bushy) ہوتے ہیں۔ گندم کا ٹنے کے بعد مئی جون میں کاشت کی صورت میں اس کی پیداواری صلا حیت سبز پری کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ہائبرڈ اقسام کی رنگ گہرا سبز اور پر کشش ہوتا ہے۔جون میں کاشتہ دوغلی اقسام پر وائرس کا شدید حملہ نہیں ہوتا۔

کھادیں:

بھنڈی توری زمین سے خوراکی اجزا چٹ کر جانے والی (Exhaustive) فصل ہے۔نیز یہ زیادہ گہری جڑوں والی فصل ہے اس لئے فاسفورس اور پوٹاش والی بیشتر کھادیں بجائی کے وقت زمین میں ملادی جائیں۔دوبوری زر خیز اور دو بوریا استعمال کرکے بھنڈی توری کی کامیاب فصل اگائی جا سکتی ہے۔مختلف کھادیں استعمال کرنے کی تفصیل مندر جہ ذیل ہے۔

الف - بوائی کے وقت استعمال:

زمین کے زرخیزی ٹسیٹ، آب وہوا، زمینی صحت وساخت اور علاقے کی مناسبت سے بھنڈی کو 25-30-35 تا 25-50-50 کلو گرام فی ایکڑ نائٹروجن ، فاسفورس اورپوٹاش ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔اس میں سے ایک تہائی نائٹروجن،تمام فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقت کاشت ڈالی جائے۔ بقیہ نا ئٹر وجن اور پوٹاش کاشت کی 35 تا 150 دن کے اندر اندر Split کرکے ڈالیں۔ جب بھنڈی بڑی ہو جا ئے تو جائٹروجن ڈلنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہر پندرہ دن بعد 15 تا20 کلوگرام یوریا کھاد فرٹیگیشن کے طریقے سے ڈالی جائے۔ بیج والی فصل کو فاسفورس اور پوٹاش والی کھادیں زیادہ ڈالی جائیں۔

ب - کھادوں کی سپریں:

بھرپور اور مثالی فصل حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جب بھنڈی ارنی شروع ہوجائے تو ہر دو ہفتہ بعد اعلی کولٹی کی NPK سپرے کی جائے۔ زمین میں پوٹاش ڈالنے کے بجائے پوٹاش کی سپرے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے اس مقصد کے لئے 45:15:5 یا 44:3:14 گریڈ کی فو لئر فر ٹیلا ئزر فصل کاشت کرنے کے بعد 50 تا 100 دن کے اندر اندر قسط وار کرکے سپرے کی جائے تو بھر پور پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

ج - اضافی مرکبات:

جب فصل 50 دن کی ہوجائے تو امائنو ایسڈز 3 کلوگرام فی ایگڑ کے حساب سے فر ٹیگیشن کے طریقے سے ڈالے جاسکتے ہیں۔ اگر ازمین سخت یا کلر اٹھی ہو تو آبپاشی کے ساتھ سر فو گارڈ یا یوایس۔ 20 دس تا20 کلو جی ایکڑ حساب سے فر ٹیگیشن کے طریقے سے ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

آبپاشی

بھنڈی کو زمینی ساخت ، وقت کاشت ، مقصد کا شت، بھنڈی کے دورا نئے اور آب وہوا کی مناسبت سے مارچ میں کاشتہ بھنڈی کو دس تا بیس مرتبہ آبپاشی کی جاسکتی ہے۔ زمین اور موسم کی مناسبت سے تعداد میں کمی پیشی کی جاسکتی ہے۔

یکساں اگاؤ کی خاطر پہلا پانی خاص احتیاط سے لگایا جائے۔ اسے اگاؤ کے لئے چونکہ زیادہ نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے پہلا پانی کھیلیوں کی نصف تک اوربہتر اگاؤ کی خاطر دوسراپانی دو تہائی اونچائی تک لگایا جائے۔ جب فصل 30تا35 دن کی ہو جائے تو اسے سو کا لگایا جائے تاکہ پھول آوری کا عمل جلدی شروع ہوسکے۔ اس مقصد کے لئے اپریل کے شروع میں آبپاشی کنڑول کرکے بھنڈی کی پھل آوری کی صلاحیت میں اضافعہ کیا جا سکتا ہے۔ پھل آوری شروع ہونے کے بعد آبپاشی کر دی جائے۔ اس کے بعد موسم کی مناسبت سے حسبِ معمول آبپاشی کا عمل جاری رکھا جائے۔

فصل کے پورے عرصہ کے دوران پرپٹڑیوں کے اوپر پانی نہ چڑ ھنے دیاجائے۔ اگر پانی پٹڑیوں کے اوپر چڑ ھتا رہے تو زمین دب کر سخت ہوجاتی ہے، آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بھنڈی توری کی جڑیں زیادہ دور تک نہیں جا سکتیں۔ جس کے نتیجے میں پودے پوری آزادی سے نشوونما نہیں کر سکتے اور مثالی پیداوار حاصل نہیں ہو سکتی۔ جولائی کاشتہ بھنڈی توری کو مون سون کی بارشوں اورموسمی پیش گوئی کی مناسبت سے پانی لگانا چا ہئے۔ زیادہ پھل لینے کی غر ض؂ سے کسی بھی مر حلے پر بھر پور آبپاشی سے گریز کیا جائے۔

شرح بیج:

سبزپری کا ستر فیصد اگاؤ والا20تا25 کلو فی ایکڑ استعمال کیا جائے ۔ بیج کے لئے8-6 کلو گرام فی ایکڑ استعمال کیا جائے۔ زیادہ اگیتی کاشت کی صورت میں سبزپری کا 25 کلو یا زیادہ بیج ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔بیشتر دوغلی اقسام کا 4 تا5 کلو گرام فی ایگڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔اس کا ایک سال پرانا بیج بہتر اگاؤ دیتاہے۔ اگر بیج دو سال پرانا ہو تو 50% زیادہ دالا جا ئے۔

طریقہ کاشت:

بھنڈی توری کھیلیوں کے کناروں پر چوکے لگاکر کاشت کی جاتی ہے۔ ہموار زمین میں دس دس مرلے کے کیاروں میں دو تا اڑھائی کے فاصلہ پر 6 انچ گہری کھیلیوں کے دونوں طرف چوکے لگا جائیں۔ مثالی پیداوار حاصل کر نے کے لئے چوکے لگانے کے ہفتہ دس دن بعد ناغے پر کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ فروری کاشتہ بھنڈی کی کھالیاں 6 انچ سے کم گہری جبکہ مئی جون میں کاشت کی جانے والی فصل کی کھالیاں 6 انچ سے زیادہ بنانے کی تاکید کی جاتی ہے۔

الف - سبزپری:

سبز بھنڈی کے لئے مارچ میں کاشت کی صورت میں پودوں کا باہمی جاصلہ ایک ایک انچ رکھا جائے تو مناسب اور باریک بھنڈیاں لگتی ہیں۔ بیج کی غرض سے کاشتہ فصل کے لئے 12-9 انچ برقرار رکھا جائے۔ اس طرح پودوں کی تعداد سبز بھنڈی کی صورت میں اڑھائی تا تین لاکھ اور بیج کی صورت میں 40-30 ہزار ہونی ضروری ہے۔ ب۔ دوغلی اقسام میں اوایچ 152 اور قسم نمبر008 خواہ مارچ میں کاشت کی جائیں یا مئی جون میں ، ان کے پودوں کا باہمی فاصلہ زیادہ ہونے کے باوجود ان کو باریک باریک بھنڈیا ں لگی ہیں۔

مخلوط کاشت:

اڑھائی فٹ کے فاصلے پر فروری کاشتہ کھاد میں کھیلیوں کے کناروں پر یاتربوز میں بھی بھنڈی توری کاشت کی جاسکتی ہے۔

وقت کاشت:

آبپاشی پنجاب کے لئے جموعی طور پر وسط فروری تاوسط مارچ زیادہ موزوں ہے۔ پنجاب میں بھنڈی توری کی زیادہ تر کاشت فروری اور مارچ کے دوران ہوتی ہے۔ وقتِ کاشت کی تغیرات کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: الف۔ بہاریہ کاشت: بھنڈی توری کی اگیتی کاشت مقامی موسمی رجحان دیکھ کر کرنی چا ہئے۔ موسمی حالات سابقہ عشروں کے مقابلے میں بہت بدل چکے ہیں اسلئے وسطی و جنوبی پنجاب کے موجود موسمی حالات میں بھنڈی توری کی اگیتی کاشت فروری کے پہلے ہفتے میں کی جاسکتی ہے۔ پنجاب کے بیشتر آبپاش علاقو ں میں مجموعی طور پر وسط فروری تا وسط مارچ زیادہ موزوں ہے۔ زیادہ اگیتی بہار یہ فصل کا اگاؤ کم ہوتا ہے۔ لہذا درمیانی کاشت کو تر جیح دی جائے۔ 25 فروری سے10 مارچ کے دوران کا شتہ فصل زیادہ نفع بخش ثابت ہو تی ہے۔ بہاریہ کاشت کے لئے سبز پر ی کو تر جیح دی جائے۔

ب - گرمی میں کاشت:

موسم گرما کی فصل عام طور پر گندم کے بعد کاشت کی جاتی ہے۔سبزپر ی کا بیج پکانے کے لئے آخرجون تاوسط جوالائی زیادہ موزوں ہیں۔ گندم کے بعد مئی جون میں کا شت کی صورت میں سبزپری کی بجائے دوغلی اقسام کو تر جیح دی جائے۔اس موسم میں سبزپری پر وائرس کا شدید حملہ ہوسکتاہے لیکن دوغلی اقسام کافی حد تک وائرس سے محفوظ رہتی ہیں۔

ج - موسمی پیش گوئی کی مناسبت سے کاشت

بھنڈی توری موسمی پیش گوئی کی مناسبت سے کاشت کی جائے توکرنڈسے بچ کر پودوں کی مناسب تعداد اگائی جاسکتی ہے۔ہر ضلع کی موسمی پیش گوئی سے باخبر رہنے کے لئے انٹر نیٹ بہتر ذریعہ ہے ۔ اس سلسلے میں کئی ویب سائٹس سے م معلومات لی جاسکتی ہیں۔ پنجاب کے کسی بھی ضلے کا نام لکھنے کے بعد weather forecast لکھ کرپنجاب کے ہر ضلعے کا بھر کا ٹھیک ٹھیک موسم دیکھا جا سکتا ہے۔

بھنڈی توری کا بیج بنانا:

اگر چہ بہاریہ بھنڈی توری سے بھی بیج بنایا جا سکتاہے لیکن جون کے شدید گرم اور خشک موسم میں پکنے والے بیج کا اگاؤ متاثر ہوتا ہے۔اس لئے بیج کے لئے جون یا جولائی کاشتہ فصل زیادہ مو زوں سمجھی جاتی ہے۔ جولائی کاشتہ بھنڈی توری (سبزپری) پر وائرس کا شدید حملہ ہوسکتاہے۔ بیج والی فصل سے پھول گرنے پر بد شکل ، غیرضروری اور وائرس سے متاثرہ پودے نکال دیئے جائیں۔ اگر زیادہ اقسام کا بیج بنانا ہو تو مختلف اقسام کے درمیان فاصلہ 500 میڑ رکھیں۔ اگر پہلی چند ایک چنائیاں کر لی جائیں تو بھی بیج کی پیداوار میں نمایاں کمی واقع نہیں ہوتی۔

بیج والی فصل پر بارش:

بھنڈی توری کے بیج میں چونکہ خوابیدگی نہیں ہوتی اس لئے پکنے کے فوراً بعد اگ سکتا ہے۔ پکائی کے دوران اس کے بیج کو بارش اور نمی سے بچاناازحد ضروری ہے۔ اگر پکی ہوئی یا کٹی ہوئی فصل پر بارش ہو جائے تو اندرونی طور پر بیج کے اگاؤ کا عمل شروع ہوجاتاہے۔اس کے بیج کا اگاؤ بری طرح متاثر ہو جاتاہے۔ اس لئے بارش سے متاثر بیج کھبی بھی استعمال نہ کیا جائے۔

مارکیٹنگ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ

سندھ خاص طورپر ٹھٹہ اور بدین سے سبز بھنڈی کی سپلائی فروری میں ہی شروع ہوجاتی ہے۔اور اپریل تک جاری رہتی ہے۔ یہ کافی اونچے ریٹ سے فروخت ہوتی ہے۔ اس کے بعد وسطی پنجاب کی اگیتی فصل وسط اپریل کو مارکیٹ میں آتی ہے جس کا ریٹ پہلے دو ہفتے بہتر رہتا ہے اس کے بعد تد ریجاً کم ہو جاتاہے۔ باافراد پیداوار کی وجہ سے جون اور جولائی کے دوران اکثر اس کا ریٹ گرجاتاہے۔ جولائی میں بہت سی بھنڈی توری ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے مون سون کی بارشوں کے دوران اس کا ریٹ دوبارہ بہتر ہوجاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ستمبر اکتو بر تک جاری رہتاہے۔

برداشت یا چنائی:

وقتِ کاشت ، شرح بیج اور اقسام کی مناسبت سے فروری کاشتہ بھنڈی کی پہلی چنائی عموماً 55 تا60 دنو ں میں تیارہو جاتی ہے۔گرمیوں میں کاشتہ بھنڈی کی پہلی چنائی 45 تا50 دنو ں میں کی جاسکتی ہے۔چنائی عمل بہت مشکل ہو تاہے ہاتھوں پر ہوادار دستانے چٹرھاکر یا انگلیوں پر پٹیاں لپیٹ کر چنائی کر نی چاہئے بڑی سخت بھنڈیوں کی کیمت بہت کم ملتی ہے اس لئے سخت ہونے سے پہلے پہلے بھنڈی کی چنائی کرنی ضروری ہوتی ہے۔چنائی کے دوران بچ جانے والی بھنڈیاں اگلی چنائی تک بڑی ہو جاتی ہے اس لئے چنائی کرنے کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا جائے۔ درمیانی قسم کی بہاریہ فصل بیس تا پچیس چنائیاں دیتی ہے۔ لیکن چنائی کے ساتھ ساتھ اگر مسلسل کھاد، پانی اور کیڑوں کے انسداد کا بندو بست کیا جائے تو چا لیس چنائیاں بھی لی جاسکتی ہیں۔مئی جون میں کاشت کی گئی دوغلی اقسام کی چنائیاں اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔

پیداوار:

بہاریہ کاشت کی صورت میں تازہ پھل کی پیداوار 100 تا 125 من فی ایکٹر حاصل ہوتی ہے۔ بیج کی 12تا15 من فی ایکٹر حاصل ہوتی ہے۔ لیکن بہتر پیداواری حالات میں تازہ بھنڈی کی پیداوار 200 تا 225 من اوریج کی 18 تا 25 من فی ایکڑ تک حاصل کی جا سکتی ہے۔دوغلی اقسام کی پیداواری صلا حیت 300 من فی ایکڑ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔

بیماریاں اور ان کا انسداد:

بھنڈی توری پر وائرس ، مر جھاؤ،سفو فی پھپھوندی اور نیما ٹو ڈز کی بیماریاں حملہ آور ہوسکتی ہیں۔

مرجھاؤ:

جمر جھاؤ کی بیماری کا امکان ہو تو کاشتی امور کی بہتری کے ساتھ ساتھ بیج کو ٹاپسن ایم لگا کر کاشت کریں۔ ڈائی ناسٹی یا سن کے متبا دل زہریں دو ملی لٹر فی کلو بیج کو لگا کر کاشت کریں تو یہ فصل انتدائی بیماریوں خصو صاً مر جھاؤ سے محفوظ رہتی ہے۔ ہر سال ایک ہی کھیت میں بار بار بھنڈی کا شت کی جائے تو جڑوں کی بیماری (Root rot) کا شدید مسئلہ پیدا ہو سکتاہے اس لئے ہر سال جگہ بدل کر کاشت کی جائے۔ مسلسل کئی سالوں تک ایک ہی زمین میں بھنڈی توری کا شت کی جائے تو اس بیماری کے امکانات بہت برھ جاتے ہیں۔

سفوفی پھپھوندی:

مئی جون کے گرم اور خشک موسم کے دوران بھنڈی توری پر سفوفی پھپھوندی کا شدید حملہ ہو سکتاہے۔ مارچ کاشتہ بھنڈی توری کے بیشتر پتے اسی بیماری کی وجہ سے گر جاتے ہیں اور جون کے دوران فصل کا تقریناً خاتمہ ہو جا تاہے اس سے بچاؤ کے لئے ابتدائی علامات ظاہر ہونے پر 50 ملی لڑ سستھین یا ٹو پاس یا ان کے متبادل زہر یں سو لڑ پانی میں ملاکر سپرے کرنے کر نے کی سفارش کی جاتی ہے۔

واترس:

گندم کے بعد کاشت کی جانے والی فصل سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ قوت مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کی جائیں۔متوازن کھادیں ڈالنے کے علاوہ کیڑوں اور جڑی بوٹیوں سے پوری طرح بچایا جائے تو بھی فصل وائرس سے محفوظ رہتی ہے۔ وائر س انتدائی علامات ظاہر ہونے پر 12 فیصد زنک آکسائیڈ 800 ملی لٹر اور بوران 200 گرام 100 لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جائے تو نہ صرف وائرس مزید نہیں پھیلتا بلکہ فصل گہرے سبز رنگ کی ہوجاتی ہے۔ جون یا جولائی میں کا شت کی گئی بھنڈی توری کو کیڑوں اور وائرس سے بچانا کا دشوار عمل ہے۔ ان سے بچاؤ کے لئے خصوصی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔

نیما ٹو ڈز:

بیج لگانے سے پہلے کاربو فیو ران زہر نو کلوگرام فی ایکڑ کے حساب زمین میں ملائی جائے تو یہ فصل نیماٹو ڈز سے محفوظ رہتی ہے۔دانے دار زہر امین میں ڈالے بغیر بھر پیداوار کا حصو ل مشکل ہوتا ہے۔دانے دار زہر بوئی کے وقت اور مٹی چٹر ھاتے وقت یعنی دو مر تبہ ڈالی جائے تو بھنڈی توری کی فصل حیرت انگیز طور پر لمبے عرصے کے لئے سر سبز رہ کر ریکارڈ پیداوار دے سکتی ہے۔اگر بوائی کے وقت نو کلو گرام فی ایکڑ کے حساب سے کاربو فیو ران یا فیوراڈان استعمال کی جائے تو بیما ٹو ڈز اور بہت سے انتدائی کیڑوں کے مضر اثرات سے بچی رہتی ہے اور فصل کی رنگ گہرا سبز رہتا ہے۔

کیڑے اور ان کا انسداد:

بھنڈی توری کے کیڑوں میں چور کیڑا،چست تیلہ، سفید مکھی، چتکبری سنڈی، تھرپس، جوئیں، ملی بگ اور امریکن سنڈی وغیرہ شامل ہیں۔چور کیڑے کا حملہ اگاؤ کے دوران ہوسکتاہے۔ اگاؤ کے بعد سفید مکھی، چست تیلہ اور تھرپس کا حملہ ہوتاہے۔بیج کے لئے جولائی کاشتہ فصل پر سبز تیلے کا شدید حملہ ہوتا ہے۔پھل آروی کے دوران عموماً چتکبری سنڈی زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔لیکن بعض حا لات میں امریکن سنڈی کا حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ بھنڈی توری کے نظر انداز شدہ کھیتوں میں میلی بگ بھی آسکتا ہے۔ گرم اور خشک موسم کے دوران جوؤں کا شدید حملہ ہو سکتا ہے۔ اگر کیٹروں کا حملہ ابھی انتدائی مر حلے پر ہی ہو تو حسب ضرورت ہلکی اور کم قیمت زہریں استعمال کی جائیں۔ اگر کسی وجہ سے کیڑوں کا شدید حملہ ہو جا ئے تو زیادہ طاقتور اور مہنگی زہریں استعمال کی جائیں۔مثلاً مارچ اپریل کے دوران امیڈا کلو پر ڈ اور ایمامیکٹن سے گذارہ کیا جا سکتاہے۔ لیکن اگست ستمبر کے دوران جب تیلے اور سنڈیوں کیا حملہ شدید تر ہوتا ہے اس وقت کونفیڈاریا ایسیفیٹ یا ڈائی میتھویٹ کے ساتھ پروایکسز ، پروکلیم یا ہیلٹ یا میچ جیسی زیادہ موثر زہریں استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

الف - سفید مکھی اور چست تیلہ:

بھندی توری چست تیلہ کی انتہائی پسندیدہ خوراک ہے۔ اس پر حملہ زیادہ نقصان پہنچاتا ہے اور سفید مکھی کم حملہ کر تی ہے۔ ابتدائی حملہ کی صورت میں ان سے بچاؤ کے لئے کو نفیڈار 250 ملی لٹر یا موسپیلان 125 گرام سو لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جا سکتی ہیں۔اگر سفید مکھی کا شدید حملہ ہو جائے تو پائری پروکسی فن 300 ملی لٹر یا مورینٹو 250 ملی لٹر یا پولو 200 ملی لٹر جیسی طاقت ور زہریں 100 لٹر پانی میں ملاکر تسلی بخش طریقے سے سپرے کی جاسکتی ہیں۔

چست تیلہ:

اگر مسلسل کو نفیڈار سپرے کرنے کے نتیجے میں چست تیلہ سخت جان ہو جائے تو پانرامڈ (Nitenpyram) 200 ملی لٹر یا ایسیفیٹ 250 گرام یا ڈائی میتھویٹ 500 ملی لٹر فی ایکٹر کے حساب سے ہفتے کے وقفے سے دو مرتبہ سپرے کی جائے۔ اور ا س کے بعد پھر کو نفیڈار یا ایکٹارا پاور سپرئر کی مدد سے استعمال کی جائیں تو تیلے کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔

ب - چتکبری سنڈی:

بھنڈی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔اس سے بچاؤ کے لئے ٹریسر 60 ملی لٹر یا دیلٹا میتھرین 300 ملی لٹر یا پروایکسز 75 ملی لٹر یا ان کے متبادل زہریں سو لٹر پانی میں ملاکر استعمال کی جاسکتی ہیں۔

ج - چور کیڑا:

یہ کیڑا آبپاشی علاقوں میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔چور کیڑا بھنڈی کو اگاؤ کے دوران اور پہلے ایک ماہ کے اندراندر نقصان پہنچا سکتاہے۔ اس کے بچاؤ کے لئے ٹالسٹاریا ہائی فینتھرین 200 ملی لیڑ یا سیون 85 بحساب 400 گرام یا لارسبن یا ینڈ وسلفان 800 ملی لٹر سولٹر پانی ملاکر صرف شام کے وقت سپرے کریں۔

د - امریکن سنڈی:

امریکن سندی کے انتدائی حملہ کی صورت میں ایمامیکٹن 200 ملی لٹر استعمال کی جاسکتی ہے۔ لیکن شدید حملہ ہونے پر پروکلیم یا ٹریسریاان کے متبادل زہر سپرے کی جائیں۔ ہر قسم کے سنڈیوں کے شدید حملہ سے بچاؤ کے لئے ریڈی اینٹ100 ملی لٹر یا ٹریسر80 ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کی جاسکتی ہے۔

ر - گدھیڑی یا میل بگ:

میلی بگ کے حملے کے انتدائی مر حلے میں کونفیڈار الٹرایا امیڈاکلو پرڈ بھی اس کو مو ثر طور پر کنڑول کر سکتی ہے۔ لیکن شدید حملہ کی صورت میں پرو فینو فاس یا کیورا کران یا لارسبن 1000 ملی لٹر مناسب تر بیت کے بعد استعمال کی جاسکتی ہیں۔

س - ۔جوئیں:

مئی جون کے گرم اور خشک موسم کے دوران نباتاتی جوئیں بھی بھنڈی توری کو شدید نقصان پہنچاسکتی ہیں۔اس سے بچاؤ کے لئے نسواران یا یو نیک یا پولو 200 ملی لٹر فی ایکڑ ڈائی کو فال 300 ملی لٹر یا اوبیران 60 ملی لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

جڑی بوٹیاں:

فروری کاشتہ بھنڈی توری میں ہاتھو، جنگلی پالک، جنگلی ہالون اور چولائی وغیرہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ مارچ سے جولاتی کے دوران کاشتہ فصل اٹ سٹ، ڈیلا، مدھانہ، لمب گھاس ، قلفہ اور چولائی سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔پہلے دو ماہ کے دوران جڑی بوٹیوں کو کنڑول کرلیا جائے تو بھنڈی توری کی فصل کامیابی سے اگائی جاسکتی ہے۔ ان کی تلفی کے لئے زمینی ساخت ، وقتِ کاشت، طریقہِ کاشت اور اگنے والی جڑی بوٹیوں کی مناسبت سے کاشت کے ایک دن بعد پینڈی میتھالین یا ڈوال گولڈ یا کاشت کے ایک ماہ بعد پو ما سپریاگرامکسون سپرے کی جاسکتی ہیں۔ جڑی بوٹی مار

زہریں استعمال کر نے کی تفصیل مندر جہ ذیل ہے:

الف - اگاؤ سے پہلے سپرے:

اگاؤ سے پہلے پہلے زہریں استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ فروری میں بھنڈی کاشت کر کے پانی لگائیں اور ایک یا دو دن بعد پینڈی میتھالین بحساب 1200 ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کی جاسکتی ہے۔ جنکہ مئی جون میں کاشتہ بھنڈی توری پر یہی زہر 1000 ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کر یں۔سپرے کرنے کے تقریباً ایک ماہ بعد جڑوں کی مناسب ہواداری کے لئے ایک گوڈی بھی کر دی جائے ۔

وضاحت:

بھنڈی توری پر پینڈی میتھالین زہر ڈوال گولڈ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ثابت ہوئی ہے۔اگر کھیت میں دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ ڈیلا اگنے کا قو ئی امکان ہو تو ڈوآل گولڈ بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔اگر سپرے کے ایک ہفتہ بعد تک بارش کا امکان نہ ہو تو نہار یہ کاشت کی صورت میں ڈوآل گولڈ کا فی حد تک محفوظ ہے۔لیکن پوری مقدار میں استعمالکی جائے تو مئی جون میں کاشتہ بھنڈی توری کا اگاؤ بھی متاثر کرتی ہے۔ اس زہر کے محفوظ استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ فروری کاشت کی صورت میں بھاری میراز مینوں میں 800 ملی لٹر جبکہ مئی جون مین کاشت کی صورت میں ہلکی یا کلراٹھی زمینوں میں 650 ملی لٹر فی ایکڑ 100 لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے۔

ب - اگاؤ کے بعد سپرے:

اگر بجائی کے وقت کوئی بھی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو اور صرف گھاس خاندان کی جڑی بو ٹیوں کا مسئلہ ہو کاشت کے بعد پہلے ایک ماہ کے اندر اندر پرسیپٹ 350 ملی لٹر یا فیٹوکساپراپ یا پوماسپر 400 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جا سکتی ہیں۔ یہ زہریں بھنڈی توری کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ گھاس خاندان کی جڑی بوٹیوں کی بہتر تلفی کے لئے ضروری ہے کہ وتر حالت میں صبح یا شام کے ٹھنڈے وقت میں سپرے کی جائیں۔

متفرق:

زیادہ کھاد یا پانی کی وجہ سے یا مون سون کے دوران بکثرت بارشو ں کی وجہ سے اس کا قد تیزی سے بڑ ھنے لگے تو سٹانس 30 ملی لٹر فی ایکڑ سو لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اس سپرے سے اس کا قد تیزی سے نہیں بڑھتا ہے۔اور پھل آوری کا عمل حسبِ معمول جاری رہتاہے۔ اگر اس کے بیج کو جبر یلک ایسڈ 400ppm یا انڈول ایسٹک ایسڈ 20ppm کے حساب سے لگا کر کاشت کیا جائے تو اگاؤ زیادہ ہوتاہے۔

پیداواری مسائل:

جڑی بو ٹیاں ، کیڑے (چتکبری سنڈی تیلہ)، وائرس کا حملہ اور بیج پکنے کے دوران بارش اس کی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔کرنڈ وغیرہ کی وجہ سے بیج کی نا مکمل اگاؤ اور چنائی میں تا خیر بھی نفع بخشی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

پیداواری عوامل کا حصہ:

اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں کا حصہ تقریباً 30 فیصد زمینی کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بو ٹیوں سے بچاؤ کا 15 فیصد فصل کی برداشت ومارکیٹنگ کا 35 فیصد بنتاہے۔ ان اخراجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں ہے۔

پیداواری اخراجات اور آمدن:

حالیہ سالوں کے دوران ذاتی زمین پر فروری میں کاشت کی صورت مین بھنڈی توری پیدا کرنے کافی ایکڑ خرچ61 ہزار روپے سے بھی زیادہ آتا ہے۔ (وسطی پنجاب کے 1 تا 10 ایٹر والے کاشتکار، نصف مقدار نہری پانی دستیاب صرف نا گزیر اطاقی اخراجات شامل کرتے ہوئے زمینی تیاری 5000، کاشت 2000، بیج دوغلی اقسام 8000، کھادیں 10000، پانی 3000، جڑی بوٹی2000، کیڑے 5000، برداشت (30 چنائیاں) 20000، ٹرانسپورٹ 5000 متفرق 1000، کل 61000) بہتر پیداواری ٹیکنالوجی پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اگر مارکیٹ اور موسمی حالات بھی ساز گار رہیں تو 250 من بھنڈی توری پیدا ہو سکتی ہے۔ جس سے تین لاکھ روپے سے زیادہ کمائے جا سکتے ہیں۔ مناسب حکمت عملی کی بدولت مذ کورہ اخراجات میں کمی کر کے اس سے بھی زیادہ بچت کی جاسکتی ہے۔

نفع بخش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کی نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں قسم سبزی کو مناسب وقت پر اچھے طریقے سے قدرے زیادہ بیج ڈال کر کاشت کرکے پودوں کی مناسب (تین لاکھ) تعداد حاصل کرنا، فصل کو کیڑوں و جڑی بوٹیوں سے بچانا، ؤکھاد ڈال کر فصل کو مٹی چڑ ھا نا، نشونما اور پھل آوری کو تحریک دینے والے مرکبات کی سپرے کرنا ، پانی کا سوکا لگا کر اگیتا پھل حاصل کرنا ، کھاد، پانی اور ہارمون استعمال کر کے قد کنٹرول کرنا اور مناسب سائز کی چنائی کرکے مارکیٹنگ کرنا شامل ہیں۔


پاکستان میں شکر قندی کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

خوراکی و ادوایاتی اہمیت:

طبی لحاظ سے شکر قندی قدرے گرم اور تر خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ مقوی بدن ہونے کے ساتھ ساتھ پھپھڑوں کیلئے مفید ہے۔ لوہے اور تانبے کی بکثر ت موجودگی کی وجہ سے کمردرد ختم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کھانسی کیلئے مفید ہے۔اور دماغ کو بھی تقویت دیتی ہے۔ مجموعی طور پر ثقیل ، دیر ہضم ہے۔ اگر اسے کھٹا اور لیموں وغیر ہ لگائے بغیر استعمال کیا جائے تو قبض کرتی ہے۔ اس کا کثیر استعمال بعض حالات میں موٹاپے کا باعث بن سکتاہے۔

زمین اور علاقے:

شکر قندی میرا اور ہلکی میر زمین میں بہتر ہوتی ہے۔ بھاری میرا اور چکنی زرخیززمین میں کاشت نہ کی جائے ۔ چونکہ اس کی جڑیں کافی زیادہ گہرائی سے خوراک حاصل کرلیتی ہیں اس لئے زمین کافی گہرائی تک تیارکی جائے آلو کے برعکس شکر قندی کافی گہرائی پر بنتی ہے۔ اگرچہ آبپاشی پنجاب میں ہر جگہ اگائی جاسکتی ہے لیکن جھنگ، ساہیوال، ٹوبہ، گوجرانوالہ کے اضلا ع میں زیادہ کاشت ہوتی ہے۔

آب و ہوا:

گرم اور خوشک آب وہوا میں بہتر پیداوار دیتی ہے۔ یہ فصل خاص طور پر 27تا32 درجے سینٹی گریڈ پر بہتر افزائش کرتی ہے۔ اگر بڑہوتری کے دوران زیادہ بارشیں ہوں تو بیلیں بہت بڑھ جاتی ہیں اور شکر قندی کم بنتی ہے۔ یہ زیادہ سر دی بھی برداشت نہیں کر سکتی۔

فصلی ترتیب:

پنجاب کے مختلف علاقوں میں شکر قندی مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے:

  • کرقندی (جون، جولائی) گندم (نومبر) شکرقندی جون
  • مسور (اکتوبر نومبر) شکرقندی (آخر جون) گندم نومبر
  • شکرقندی (جون جولائی) رایا (آخر اکتوبر) چارہ جون
  • شکر قندی (جون جولائی) گندم (نومبر) باجرہ جون

اقسام:

اس کی مشوہور اقسا م میں وائٹ سٹار ، ساہیوال سُر خ اور لوکل ریڈ شامل ہیں۔

وائٹ سٹار:

اس کا رنگ ہلکا پیلا یا قدرے سفیدی مائل اور سائز کافی بڑا (King size) ہوتا ہے۔ اس کی پیداوار 250 من فی ایکڑ تک ہوسکتی ہے۔یہ قسم لوکل ریڈ کے مقابلے میں زیادہ عرصہ تک محفوظ رہ سکتی ہے۔سندھ اور پنجاب کے لئے یکساں موزوں ہے

لوکل ریڈ:

اس کارنگ سُرخی مائل اور سائز درمیانہ، پیداوار اور سٹوریج کوالٹی وائٹ سٹار کے مقابلے میں قدرے کم ہوتی ہے۔ پنجاب کی آب وہو ا اس قسم کے لئے زیادہ موزوں ہوتی ہے۔ ساہیوال سُرخی کی رنگت لوکل ریڈکے مقابلے میں زیا۔ دہ پر کشش ہوتی ہے۔ لیکن پیداواری صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے پنجاب میں زیادہ کاشت نہیں کی جاتی ۔

کھادیں:

شکر قندی کی خوراکی ضروریات:

ایک ایکڑ سے 15 ٹن شکر قندی پیدا کرنے کے لئے 70کلو گرام نائٹروجن، 32 کلو گرام فاسفورس، 143کلوگرام پوٹاش استعمال ہوتے ہیں ۔یعنی شکر قندی کی اچھی پیداوار کے لئے پوٹاش کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کھادوں کے

بارے میں تفصیلی معلومات مندرجہ ذیل ہیں:

الف - کتنی کھاد ڈالی جائے؟

زمینی ساخت و زرخیزی، وقتِ کاشت، قسم اور آب و ہوا کی مناسبت سے کھادیں ڈالی جائیں۔ چنا نچہ 25-23- 35 تا 50-25-25 کلو گرام نائٹروجن ، فاسفورس اور پوٹاش ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھاری میرا زمینوں میں کم جبکہ ہلکی میرا اور ریتلی زمینوں میں زیادہ مقدار میں ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

ب - کون سی کھادیں زیادہ بہتر ہیں؟

شکر قندی میں ایس او پی اور نائٹروفاس بہتر نتائج دیتی ہیں۔ بہتر پیداوار کی خاطر اس کو پوٹاش والی کھاد زیادہ مقدار میں ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

ج - کھاد کس وقت ڈالی جائے؟

ایک تہائی نائٹروجن ، تمام فاسفورس و پوٹاش بوقتِ کاشت ڈالی جائے۔ اور بقیہ نائٹروجن کاشت کرنے کے بعد 35 تا 50 دن کے اندر اندر قسط وار کرکے ڈالیں۔

گوبر کھاد کیسی ہے؟

گوبر کی کھاد باریک جڑوں کا اضافہ کرتی ہے۔ اس لئے یہ شکر قندی کے لئے نقصان دہ سابت ہوتی ہے۔

ر - فولئر فر ٹیلا تزر:

اگر شکر قندی کی بیلوں کا قد معمول کے مطابق بڑھ رہا ہو تو فولئر یا سپرے والی کھادیں سپرے نہ کی جائیں۔ تاہم کمزور زمینوں میں خوراکی کمی پوری کرنے کے لئے اضافی خورا کی اجزا کی سپرے کی جا سکتی ہیں۔

بیج کی تیاری:

شکر قندی کا بیج تنے کی قلموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ قلمیں تیار کرنے کے لئے نصف تا ایک انچ موٹی شکر قندی کی کاشت مارچ یا اپریل میں کی جاتی ہے۔قلمیں پوٹ کر تین ماہ کے اندر اندرکافی لمبی شاخیں بنالیتی ہیں۔

وقتِ کاشت:

ان شاخوں یا ٹہنیوں کو چھ چھ انچ کے ٹکڑے کرکے وسطی پنجاب میں یکم جون تا وسط جولائی کے درمیان منتقل کیا جاسکتا ؂ ہے۔ جون کے آخر میں کاشتہ فصل بہتر پیداوار دیتی ہے۔ لیٹ (اگست) کاشت کی صورت میں فصل کی پکائی سردی میں آ جاتی ہے اور پیداوار برُ ی طرح متاثر ہوسکتی ہے۔سفید اقسام سُرخ کے مقابلے میں دیر سے تیار ہوتی ہیں۔ اس لئے ان کی مخلوط کاشت سے اجتناب کیاجائے۔

طریقہ کاشت:

شکر قندی پٹٹریوں کے کناروں پر بیلیں کاٹ کر منتقل کرتے ہیں۔ کھیلیوں کو پانی لگانے کے بعد یکساں او نچائی پر منتقل کی جاتی ہے۔15-10 مرلے رقبہ پر کاشتہ شکر قندی کی بیلوں سے ایک ایکڑ کاشت کیا جاسکتاہے۔ زمینی زر ۔ خیزی کی مناسبت سے پودوں کا باہمی فاصلہ 1.5 تا2.5 فٹ اور لائنوں کا یا پٹٹریوں کا 3 فٹ بر قرار رکھ کر 10 تا 12 ہزار پودے ایک ایکڑ میں لگائے جائیں۔ کھیلیوں کو پانی لگانے کے بعد ٹہنیاں منتقل کریں تو یکساں اونچائی پر کاشت میں سہولت رہتی ہے۔ ٹہنیاں منتقل کرتے وقت ان کارخ سیدھا ہونا ضروری ہے۔ الٹے رخ کاشت کی صورت میں پیداوار برُ ی طرح متاثر ہوتی ہے۔

آبپاشی:

شکر قندی کو موسم کی مناسبت سے 6ت9 مرتبہ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جولائی سے ستمبر تک بکثرت آبپاشی کریں۔ نومبر دسمبر میں ہلکی آبپاشی کریں لیکن پٹٹریوں کے اوپرنہیں چڑ ھنا چا ہئے۔ شکرقندی کافی حدتک پانی کی کمی کو برداشت کرسکتی ہے۔ اس لئے موسمی حالات خصوصاً بارش اور فضائی نمی کی مناسبت سے انٹر نیتؤٹ کی رہنمائی سے پانی حسب ضرورت لگایا جائے۔

بیلیں پلٹنا:

اگر اس کی لمبی زمین میں جڑیں لگالیں تو بیلیں بہت بڑھ جاتی ہیں مگر شکر قندی بہت کم بنتی ہے۔ اس لئے اگست ستمبر کے دوران تین سے چار مرتبہ بیلیں پلٹنا ضروری امور میں سے ہے۔

برداشت:

جون جولائی میں کاشتہ فصل نو مبر یا دسمبر میں تیار ہوجاتی ہے۔ برداشت سے پہلے اس کی بیلیں کاٹ کر الگ کردی جائیں۔ میرا زمینوں میں برداشت کا عمل ٹریکڑ کی مدد سے بھی کیا جاسکتاہے۔ لیکن بھاری زمینوں میں وتر حالت میں کسی وغیرہ کی مدر سے اکھاڑی جاتی ہے۔ اگر زخمی کئے بغیر شکرقندی اکھاڑی جائے تو زیادہ قیمت ملتی ہے۔

پیداوار:

عمومی حالات میں اس کی پیداوار سوتا ڈیڑھ سو من فی ایکڑ ہوتی ہے۔ لیکن مناسب زمین، آب وہوا اور کاشتی لواز مات کی بدولت 250 من فی ایکڑ تک حاصل کی جاسکتی ہے۔

مارکیٹنگ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ:

اس کی ترسپلائی اگرچہ سال کابیشتر حصہ جاری رہتی ہے۔ جو شکر قندی سندھ اور سرحد سے آتی ہے اس کا ریٹ زیادہ ہوتاہے۔ لیکن پنجاب کی فصل نومبر سے لے کر جنوری فروری تک مارکیٹ میں آتی ہے اس کا ریٹ اکثر کم رہتاہے۔ تاہم پنجاب کی شکر قندی نومبر کے شروع میں مارکیٹ میں آتی ہے وہ بھی کافی مناسب ریٹ پر بکتی ہے۔

بیماری:

شکرقندی پر بیماری کاحملہ زیادہ نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی گرم مرطوب موسم میں تنے کی سڑن یا گالا اس کو شدید نقصان پہنچا سکتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے کاشتی امور کی بہتر ی کی جائے۔ جن میں قوتِ کاشت، آبپاشی، کھاد اور دیگر لوازمات استعمال زیادہ اہم ہیں۔ اگر مونسرین یا پر یو ینٹ جیسی پھپوندکش زہروں کے آبی محلول میں شاخیں ڈبوکر منتقل کریں تو بیماری کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

کیڑے:

شکرقندی پر کیڑوں کا حملہ زیادہ نہیں ہوتا۔ اس پر بھنگو کتے ( بال دار سنڈی) کا حملہ ہو سکتاہے۔ سنڈی سے بچاؤ کے لئے سا ئپر میتھرین یا ڈیلنا میتھرین 300 لی لٹر 100 لٹر پانی ملا کر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگست ستمبر کے گرم مرطو۔ ب موسم میںآرمی ورم یا لشکری سنڈی اس پر حملہ کرسکتی ہے۔ اس سے بچا ؤ کے لئے رنر یا میچ 200 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جاسکتی ہے۔

جڑی بوٹیاں:

اس کی جڑی بوٹیوں میں اٹ سٹ ، مدھانہ، سوانگی ، ڈیلا، چولائی، قلفہ اور لمب گھاس وغیرہ شامل ہیں۔ ان سے بچاؤ کے لئے زمینی ساخت کے فرق کی مناسبت سے ڈوآل گولڈ کا 6 تا 8 ملی لٹر فی پانی ملاکر ٹہنیاں منتقل کرنے کے ایک دن بعد صرف وتر مقامات پر سپرے کریں۔ اگر کوئی بھی زہر سپرے نہ کی گئی ہو اور صرف گھاس خاندان کی جڑی بو۔ ٹیاں اگ چکی ہوں تو ہیلوکسی فوپ4 ملی لٹر فی پانی ملاکر تین ہفتے بعد از کاشت سپرے کی جاسکتی ہے۔

پیداواری مسائل:

زمین اور آب و ہوا کے مسائل ، کیڑے ، جری بوٹیاں ،وقت اور طریقہ کاشت۔

پیداواری عوا مل کا حصہ:

اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں بیج اور کھادوں کا حصہ تقریباً 30 فیصد، کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کا 20 فیصد، فصل کی برداشت ومارکیٹنگ کا 20 فیصد بنتاہے

پیداواری اخراجات اور آمدن:

اس وقت یعنی پہلے عشرے کے آخری سالوں کے دوران ذاتی زمین کی صورت میں شکر قندی پیدا کرنے کافی ایکڑ خرچ 25 ہزار (وسطی پنجاب کے 5تا10 ایکڑ والے کاشتکار، نصف مقدار نہری پانی دستیاب، صرف ناگزیر اطلاقی اخراجات شامل کرنے کی صورت میں زمینی تیاری و کاشت 3000، بیلیں (یا بیج) 4000، کھادیں 7000، پانی 2000 ،متفرق 1000، کل 26000) روپے آتاہے۔ پور ی پیداواری ٹیکنالوجی پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اگر ذاتِ حق کی مہربانی سے موسمی حالات بھی سازگار رہیں تو 200 من شکر قندی پیدا ہوسکتی ہے۔ جس سے کم و پیش ستر ہزار روپے کمائے جاسکتے ہیں۔

نفع بخش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کی نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں علاقے کی مناسبت سے بروقت کاشت، پوٹاش والی کھادوں کا استعمال، زمینی ساخت کی مناسبت سے پودوں کی مناسب تعداد (10 تا 12 ہزار) جڑی بوٹیوں و کیڑوں سے بچانا، بیلوں کو نئی جڑیں نکالنے سے روکنے کے لئے الٹنا پلٹنا، اور اچھے طریقے سے درجہ بندی کرنے کے بعد مارکیٹنگ کرنا شامل ہیں۔


پاکستان میں دھنیا کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

خوراکی وادویاتی اہمیت:

دھنیا سرد وخشک تاثیر کی حامل مصالحہ دار سبزی ہے۔ سرد وخشک خصوصیات کی وجہ سے ممسکِ با ہ ہونے کے ساتھ ساتھ جریان و احتلام کا شافی علاج مہیاکرتاہے۔ ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے خون کی حدت کو کم کر تا ہے اور خارش جیسے امراض کا علاج مہیا کرتاہے۔ معدہ اور دماغ کیلئے مفید ہونے کے ساتھ ساتھ دانتوں کو مضبوط کرتاہے۔ اس کا کثیر استعمال قوت باہ میں ضعف پیداکرتا ہے اس لئے مناسب استعمال ہی مفید ثابت ہوتا ہے۔

فصلی ترتیب:

پنجاب کے مختلف علاقوں میں یہ فصل مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے:

  • گدو+ دھنیا (فروری مارچ) گوبھی + پالک (جولائی) گندم نومبر
  • کدو + دھنیا (فروری مارچ) پالک (جولائی) گندم نومبر
  • کپاس + دھنیا (اپریل مئی) گندم نومبر
  • دھنیا (ستمبر) گندم (دسمبر) کدویا کریلا مئی جون
  • دھنیا (فروری) چاول (جون) گندم نومبر
  • دھنیا (دسمبراکتوبر) بھنڈی (فروری مارچ) پیاز اگست
  • دھنیا سون سکیسر (جون) مولی (ستمبر) گندم آخر نومبر

زمین اور علاقے:

دھنیا میرا وبھاری میر ا زمین میں بہتر پیداوار دیتاہے۔ریتلی یا کلر اٹھی زمین اس کے لئے موزوں نہیں ہے۔ اگرچہ دھنیا پنجاب بھر میں اگایا جاسکتاہے۔ لیکن سون سکیسر، قصور، لاہور اور اوکاڑہ میں وسیع پیمانے پر اگایا جاتاہے۔ اس کے بیج کافی باریک ہوتے ہیں ان کے بہتر اگاؤ کی خاطر باریک زمینی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کی جڑوں کی گہرائی چونکہ درمیانی ہوتی ہے اسلئے زمین زیادہ گہرائی تک تیار کرنے کے ضرورت نہیں ہوتی۔

اقسام:

دھنیا کی زیادہ اقسام نہیں ہیں۔ تاہم دھنیا کی دیسی قسم دل پذیر اور پشاوری یا ایرانی کے نام زیادہ معروف ہیں۔

ایرانی دھنیا:

ایرانی دھنیا قدرے سیدھا اگتاہے۔ اور کٹائی آسان ہوتی ہے۔ دیسی دھنیا کے مقابلے میں یہ قسم گرمی برداشت کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔ نیز اس کی تین سے زیادہ کٹائیاں حاصل ہوسکتی ہیں۔ زیادہ اگیتی اور پچھیتی کاشت کے لئے بیشتر کاشتکار ایرانی دھنیا ہی کاشت کرتے ہیں۔

دیسی دھنیا:

اگیتی کاشت کی صورت میں دیسی دھنیاکی زیادہ کٹائیاں نہیں ہوتیں زمین پر بچھ جاتاہے اور اس کی کٹائی قدرے مشکل ہوتی ہے۔

آب وہوا:

معتدل سرد وخشک آب وہوا میں زیادہ پیداوار دیتاہے۔ گرم اور خشک موسم میں نہ صرف اگاؤ متاثرہوتاہے بلکہ اگاہوا دھنیا بہت کم پیداوار دیتاہے۔ شدید سردی میں اس کے پتو ں کی رنگت سرخی مائل سبز ہوجاتی ہے۔ بیج پکتے وقت درجہ حرارت اگر ااچانک بڑھ جائے تو جھلساؤ کی بیماری بیج کی کوالٹی اور پیداواربری طرح متاثر کرتی ہے۔

شرح بیج:

شرح بیج کا انحصار بیج کی نوعیت ، زمینی تیاری ، وقتِ کاشت، طریقہ کاشت، مقصد کاشت (کاشت برائے بیج یا سبز دھنیا) اور زمینی ساخت ، صحت و زرخیزی پر ہوتاہے۔ ایک سال پرانا بیج کاشت کیا جائے تو بہتر اگاؤ دیتاہے۔ پرا۔ نے بیج کا اگاؤ زیادہ سے زیادہ 80فیصد تک حاصل ہوسکتاہے۔ شرح بیج کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

الف - اگیتی کاشت:

گرم موسم میں اگیتی کاشت کی صورت میں زیادہ (کم از کم ایک من فی ایکڑ) بیج استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ستمبر اکتوبر میں چھٹہ کرکے کھیلیاں بنانے والے طریقے سے کاشت کی صورت میں ایک سال پرانا 30-25 کلوگرام فی ایکڑ بیج ڈالا جاتا ہے۔ لیکن کھیلیوں کے کناروں پر ساٹھ فیصد سے زیادہ اگاؤ والا 15تا16 کلو گرام بیج استعمال کیا جائے۔

ب - درمیانی کاشت:

اکتوبر نومبر میں ڈرل سے کاشت کی صورت میں 10-8 کلو گرام فی ایکڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اچھی پیدا۔ وار کے لئے دھنیا کے 40-35 ہزار پودے فی ایکڑ کاشت کرنے ضروری ہیں ۔ دھنیا کے پودوں کا باہمی فاصلہ 3 تا 4 انچ اور لائنون کا ڈیڑھ فٹ برقرار رکھا جائے۔ گویا اچھی پیداوار کے لئے سبز دھنیاکے لئے 70 تا 75 ہزار پودے فی ایکڑ کاشت کرنے ضروری ہیں۔

کھادیں:

دھنیا کو زمین، آب وہوا ،وقتِ کاشت اور طریقہ کاشت کی مناسبت سے 20-35 تا 25-50 کلو گرام فی ایکڑ نائٹر وجن اور فاسفورس ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس میں سے ایک تہائی نائٹروجن اور ساری فاسفورس بوقتِ کاشت ڈالی جائے۔ بقیہ نائٹروجن کاشت کے بعد 35 تا 50 دن کے اندر اندر قسط وار کرکے ڈالی جائے۔ نیز ہر کٹائی کے بعد گوڈی کرکے آبپاشی کے ساتھ اضافی نائٹروجن ڈالی جائے تو اگلی کٹائی جلدی تیار ہوتی ہے۔شدید سر دی کے دوران جب دھنیا کی رنگت ہلکی سبز یا سرخی مائل ہونے لگے تو کٹائی سے ہفتہ بھر پہلے یوریا کھاد ڈالی جائے بیج کے لئے کاشتہ فصل کو فاسفورس کے ساتھ پوٹاش والی کھادیں بھی ڈالی جائیں۔

آبپاشی:

سبز دھنیاکو زمینی ساخت ، وقتِ کاشت اور ذریعہ آبپاشی کی مناسبت سے پانچ سے سات مرتبہ آبپاشی کی ضرور ت ہوتی ہے۔ لیکن زیادہ اگیتی اور پچھیتی کاشت کو تین سے پانچ مرتبہ اضافی پانی لگانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کھیلیوں پر کاشتہ دھنیا کو پہلا پانی مکمل احتیاط سے لگا ئیں۔ دوسر ا اور تیسرا پانی بھر کر لگایا جائے تاکہ اگاؤ مکمل ہو سکے۔ اس کے بعد حسبِ ضرورت پانی لگایا جائے۔ دھنیا کی بہتر پیداوار کے لئے ٹیوب ویل کے بجائے نہری پانی کو ترجیح دی جائے۔

وقتِ کاشت:

وسطی پنجاب میں سبز دھنیا کے لئے ستمبر سے نومبر کے دوران کاشت کیا جاسکتا ہے۔ آج کل موسم پچھلے عشروں کے مقابلے میں زیادہ عرصہ تک گرم رہنے لگ گئے ہیں۔ اسی لئے اگست میں کاشت کے بجائے وسط ستمبر کے بعد کاشتہ دھنیا کا اگاؤ بہتر ہوتا ہے۔ لیکن دریا کے ساتھ ساتھ ہلکی میرا اور ٹھنڈی زمینوں میں پرالی وغیرہ ڈال کر بھی جولائی یا اگست میں بھی کامیابی کے ساتھ دھنیا اگایا جاسکتاہے۔

طریقہ کاشت:

پنجاب میں تیار شدہ زمین میں بیج کا چھٹہ دینے کے بعد رجر کی مدد سے کھیلیاں بنانے کے طریقے سے کاشت کیا جاتا ہے۔ کھیلیوں پر کاشتہ سبز دھنیا زیادہ پیداوار دیتاہے۔

الف - بیج کے لئے کاشت:

بیج پیدا کرنے کے لئے دھنیا دو طریقوں سے کاشت کیا جاسکتا ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہموار شدہ وتر زمین پر ڈرل کی مدد سے قطاروں میں کاشت کیا جائے۔ ایسی صورت میں پودوں کا 9 تا 12 انچ اور قطارو ں کا 2 فٹ بر قرار رکھا جائے۔

ب - چوکے سے کاشت:

چھوٹے پیمانے پر کاشت کی صورت میں سوا دو دو فٹ کی کھیلیوں کے کناروں پر مذکورہ بالا فاصلے پر (چوکے لگاکر) بھی کاشت کیا جاسکتاہے۔ ہلکی میر ا زمین میں کیاریوں میں چھٹہ کے طریقے سے بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔

ج - جدید طریقہ کاشت:

دھنیا کی کاشت کا جدید طریقہ یہ ہے کہ تین تین فٹ کے فاصلے پر پٹٹریاں بنانے کے بعد ان کے دونوں کناروں پر لکڑی یا انکلی کی مدد سے نصف انچ گہری ایک ایک لکیر لگاکر ان میں بیج کا کیر ا کیا جائے اور ان پر معمولی مقدار میں مٹی ڈال کر پانی لگادیاجائے۔ یا ایک ایک انچ کے فاصلے پر چوکے لگائے جائیں۔

مخلوط طریقہ کاشت:

ستمبر کے آخری ہفتہ میں یا اکتوبر کے دوران کاشتہ کماو میں دھنیا کی اضافی فصل کی دو تین کٹائیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جڑی بوٹیوں خصوصاً ڈیلا سے مبرا کماد کی پٹٹریوں کے کناروں پر دھنیا کی مخلوط کاشت سے کھاد، پانی، زمین اور دیگر وسائل کا بھر پور استعمال ممکن ہوجاتاہے۔ زیادہ آمدن کی خاطر کمادکے لئے زمینی تیاری اور کھادوں کے اخر۔ اجات کے ساتھ ہی دھنیا کی اضافی فصل اگائی جاسکتی ہے۔

زیادہ کٹائیاں حاصل کرنا:

سبز دھنیا کی دو سے چار کٹائیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔زیادہ کٹائیاں صر ف اسی صورت میں دستیاب ہوتی ہیں اگر معیاری (ایرانی یا پشاوری) کو زرخیز اور صحت مند زمین میں گوبر کی کھاد ڈال کر کاشت کیاگیاہو۔ ہر کٹائی کے بعد کھاد اور گوڈی کااہتما م کیا گیاہو۔ اگر ہر کٹائی کے بعد گوڈی نہ کی جائے تو زیادہ سے زیادہ دو کٹائیاں ملتی ہیں۔

دھنیا کا بیج بنانا:

زیادہ سے زیادہ کٹائیاں لینے کے بعددھنیا بیج کے لئے چھوڑاجائے تو ایسا بیج زیادہ کٹائیاں دیتاہے۔ اگر ایک کٹائی لینے کے بعد بیج پگا یا جائے تو ایسا بیج زیادہ کٹائیاں نہیں دیتا۔ اگر کٹائیاں لئے بغیر بیج بنایاجائے تو ایسا بیج نسارو ہوتا ہے۔ بہر کیف بیج کے لئے آخر اکتوبر تا وسط نومبر کاشتہ دھنیا زیادہ موزوں پایا گیا ہے۔ اگرچہ بیج پکانے کے لئے فروری میں بھی اگایا جا سکتاہے لیکن بیج کی بھر پور پیداوار لینے کے لئے اکتوبر کے آخر میں کاشتہ دھنیا زیادہ کامیاب پایا گیاہے۔ جنوری کے آخر تک چند ایک کٹائیاں حاصل کرنے کے بعد دھنیا کی فصل بیج پکانے کے لئے چھوڑی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ اکتوبر کاشتہ دھنیا کی تین چار کٹائیاں لینے کے بعد بیج پکایاجائے تو زیادہ معیاری بیج پیدا ہوتاہے۔ بیج والی فصل اپریل میں تیار ہوتی ہے۔

برداشت اور پیداوار:

ستمبر کاشتہ دھنیاکی پہلی کٹائی عموماً 50تا60 دنوں میں تیار ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد آب و ہوا کی مناسبت سے 15 سے 20 دنوں میں کٹائی تیار ہوجاتی ہے۔ ہر کٹائی کے بعد گوڈی کی جائے اور گوڈی خشک ہونے پر یوریا کھاد ڈال کر آبپاشی کی جائے تو ہر کٹائی جلدی تیار ہوتی ہے۔

پیداوار:

چار پانچ کٹائیوں سے سبز دھنیا کی کل پیداوار 250 تا 300 من اور بیج کی اوسطاً 300-250 کلوگرام فی ایکڑ حاصل ہوتی ہے۔بہتر حالات میں سبز دھنیا کی پیداواری گنجائش 400 تا 500 من اور بیج کی 500-400 کلو گرام فی ایکڑ تک ہے۔

مارکیٹنگ، تر سیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ

مارکیٹ میں مختلف علاقوں سے آنے والے سبز دھنیا کی سپلائی تقریباً سال بھر جاری رہتی ہے۔ پنجاب میں اسکی فصل اگر وسط ستمبر سے وسط نومبر کے درمیان میں مارکیٹ میں آئے تو زیادہ نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔ پنجاب کے سون سکیسر اور صوبہ پختون خواہ (نوشہرہ، بالاکوٹ) سے اس کی سپلائی جون سے ستمبر تک جاری رہتی ہے۔ جوبہت اونچے بھاؤ بکتی ہے۔ اس فصل سے ایک تا دو لاکھ روپیہ فی ایکڑ کمایا جا سکتاہے۔ بیج کا ریٹ جون میں کم سے کم ہوتا ہے۔ اگر جولائی میں کاشت مقصود ہوتو بیا بیج مارکیٹ میں آنے سے پہلے پہلے یعنی اپریل میں ہی ایک سال پرانے بیج کا بند و ۔ بست کر لینا چاہئے۔ دھنیا کابیج بھی سال بھر دستیاب رہتاہے۔ جس کا ریٹ مئی اور جون میں کم سے کم سطح پر ہوتا ہے

بیماریاں:

دھنیاکی فصل پر بیماریوں کا زیادہ حملہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگیتی یا گرمی میں کاشتہ دھنیا پر جڑ کے اکھیڑے کا حملہ ہوتاہے۔ اکھیڑے سے بچاؤ کے لئے بیج کو ٹاپسن ایم یا تھایو فینیٹ یا اس کے متبادل زہرلگا کر کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ بیج والی فصل کو سفوفی پھپھوندی اور چھلساؤ جیسی بیماریاں نقصان پہنچا تی ہیں۔ ان سے نچاؤ کے لئے کاشتی امور کی بہتری کی جائے۔ خصوصاً کھاد اور پانی کا متناسب استعمال کیاجائے۔ بیج والی فصل کو سفوفی پھپھوندی کے لئے سکور 50 ملی لٹر اور روئیں دار پھپوندی کے لئے ریڈ و مل گولڈ 250 گرام سو لٹر پانی میں ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

جڑی بوٹیاں اور انکا حل:

ستمبر یا اکتوبر کاشتہ دھنیا کو کرنڈ، اٹ سٹ، ڈیلا، قلفہ ، چولائی، مدھانہ، سوانکی، لمب گھاس اور ہزار دانی نقصان پہنچاتی ہیں۔ نومبر یا دسمبر کاشتہ دھنیا میں ہاتھو، بلی بوٹی، جنگلی ہالوں، چولائی، دمبی سٹی، قلفہ، کرنڈ وغیرہ نقصان پہنچاتی ہیں۔

الف - اگاؤ سے پہلے سپرے:

دھنیا اورگاجر پر جڑی بوٹی مارزہر پینڈی میتھالین بہت محفوظ پائی گئی ہے۔ یہ زہر 1200 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے کھیلیوں کے کناروں پر کاشت کرنے کے ایک دن بعد سپرے کی جائے۔

ب - اگاؤ کے بعد سپرے:

اگر کاشت کے وقت کوئی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو اور دھنیا میں گھاس خاندان کی جڑی بوٹیاں اگ آئیں تو فینوکسا۔ پراپ 500 ملی لٹر یا ہیلو کسی فوپ 350 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے وتر حالت میں سپرے کردی جائے۔ یہ زہریں دھنیا سمیت تمام رقبے پر سپرے کی جاسکتی ہیں۔ یہ زہریں ڈیلااور چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں نہیں مارتی۔

پیداواری مسائل:

دھنیا کے پیداوار ی مسائل میں نامناسب طریقہ کاشت، جڑی بوٹیوں کی فراوانی، بیماری(بیج والی فصل پر لشک یا جھلساؤ)، مارکیٹ ڈیمانڈ وغیرہ شامل ہیں۔

پیداواری عوامل کا حصہ:

اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں کا حصہ تقریباً 30 فیصد ، زمینی ہمواری و تیاری وکاشت وآبپاشی کا 20 فیصد ، فصل کی برداشت ومار کیٹنگ کا 30 فیصد بنتاہے۔ ان خراجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں ہے۔

پیداواری اخراجات اور آمدن:

اس وقت یعنی 2010 ء کے دوران ذاتی زمین کی صورت میں دھنیا پید ا کرنے کافی ایکڑ خرچ 29 ہزار ( وسطی پنجاب کے 1تا10ایکڑ والے کاشتکار جو بعض ضروری امور خود بھی انجام دیتے ہوں ان کے زمینی تیاری و کاشت کے خراجات 5000 بیج کے 2000، کھادیں 7000، پانی 3000، گوڈی وغیرہ 3000، برداشت (3کٹائیاں 5000، ٹرانسپورٹ 3000، متفرق 1000 ، کل 29000) روپے بنتے ہیں۔ بہتر پیداواری ٹیکنالوجی پر عمل پیر ا ہونے کے ساتھ ساتھ اگر ذاتِ حق کی مہربانی سے موسمی حالات بھی سازگار رہیں تو ایک ایکڑ سے 450 من فی ایکڑ سے زیادہ سبز دھنیا پیدا ہوسکتاہے۔ آخری کٹائی سے 6تا8 من بیج بھی پیدا ہو۔ سکتاہے۔ جس کی تین کٹائیوں اور بیج کی فروخت سے کم و بیش ڈیڑھ لاکھ روپے کمائے جاسکتے ہیں۔ بہتر مارکیٹنگ اور مناسب حکمتِ عملی کی بدولت مذکورہ اخراجات میں کمی کر کے اس سے زیادہ بچت کی جاسکتی ہے۔

نفع بخش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کی نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں گھنا بیج ڈال کرا گیتا کاشت کرنا،جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے پینڈی میتھالین زہر کی مدد لینا، زیادہ ( چار پانچ) کٹائیاں حاصل کرنے کے لئے گوبر کی کھاد استعمال کرنا ، ہر کٹائی کے بعد فصل کو گوڈی کر کے کھاد ڈال کر آبپاشی کرنا، اور بھر پور پیداوار حاصل کرکے مارکیٹنگ کرنا شامل ہیں۔


پاکستان میں مٹر کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

اہمیت:

طبی لحاظ سے مٹر کی تاثیر سردو خشک ہوتی ہے۔ یہ فاسفورس ، وٹامن بی۔ 1 یا تھایا مین نا یا سین اور لحمیا ت کا مآخذ ہے۔ اس میں گندم بھی ہوتی ہے۔ اس لئے جرثیم کش خواص کا حامل ہے، خارش اور زخموں کو ٹھیک کرتا ہے۔قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔ امراض جگر اور پھیپھٹروں کے امراض میں بھی مفید ہے۔ اگر چہ قبض کشاخصوصیات کا حامل ہے لیکن دیر سے ہضم ہوتا ہے۔مٹر چونکہ آئرن اور فاسفورس وافر مقدار میں ہوتاہے اس لئے اس کا مناسب استعمال دودھ اور خون کی پیدائش کا باعث بنتا ہے۔مٹر کھا کر پانی نہ پیا جائے ۔ مٹر کو منجمد (Freez) یا خشک کر کے بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ پھلی دار فصلوں کے گروہ میں ہونے کی وجہ سے اس کی جڑوں میں نائٹروجن پکڑ نے والے جراثیم موجود ہوتے ہیں۔گویا مٹر کی فصل زمینی زرخیزی میں اضا فہ کرتی ہے۔اس فصل کے بعد کاشت کی جانے والی فصل بہتر ہوتی ہے۔

فصلی تر تیب:

زرعی وسائل کی مناسبت سے یہ فصل مندرجہ ذیل فصلی تر تیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے۔

  • چاول (جون) مٹر (کتوبر) بینگن یا ٹماٹر فروری
  • مٹر (اکتوبر نومبر) بہاریہ مکئی (آخر جنوری) چاول جون
  • مٹر ( آخر دسمبر) کدوکریلا یا گھیاتوری (اپریل) مٹر اکتوبر
  • مٹر (اکتوبر) گندم (دسمبر) کپاس (مئی) ۔گندم نومبر
  • مٹر (اکتو بر) گندم (دسمبر) کپاس (مئی) ۔مٹر اکتوبر
  • چاول مو ٹی اقسام (مئی) مٹر (ستمبر) گندم نومبر

زمین اور علاقے:

یوں تو پنجاب کے تمام آبپاش علاقوں میں مٹر اگائے جا سکتے ہیں لیکن چنیوٹ، شیخو پورہ، گو جرانوالہ، ساہیوال، ٹوبہ ملتان اور فیصل آباد میں زیادہ کامیابی کے ساتھ اگائے جا رہے ہیں۔بیج کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ساہیوال کے اضلاع زیا دہ مو زوں ہیں۔ساہیوال میں سب سے زیادہ رقبے پر کاشت کیے جا تے ہیں۔باریک اور ہموار زمین میں بہتر اگتے ہیں۔ لیزر سے ہموار کردہ زمین میں کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس کی جڑوں کی گہرائی زیادہ نہیں ہوتی اس لئے زمین زیادہ گہرائی تک تیار نہ کی جائے۔

آب وہوا:

مٹر کی فصل معتدل سردآب وہوا میں بہتر نشوونما پاتی ہے۔مجوعی طور پر اس کے اگاؤ کے کئے معتدل ، شاخوں کی بڑ ھوتری اور پھلیاں لگنے کے لئے سرد خشک اور بیج پکانے کے لئے معتد ل گرم خشک موسم درکار ہوتا ہے۔اگاؤ کیلئے اوسطاً 20 تا18 درجہ سینٹی گریڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ فصل کافی حد تک سردی اورگہر برداشت کر سکتی ہے۔ لیکن پھو ل آوری کے دوران ہفتہ بھر یا زیادہ دنوں تک مسلسل شدید گہر اس کے پھو لوں اور چھوٹی پھلیوں پر منفی اثر کر تا ہے۔جس کے نتیجے میں پیداوار کم ہو جاتی ہے۔مسلسل دھند بھی مٹر کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کا عمومی اگاؤ 80 تا95 فیصد ہوتاہے۔ بیج کی روئیدگی اگر چہ تین سال تک برقرار ہتی ہے۔لیکن دو سال سے زیادہ پرانا بیج نہ لگا یا جائے تو بہتر ہے۔ اگاؤ کے لئے اسے درمیانی نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خود زیرگی والی (Self pollinated) فصل ہے۔

اقسام: مٹر کی کاشت میں بہتر اقسام کا انتخاب اولین اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

الف - دیسی اقسام:

ارلی مٹیور، کلا ئمیکس ، گرین فیسٹ، P-48 اگیتی ، سمرینا زرد، گرین ایرو، P-400 اور مٹر 2009 اہم اقسام کے

خواص مندر جہ ذیل ہیں:

مٹر 2009 : یہ قسم ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے میں 2009 میں پاس ہوئی تھی۔ وسطی اور شمالی پنجاب میں اگیتی اور درمیانی کاشت کے لئے یکساں موزوں ہے۔ اس کی تلوار نما پھلیوں کی لمبائی زیادہ ہر پھلی میں موٹے دانوں کی تعداد 9 تا11 اورچھلکا باریک ہوتا ہے۔ دانوں کا سائز درمیانہ ، پیداوار دیگر تمام اقسام کے مقابلے میں زیادہ (پھلیاں 90 تا 100 من بیج 30 تا 35 من فی ایکڑ) تک ہے۔

میٹیور:

یہ قسم ایوب زرعی تحقیقا تی ادارے میں 2008 میں پاس ہوئی تھی۔ وسطی اور شمالی پنجاب میں اگیتی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ اس کی پھلیوں کی لمبائی درمیانی اور چھلکا باریک ہوتا ہے۔ دانوں کا سائز درمیانہ، پیداوار درمیانی (60 تا70 من بیج 20 تا 25 من فی ایکڑ) تک ہے۔ستمبر کاشت کی صورت میں گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔

کلائمیکس امپرووڈ:

یہ نیوزی لینڈ کی قسم ہے۔ یہ قسم پنجاب میں درمیانے اور لیٹ موسم (اکتوبر) میں کاشت کے لئے زیادہ موزوں ہے اس کی پھلیاں لمبی، تلوار نما اور باریک چھلکے والی ہوتی ہیں۔ گہری سبز و پر کشش، پیداواری صلاحیت کا فی زیادہ 150) تا 200 من فی ایکڑ تک) ہے۔ باریک چھلکے کی وجہ سے اسے دور دراز نہیں بھیجا جاسکتا بلکہ یہ قسم صر ف مقامی منڈیوں کے لئے بہتر رہتی ہے۔ PF-400 یہ قسم کلائمیکس سے بھی لیٹ کاشت کے لئے موزوں ہے۔ اس کی پھلیاں لمبی،ہر پھلی میں 7 تا 8 کافی موٹے دانے ہوتے ہیں۔پھلیوں کی رنگت گہری سبز واپر کشش، پیداوار زیادہ 160 تا 200 من فی ایکڑ تک ہے۔ چھلکا موٹا ہونے کی وجہ سے یہ قسم جلدی خراب نہیں ہوتی۔

سمرینازرد:

یہ قسم زرعی تحقیقاتی ادارے میں 1990 میں پاس ہوئی تھی۔ درمیانی اور اگیتی کاشت کے لئے موزوں ہے۔اس کی پھلیاں لمبی اور ہلکے سبز رنگ کی ہوتی ہیں۔ اس کی پیداوار بھی کافی زیادہ 100) تا 150 من فی ایکڑ تک )ہے لیکن ہلکی رنگت کی وجہ سے اس کو مارکیٹ میں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔

ب - نئی اقسام:

دوغلی اقسام کی پیداواری صلاحیت دیسی اقسام کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔ وسیع پیمانے پر مٹر اگانے والے ترقی پسند کا شتکار صر ف دوغلی اقسام ہی کاشت کرتے ہیں۔ ہر سال نئی نئی دوغلی اقسام ہماری مارکیٹ میںآتی رہتی ہیں۔ حالیہ دوغلی اقسام میں کلاسک ، لیناپاک اگیتی زیادہ اہمیت کا حامل ہیں۔ کلاسک پچھیتی کاشت کے لئے بہترین قسم ہے۔ لیناپاک اگیتی کاشت کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ لینا کی پھلیاں اور دانے قدرے زیادہ موٹے ہوتے ہیں۔ یہ قسم گہری سبز اور پرکشش ہوتی ہے۔ اس کی پیداوار زیادہ 175) تا 225 من فی ایکڑ تک) ہوتی ہے۔

وقتِ کاشت:

وسطی پنجاب (فیصل آباد، سر گودھا، جھنگ) میں اکتو بر کے پہلے دو ہفتوں کے دوران کاشتہ اگیتے مٹر زیادہ منافع بخش ثابت ہوتے ہیں۔پنجاب کے موسم پہلے والے نہیں رہے۔ گرمی کا عرصہ اکتوبر کے آخر تک طویل ہوجانے کی وجہ سے مٹر کی زیادہ سے زیادہاگیتی کاشت شمال مشرقی پنجاب (سیالکوٹ، گو جرانوالہ اورشیخو پورہ) میں وسط ستمبر میں ایک دوبارشیں ہوجا ئیں اور موسم قدرے ٹھنڈا 25) تا 30 درجے سینٹی گریڈ کے درمیان) ہو جائے تو وسطی پنجاب میں بھی ستمبر کے آخری ہفتے کے دوران مٹر کاشت کئے جاسکتے ہیں ۔پچھیتی اقسام نومبر کے پہلے دو ہفتوں کے دوران کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ پنجاب کے موسم سابقہ سالوں کے مقابلے میں زیادہ گرم ہو گئے ہیں۔ اس لئے مٹر کاشت کرنے کے سلسلے میں مہینے کی تاریخوں کے بجائے موسم کی تبدیلی پر نظر رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ الف۔ مٹر کی زیادہ اگیتی کاشت : اگیتے مٹر زیادہ نفع بخش ثابت ہوتے ہیں لیکن ان کی کامیابی کا تناسب کم ہوتا ہے۔ موٹی مو نجی (Coarse rice) کے بعد مٹر کی اگیتی کاشت کی جاسکتی ہے۔ نہروں کے ساتھ ساتھ واقع ٹھنڈی میرا زمینوں میں بھی اگیتی کاشت کی جاسکتی ہے۔ وسطی پنجاب کے مقابلے میں سیالکوٹ، ڈسکہ، گوجر رانوالہ اور منڈی بھاؤالدین کے علاقے اگیتی کاشت کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔ وسطی پنجاب میںیا شہروں کے ساتھ ساتھ بہتر نامیاتی مادے والی زمین میں بھی اگیتی کاشت کی جاسکتی ہے۔اگیتے مٹر کو مسلسل مگر ہلکی آبپاشی کر تے ہیں تو زمین ٹھنڈی ہونے کی وجہ سے اکھیڑ ے کی بیماری کم آتی ہے۔

ب - بیج والی فصل:

بیج کے لئے مٹر کو نومبر کے پہلے دو ہفتوں کے دوران کاشت کیا جائے۔ واضح رہے کہ 30 سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت پر مٹر کاشت کئے جائیں تو اکھیڑے کی بیماری سے اگیتے مٹر کی فصل جلدی خراب ہو جاتی ہے۔ 20 اور 25 سینٹی گریڈ کے درمیان مٹر کا اگاؤ بہتر ین ہوتاہے۔ اگیتی فصل کے لئے ہالینڈ سے درامد ہ(ارلی میٹیور یا میٹیور فیصل ۔ آباد 2008) جبکہ لیٹ کاشت کے لئے نیوزی لینڈ کا بیج (کلا ئمیکس) یا PF-400 استعمال کی جا ئیں۔

کھادوں کا استعمال:

اس فصل کے لئے روڑ ی کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔ وسط اکتوبر کاشتہ فصل کے لئے زمینی صحت اور زرخیزی کی مناسبت سے نا ئٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش بالتر تیب 25-35-35 تا 50-50-50 کلو گرام کی ایکڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ زرخیز نا ئٹروفاس،ڈی اے پی، سپر فاسفیٹ، یوریا یا ان کے متبادل کھادوں میں سے یہ مقدار حاصل کی جاسکتی ہے۔

الف - ۔کھاد کب ڈالی جائے؟

اس میں سے ایک تہائی نا ئٹروجن، نصف فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقتِ کاشت ڈالی جائے ۔ بقیہ کھاد کاشت کر نے کے 30تا55 دن کے اندر اندر قسط دار کر کے آبپاشی کے ساتھ ڈالیں۔ مٹر کی خوراک لینے والی بیشتر جڑ یں سطح زمین کے پہلے ایک دو انچ میں ہوتی ہیں۔ اس لئے 35 تا 45 دن کی فصل کی کھالیوں میں کھاد ڈالی جائے یا کھاد ڈال کر مٹی چڑ ھادی جائے تو بھر پر پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔

ب - کونسی کھاد زیادہ مفید ہے؟

مٹر کے لئے فاسفورس اور سلفر کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ڈی اے پی کی بجائے خاص طورپر قدرے کلر اٹھی زمینوں میں سپر فاسفیٹ کھاد زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔ صحت مند زمینوں میں مٹر کے لئے زرخیز اور ڈی اے پی بھی ایک بہترین کھادیں ثابت ہوتی ہے۔ بیج والی فصل کو فاسفورس اور پوٹاش والی کھادیں زیادہ مقدار میں ڈالی جائیں تو بیج کی زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

ج - معاون مرکبا ت کا استعمال:

فصلوں کی جڑوں کو تحریک دینے والے مرکبات (سی ویڈ) مثلاً ووکوزم اور میگزیموسپر 300 ملی لٹر فی ایکٹر کے حساب سے یا ان کے متبادل مرکبات پھول آوری سے پہلے پہلے دو تا تین مرتبہ سپرے کیے جائیں تو جڑوں کی بہتر افزائش کی بدولت مٹرکی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔

د - چھوٹے خوراکی اجزا اور کھادوں کی سپرے:

پھو ل آوری سے لے کر پھلیاں بننے کے دوران یعنی پہلی چنائی سے پہلے پہلے کسی بھی مر حلے پر اگر فصل کی رنگت ہلکی سبز تو کسی بااعتماد مآ خذ کی NPK کم از کم دو مرتبہ سپرے کی جائے۔ زمین میں پوٹاش ڈالنے کی بجائے پوٹاش کی سپرے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر 45:15:5 یا 44:3:14 گریڈ کی فو لئر فر ٹیلا ئزر فصل کاشت کرنے کے بعد 30 تا 60 دن کے اندر اندر قسط وار کرکے سپرے کی جائے تو فصل کی رنگت سر سبز رہتی ہے۔ اور بھر پور پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ان کھادوں کی سپرے باہمی مطابقت کے پیش نظر کیڑے مار اور پھپھوند کش زہروں کے ساتھ ملاکر کی جاسکتی ہے۔

ر - نیم گرفتہ کھادوں کا استعمال:

تد ریجاً دستیاب ہونے والی نیم گرفتہ (Chillated) کھادیں آبپاشی کے ساتھ استعمال کرنے سے بہتر ین حاصل ہوتے ہیں۔ایسی کھادیں استعمال کرکے مہنگی کھادوں کے اخراجات میں کافی حدتک کمی کی جاسکتی ہے۔

شرح بیج:

اگیتی کاشت کے لئے پچانوے فیصد سے زیادہ اگاؤ والا مقامی ارلی میٹیور کا 40-35 کلو گرام فی ایکڑ استعمال کیا جائے۔ اگر بیج کا اگاؤ کم ہو یا کاشت کے وقت موسم قدرے گرم ہو تو اگیتی کاشت کی صورت میں بیج پچاس کلو گرام فی ایکڑ سے کم نہ رکھا جائے۔ درمیانی (وسط اکتوبر) کاشت کی صورت میں 20 تا25 کلو گرام اور لیٹ (نومبر) کاشت کے لئے بیس کلو گرام بیج فی ایکڑ استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ مخصوص رقبہ کے لیے پوراپورا بیج خیریدنے کے لئے آپ کو یہ معلومات مدد گار ثابت ہوسکتی ہے کہ اس کی مختلف اقسام کے ایک ہزار بیجوں کا وزن عموماً 195تا210گرام ہوتا ہے۔

طریقہ کاشت:

مٹر چوکے، چھٹے یا کیرے کے طریقے سے کاشت کیا جا سکتاہے۔ لیکن بہتر پیداوار کے لئے زیادہ تر کاشت پٹٹر یوں کے دونو ں کناروں پر کی جاتی ہے۔

الف - کاشت بذریعہ چوکا:

کم رقبے پر کاشت کی صورت میں اگیتا مٹر (ارلی میٹیور) اڑائی فٹ چوڑی پٹٹر یوں کے دونوں کناروں پر دو دو انچ کے فاصلہ پر چوکے سے کاشت کیا جائے ۔ درمیانے اور لیٹ کا شتہ مٹر کو چار فٹ کی پٹٹریوں پر تین تین انچ کے فاصلہ پر چوکے لگاکر بویا جائے۔

کاشت بذریعہ چھٹہ:

درمیانی کاشت کے لئے چھٹے کی بجائے پٹٹریوں کے کناروں پر چوکے کا طریقہ اختیار کر نے کی سفارش کی جاتی ہے۔ارلی میٹیور وسیع پیمانے پر کاشت کی صورت میں تیار زمین میں بیج کا چھٹہ کر کے رجر کی مدد سے پٹٹر یاں بنادی جائیں اور احیتاط کے ساتھ پہلا پانی لگادیا جائے ۔ اس طریقے سے کاشتہ مٹر جہاں زیادہ گھنا اگ آئے وہاں سے چھدرائی کرنی بھی ضروری ہوتی ہے۔

ج - کاشت بذریعہ کیرا:

نومبر اور دسمبر میں مٹر کی کاشت کیرے سے بھی کی جاسکتی ہے۔ کیرا کی صورت میں قطاروں کا فاصلہ 2 فٹ زیادہ مو زوں پایا گیاہے۔

آبپاشی:

وقتِ کاشت اور موسمی حالات کی مناسبت سے اکتوبر میں کا شتہ مٹر کو پانچ سے آٹھ مرتبہ آبپاشی کی ضرورت ہوسکتی ہے

الف - ابپاشی کی مقدار:

اگاؤ کے لئے اسے درمیانی نمی کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے بجائی کے بعد اور اگاؤ سے پہلے پہلے بھر پور آبپاشی سے گریز کیا جائے۔ مٹر کے بہتر اگاؤ کے لئے پہلی دو آبپاشیاں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ کوئی بھی پانی پٹٹر یوں کے اوپر نہیں چڑ ھنا چاہئے ۔ نومبر میں کاشتہ مٹر کی مجموعی طور پر کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔پھول آوری کے دوران بھر پور آبپاشی فصل کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ہر آبپاشی سے پہلے اس کی بیلوں کا جھکا ؤ پٹٹر ی کی جانب کر دینا چایئے۔ ہر آبپاشی کے ساتھ کیمیائی کھادیں ڈالی جائیں تو ان کی افادیت میں اضافہ ہوجاتاہے۔

ب - کورے سے بچاؤ:

سردیوں میں اگائی جانے والی دیگر سبزیات کی طرح مٹر کے لئے بھی زیادہ پانی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ لیکن دسمبر جنوری کے دوران بھی کھیت کو وتر حالت میں رکھا جائے تو کورے سے نقصان کم ہوتا

مار کیٹنگ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑ ھاؤ

اگر چہ پنجاب کی مارکیٹ میں صوبہ پختونخو اہ اور سون سکیٹر سے اگیتے مٹر کی تر سیل اگست ستمبر میں ہی شروع ہو جا تی ہے اور اس مٹر کی قیمت اگست سے لے کر نومبر تک زیادہ ہتی ہے۔لیکن وسطی پنجاب میں کاشتہ اگیتے مٹر کی سپلا ئی سمبر ٍ ٍزمیں شروع ہوتی ہے۔ ستمبر کاشتہ اگیتے مٹر کی پیداوار وسط دسمبر سے وسط جنوری کے دوران مارکیٹ میں لایا جائے توکافی نفع کمایا جا سکتاہے۔ فروری مارچ کے دوران مقامی مٹرکی قیمت اکثر کم سے کم سطح پر آجاتی ہے۔تا ہم مٹر کی بھرپور پیداوار لینے والے کاشتکار فرور ی مارچ میں بھی نفع کماسکتے ہیں۔ اگر دسمبر جنوری کے دوران دو ہفتے سے زیادہ دنوں تک مسلسل دھند کا سلسلہ قائم رہے تو فروری میں بھی مٹر کی زیادہ قیمت برقرار ہتی ہے۔

پرندوں سے حفاظت:

جب مٹر پھلیوں پر آتے ہیں تو طو طت، چڑیاں، کوے اور دیگر پرندے شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ درختوں سے دور مٹر کاشت کئے جائیں تو نقصان کم ہوتا ہے۔ ان سے بچاؤ کے لئے صبح اور شام کے اوقات میں چو کیداری کی جائے یا لکڑ ی پر آدمی کے کپڑے ڈال کر پرندوں کو جھانسہ دیا جائے۔ یا ہو ا سے ہلنے والے چمکدار پلاسٹک کے فیتے کھیت کے آرپار لگائے جاسکتے ہیں۔

مٹر کی بیماریاں:

اکتوبر کاشتہ فصل صفوفی پھپھوندی، روئیں دار پھپھوندی اور مرجاؤ جیسی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ پھپھوند کش زہروں کی سپرے کے بغیر مٹر کی اگیتی فصل کا حصول ناممکن ہو چکاہے۔ پھپھوند کش زہروں کا استعمال مندرجہ ذیل طریقے سے کیا جاسکتاہے۔

الف - مرجھاؤ:

مٹر کی اگیتی فصل پر مر جھاؤ کی بیماری کاشدید حملہ ہوتا ہے۔ مرجھاؤ سے بچاؤ کے لئے زیادہ اگیتی کاشت سے اجتناب کریں۔ کاشتی امور کی بہترکی جائے۔ خاص طور پر دوہری رونی کرنے کے بعد زمین کو اچھی طرح ٹھنڈی کرکے مٹر کاشت کیے جائیں۔ بیج کو ٹاپسن ایم یا متبادل زہر لگا کر کاشت کریں۔ اگاؤ کے بعد ٹاپسن ایم کی ڈریچنگ کی جائے

ب - صفوفی پھپھوندی:

صفوفی پھپھوندی کاحملہ مٹر کی بیج والی فصل پر زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے بجاؤ کے لئے ضروری ہے کہ بیماری کی ابتدائی ملاقات ظاہر ہونے پر ٹوپاس یا سکور ایک ایک ہفتے کے وقفہ سے دو تاتین مرتبہ سپرے کریں۔

ج - روئیں دار پھپھوندی:

روئیں دار پھپھوندی کاحملہ سر دیوں کی بارشوں یازیادہ نمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس سے بچاؤ کے لئے کاشتی امور کی بہتر ی کے ساتھ ساتھ سکسس یا کرزیٹ یا ریڈ ومل گولڈ یا ان کے متبادل زہریں دو تین مرتبہ سپرے کریں۔

کیٹرے مکوڑے:

مٹر کو سفید مکھی ست تیلہ، چست تیلہ، پاڈ بورریا امریکن سنڈی ، سرنگی مکھی یا لیف مائز تھرپس اور بعض اوقات میلی بگ نقصان پہنچاسکتے ہیں۔پہلے ایک ماہ تک سفید مکھی، چست تیلہ، میلی بگ اور تھر پس سے بچنے کے لئے ایکٹارایا کونفیڈار یا میڈا 5 تا10 گرام فی کلو بیج کو لگا کر کاشت کریں۔ آلود نہ کیا جاسکا ہوتو ایکٹارایا کونفیڈار یا ان کے متبادل زہر سپرے کی جائے۔سفید مکھی کے خلاف موسپیلان یا ایسٹیامپرڈ سو ملی لٹر فی لٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔ پاڈ بورر کے لئے ٹریسر 40تا60 ملی لٹر اور لیف مائنر یا سر نگی مکھی اور تیلہ کی صورت میں کو نفیڈار 200 یا ٹریسر40 یا ہائی فیٹتھرین 60 ملی لٹر ایک سولٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

پرندوں سے حفاظت:

چڑیاں، طوطے اور کوے وغیرہ مٹر کی پھلیوں کا کافی نقصان کر سکتے ہیں۔ پرندوں سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ مٹر ایسی جگہ کاشت کئے جائیں جہاں درخت وغیرہ کم ہوں۔نیز تھوڑے اور الگ تھلگ رقبے پر مٹر کاشت نہ کئے جائیں۔ پرندے زیادہ تر نقصان صبح یاشام کے وقت کر تے ہیں۔اس لئے ان اوقات کے دوران چوکیدار کا بندو۔ بست کیا جائے۔چمکدار پلاسٹک کے فیتے کھیت کے آرپار لگائے جائیں یا مصنوعی آدمی کی شکل بنا کر کھیت میں گاڑدی جائے تو بھی پرندوں کی وجہ سے نقصان کم سے کم ہوتاہے۔

جڑی بوٹیاں:

مٹر کی جڑی بوٹیوں میں اٹ سٹ، ڈیلا، سوانکی، کرنڈ، جنگلی بالوں، چولائی، قلفہ اور ہاتھووغیرہ شامل ہیں۔ زہریں استعمال کرنے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

الف - اگاؤ سے قبل سپرے:

اگیتے مٹر کاشت کرنے کے 2-1 دن بعد تروتر زمین پر 33 فیصد طاقت والی پینڈی میتھالین 10تا12 ملی لٹر فی لٹر پانی ملاکر تمام رقبے پر یکساں سپرے کریں۔ اگر مٹر میں ڈیلا اگنے کا امکان ہوتو ٹو آل گولڈ ہلکی میر زمین میں6 ملی لٹر جبکہ بھاری میرا میں 7 ملی لٹر فی لٹر پانی ملا کر تمام رقبے پر یکساں سپرے کریں۔

ب - اگاؤ کے بعد سپرے:

اگر بوائی کے وقت کوئی بھی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو تو ایک لٹر بیسا گران 100 لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے۔ یہ زہر مٹر میں اگی ہوئی بیشترجڑی بوٹیاں تلف کرتی ہے لیکن مٹر پر کافی حد تک محفوظ ثابت ہوتی ہے۔ اگر مٹر کی فصل کافی لیٹ کاشتہ ہونے کی وجہ سے اس میں دمبی سٹی یا جنگلی جئی کا مسئلہ ہو تو فینو کساپراپ خصو صاً پوما سپر500ملی لٹر100 لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے۔

ج - زہروں کا تقابلی جائزہ:

اگیتی اور درمیانی کاشت کی صورت میں پینڈی میتھالین زہردوآل گالڈ کے مقابلے میں مٹر پر زیادہ محفوظ پائی گئی ہے لیکن کمزور اور کلر اٹھی زمینوں میں اگاؤ سے قبل استعمال ہونے والی کوئی بھی زہر استعمال نہ کی جائے۔ مٹر سے دمبی سٹی تلف کرنے کے لئے کلو ڈینا فوپ یا ٹاپک اور ہیلو کسی فوپ یا پر سیپٹ کا ا ستعمال پوما سپرکے مقابلے میں نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

پیداواری مسائل:

مٹر کے اہم پیداواری مسائل میں جڑی بوٹیاں، کیڑے، بیماری، پرندے، کھادوں کا غیر متناسب استعمال، مقامی طور پر تیار کر دہ اچھی اقسام کے بیج کی کمی اور چنائی وغیرہ شامل ہیں۔

پیداواری عوامل کا حصہ:

مٹر کی کامیابی میں سب سے زیادہ اہم کردار کھادوں، کاشتی امور اور فصلی تحفظ کا ہے۔ چنانچہ آبپاشی وکھادوں کا حصہ تقریناً 25 فیصد زمینی ہمواری و تیاری و کاشت واچھی اقسام کے بیج وآبپاشی کا 25فیصد ، کیٹروں ، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کا 20 فیصد ، کی برداشت ومار کیٹنگ کا 30 فیصد بنتا ہے۔ ان اخراجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں ہے۔

پیداواری خراجات اور آمدن:

اس وقت یعنی پہلے عشرے کے آخری سالوں کے دوران ذاتی زمین کی صورت میں مٹر پیداکرنے کافی ایکڑ خرچ 35 ہزار زمینی تیاری و کاشت 2000، بیج 15000 ،کھادیں 6000 ،پانی 1500، جڑی بوٹیوں کی تلفی 2500 کیڑے 1000، بیماری 10002 برداشت(دو چنائیاں) 3000، ٹرانسپورٹ 2000، متفرق 1000، کل 35000) روپے آتا ہے۔پوری پیداوار ی ٹیکنالوجی پر عمل پیراہونے کے ساتھ ساتھ اگر اللہ تعالی کی رحمت شامل حا ل ہو اور موسمی اور مارکیٹ کے حالات بھی سازگار رہیں تو اگیتے مٹر کی 100 من پھلیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔جن سے ایک لاکھ روپے کمائے جاسکتے ہیں۔ پچھیتے مٹر 200 من فی ایکڑ تک پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر مارکیٹ کا ریٹ معتدل بھی رہے تو ان سے بھی ایک لاکھ روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ بیج کے لئے کاشت کی صورت میں ایک ایکڑ سے مٹر کا 20 تا30 من بیج پیدا ہوسکتاہے۔ جس سے ساٹھ ستر تا اسی ہزار روپے کمائے جاسکتے ہیں۔ بہتر مارکیٹنگ اور مناسب حکمتِ عملی کی بدولت مذکورہ اخراجات میں کمی کر کے اس سے زیادہ بچت کی جاسکتی ہے۔

نفع بخش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کی نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں ٹھنڈی اور صحت مند زمین میں مناسب وقت (وسط اکتوبر کے بعد) اچھے طریقے سے کاشت کرکے پودوں کا بہترین فیصد اگاؤ حاصل کرنا، کھادوں خصوصاً فاسفورس کا بھر پور استعمال، فصل کو جڑی بوٹیوں و کیڑوں و بیماریوں سے بچانے کے لئے موثر زہروں کی انتخاب کرنا اور اچھے طریقے سے مار کیٹنگ کرنا شامل ہیں۔

یقینی کامیابی:

اگر چہ بعض اوقات اکیلے موسم اور مقامی آب وہوا یا مذکورہ عوامل میں سے کوئی ایک فصل کی قسمت کا فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن ہماری تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو کاشتکار کھادوں ، کاشتی امور اور فصلی تحفظ کا مربوط انتظام کرتا ہے اس کی فصل کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوتے ہیں۔


پاکستان میں سونف کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

خوراکی ادوایاتی اہمیت:

ان کی تاثیر گرم درجہ دوم اور چھلکے سمیت خشک درجہ اوّل میں شمار کی جاتی ہے۔ حکماء سونف کو بیشتر نسخہ جات میں بنیادی دو ا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ دیسی حکمت کے بیشتر نسخہ جات میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ یہ بنیادی طور پر ہاضم خصوصیات کی حامل ہے ۔ گیس کا تیر بہدف علاج مہیا کرتی ہے۔ فالتو بلغم اور جسم کے فاضل مادوں کا کاتمہ کرتی ہے۔ ضروری رطوبات (Secretions) افراز کرنے میں لا جواب حیثیت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے دودھ پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ حیض آور خصوصیات بھی رکھتی ہے۔اس لئے ماہواری کی رکاوٹ دور کرتی ہے۔ جسم میں ضروری رطوبات (Secretions) کی کمی کا ازالہ کرتی ہے۔ حکمت کی اصطلاح میں سُدے کھولتی ہے۔ چنانچہ معدہ، گردہ، پستان اور مثانہ کے امور میں بہت زیادہ سہولت پیداکرتی ہے۔ اسی نسبت سے سو۔ نف قوتِ بصارت و سماعت کو تقویت بخشتی ہے۔ اس میں وٹامن اے کثیر مقدار میں ہوتا ہے اس لئے نظر کو تا دیر قائم رکھنے کے کئے سونف کو مختلف طریقوں سے مسلسل استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اسہال کہنہ اور دست کی پرانی بیماریوں کو بند کرتی ہے۔ بڑھاپے کا عمل موخر کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

فصلی ترتیب:

پنجاب کے مختلف علاقوں میں یہ فصل مندرجہ ذیل ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے:

  • مکئی بہاریہ (جنوری ،فروری)۔چاول (جون) سونف اکتوبر نومبر
  • سونف (اکتوبر نومبر) چاول مکئی (اپریل مئی) چاول جولائی
  • سونف (اکتوبر نومبر) بھنڈی توری یا کریلا ( مئی) گندم نومبر
  • سونف (اکتوبر نومبر) جنتر ( اپریل مئی) چاول جولائی

زمین اور علاقے:

اچھے نکاس والی میر ااور بھاری میرا زمین میں بہتر پیداوار دیتی ہے۔ ریتلی، سیم اور تھوروالی زمین اس کیلئے موزوں نہیں۔ ہلکی میر ا زمین میں زیادہ گرتی ہے اس لئے بھاری میر زمینوں کو ترجیح دی جائے۔ بیج کے بہتر اگاؤ خاطر اسے روٹا ویٹر سے تیار شدہ باریک زمینی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ جڑوں کی گہرائی چونکہ زیادہ نہیں ہوتی ہے اس لئے زمین زیادہ گہرائی تک تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یکساں اگاؤ کی خاطر زمینی ہمواری بڑی اہمیت کی حامل ہے کم وپیش پورے پنجاب میں کاشت کی جاسکتی ہے۔ شمالی پنجاب کی مرطوب آب وہوا میں سونف کو بیماری زیادہ لگتی ہے۔ جبکہ جنوبی پنجاب میں اسے بیماری کم لگتی ہے۔

آب و ہوا:

بہتر سونف پیدا کرنے میں موسم بڑی اہمت رکھتاہے۔ معتدل اور سرد خشک آب و ہوا میں بہتر افزائش کرتی ہے۔ اگاؤ کے دوران موسم معتدل (28تا32 سینٹی گریڈ کے درمیان) اور خشک رہے، بڑھوتری کے دوران مناسب وقفوں سے پرسکون بارش ہوتی رہے اور پکنے کے دوران درجہ حرارت تدریجاً بڑھتا رہے تو معیاری پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ماہ جنوری کے دوران ظاہر ہونے والے انتدائی پھولوں پر کہر کا شدید اثر ہوسکتاہے۔ اگیتے گچھوں پر کہر کا اتنا شدید اثر ہوسکتاہے کہ ان میں دانے نہیں بنتے ۔ جیسا کہ سونف کی بارآوری میں کیڑوں کا بڑااہم کردار ہے۔ لیکن سردی کے دوران کیڑے مکوڑے نہ ہونے کی وجہ سے بارآوری کاعمل پوری طرح نہیں ہوسکتا۔ ایسے حالات میں اگیتی کاشتہ سونف کو نقصان ہوجاتاہے۔ اگر پھول آنے سے لیکر دانہ بننے کے دواران موسم ابر آلود یا مرطوب رہے تو بیماری (جھلساؤ) کاامکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ تنا کمزوری ہونے کی صورت میں تیز ہواسے گرسکتی ہے۔ پکنے کے دوران اگر موسم 40 سینٹی گریڈ یازیادہ گرم ہوجائے تو پکنے کا عمل تیز ی سے مکمل ہوجاتاہے۔ اس کے نتیجے میں دانہ سکڑ کر باریک رہ جاتاہے۔ بکائی کے دوران اچانک زیادہ گرمی شروع ہوجائے تو بیج کی رنگت سبز نہیں رہتی بلکہ براؤن ہوجاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں اس کاریٹ کم لگتا ہے۔

کھادیں:

سونف کو باالترتیب 23-34 کلو گرام نائٹروجن اور فاسفورس ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ ایک تا ڈیڑھ بوری ڈی اے پی اور ایک یوریا ڈالنے سے اس کی خوراکی ضرورت کافی حدتک پوری ہوجاتی ہیں۔ ایک تہائی نائٹروجن، تمام فاسفورس بوقتِ کاشت ڈالی جائے۔ بقیہ نائٹروجن کاشت کرنے کے بعد 35تا60 دن کے اندر اندر قسط وار کرکے ڈلیں۔ مٹی چڑ ھاتے وقت اکیلی یوریا ڈالنے کی بجائے نائٹروجن ڈالی جائے تو بہترین پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ اگر پھول آوری سے پہلے فصل کی رنگت ہلکی سبز ہوتو اس پر مناسب گریڈ کی NPK سپرے کی جاسکتی ہے۔

آبپاشی اور گرنے سے ررکنا:

سونف کو زمین اور موسم کی مناسبت سے تین سے پانچ مرتبہ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈرل سے کاشت کی صور۔ ت میں پیلا پانی حتی الوسع تاخیرسے لگائیں۔ پٹٹریوں کے کناروں پر کاشت کی صورت میں پہلا پانی احتیاط سے یکساں لگایا جائے۔ باقی پانی حسب ضرورت لگائے جائیں۔ جب فصل پھولوں پر آجائے تو اس کے بعد ہر آبپاشی موسمی پیشگوئی کی مناسبت سے کرنی چایئے۔ سونف کے تنے اندر سے کھوکھلے ہونے کی وجہ سے کافی کمزور ہوتے ہیں۔ ان مراہل پر آبپاشی کے بعد ہو ا چلنے سے آسانی سے گرجاتے ہیں او ر شدید نقصان ہوسکتا ہے ۔ اسی لئے پانی لگانے کا کام ہو ا تھم جانے پر تر جیحاً شام کے وقت کیاجائے۔

شرح بیج اور پودوں کی تعداد:

ڈرل سے کاشت کی صورت میں 4تا5 کلوگرام صحت مند وموٹابیج استعمال کیا جائے ۔ پٹٹریوں پر چوکے لگا نے کی صورت میں صرف دوتا اڑھائی کلو گرام بیج کر ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایکڑ میں سونف کے 30-25 ہزار پودے ہوں تو بھر پور پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

وقتِ کاشت:

وسطی پنجاب کے لئے وسط اکتوبر تا وسط نومبر بہتر وقت ہے۔ اگیتی کاشت اکتوبر کے دوران اور درمیانی کاشت نومبر کے پہلے ہفتے کے دوران کی جاتی ہے۔ ڈرل سے کاشت کرنی ہوتو اگیتی کاشت کو اور پٹٹریوں یا کھیلیوں پر کاشت کرنی ہوتو درمیانے موسم میں کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اگیتی کاشتہ فصل کے پودے زیادہ شگو فے نکا۔ لتے ہیں اور بہتر پیداوار دیتے ہیں۔ اگیتی فصل بعض اوقات شدید کہرسے متاثر ہوسکتی ہے۔ لیکن حالیہ تجربات سے پتہ چلا ہے کہ کھیلیوں پر کاشت کی جائے یا ڈرل سے ہر دو صورتوں میں آخر اکتوبر کاشتہ فصل اکثر بہتر پیداوار دیتی ہے۔

طریقہ کاشت:

زمینی ساخت اور وسائل کی مناسبت سے سونف کو چار طریقوں سے کاشت کیاجا سکتاہے۔ مخصوص حالات کے تناظر میں مندرجہ ذیل میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔

الف - ڈرل سے کاشت:

ہلکی میر ازمینوں میں بڑے پیمانے پر سونف کاشت کرنی ہوتو ڈرل سے کاشت کی جائے۔ ایسی صورت میں وتر زمین تیار کرکے ڈرل کی مدد سے کاشت کی جاتی ہے۔ ڈرل سے کاشت کی صورت میں پودوں کو باہمی فاصلہ 8-6 انچ اور لائنوں کا دوتا اڑھائی فٹ برقراررکھاجائے۔ اگیتی کاشت کی صورت میں قطاروں کا فاصلہ 2.5 فٹ جبکہ پچھیتی کاشت کی صورت میں دو فٹ رکھا جائے۔ جب فصل کا قد چھ تا نو انچ ہوجائے تو اس کی چھدرائی کردی جائے اور دو فٹ کی ہونے پر کھاد ڈال کر مٹی چڑ ھادی جائے۔

ب - پٹٹریوں پر کاشت :

چھوٹے پیمانے پربھاری میرازمینوں میں سونف کو پٹٹریوں کے کناروں پر چوکے لگاکر کاشت کیاجاسکتا ہے۔ اس صورت میں پودوں کا فاصلہ 9 انچ اور پٹٹریوں کا دو تا اڑاھائی فٹ برقرار رکھا جائے۔ سونف کی بھر پور فصل پیدا کرنے کے لئے چھدرائی کا عمل بے حد ضروری ہے۔ جب فصل کا قد چھ انچ ہوجائے تو ہر چوکے پر ایک ایک پودا چھوڑ کر فالتو پودے نکال دیے جائیں۔اس طریقے سے کاشتہ سونف کو مٹی نہیں چڑھائی جاسکتی اس لئے اس کے گر۔ نے کے امکانا ت زیادہ ہوتے ہیں۔ چھدرائی نہ کی جائے تو فصل کے تنے کمزور رہتے ہیں اور گرنے سے نقصان ہوسکتا ہے۔ پٹٹریوں پر کاشتہ سو نف اگر گرنے سے محفوظ رہے تو یہ بھی بہتر پیداوار دیتی ہے۔

کھیلیوں پر کاشت:

بھرپور پیداوار حاصل کرنے کے لئے اڑھائی فٹ کے فاصلے پررجر سے بنائی گئی کھیلیوں کے ایک کنارے پر نو نو انچ کے فاصلے پر کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ جب فصل کا قدچھ انچ ہوجائے تو چھدرائی کردی جائے یعنی مذکورہ فاصلے پر ایک ایک پودا چھوڑ کر فالتو پودے نکال دیے جائیں۔ جب فصل کا قد دو فٹ ہو جائے اس وقت نائٹروفاس یا اس کے متبادل کھا د ڈال کر مٹی چڑھادی جاتی ہے ۔ اس طریقے سے کاشتہ سو نف گرنے سے بہت حد تک محفوظ رہتی ہے۔

د - محفوظ کاشت کا طریقہ:

لیزر سے ہموار سے شدہ اور روٹا ویٹر سے تیار شدہ زمین میں 2.5 فٹ کی پٹٹر یوں کے کناروں پر کاشت کی جائے تو ایک (ترجیحا شمال کی) طرف سونف اور دوسری یعنی جنوبی جانب دھنیا کاشت کیا جا سکتا ہے۔ ان دونو ں فصلوں کی بیشتر ضروریات ایک جیسی ہوتی ہیں۔ کاشت کے بعد آبپاشی کر دی جائے ۔ آبپاشی کے دودن بعد 33 فیصد طاقت والی پینڈی میتھالین زہر 1200 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے 100 لٹر پانی ملا کر تروتر حالت میں سپرے کردی جائے۔ کاشت کے ایک ماہ بعد ایک آسان گوڈی کردی جائے ۔ دھنیاں کی دو تا تین کٹائیاں لینے کے بعد جنوری میں ان کو ختم کردیا جائے۔ دھنیا والی سمت سے ہر کھیلی کو کاٹ کر کھالی کے اندر گرا کر باریک کیا جائے۔ مٹی خشک ہو۔ نے کے بعدنا ئٹروفاس کھاد ڈال کر سونف کو مٹی چڑ ھادی جائے تو ایک ہی کھیت سے دوگنی آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔

معیاری سونف کا حصول:

انڈیا سے درآمد سونف سبزر نگت کی وجہ سے پاکستان کی مارکیٹ میں زیادہ مہنگی فروخت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی پنجاب کے بر عکس انڈیا کے شمال علاقوں میں موسم اچانک گرم نہیں ہوتا ۔ موسمِ گرما کی تدریجی آمد کی وجہ سے سونف کی پکائی کا عمل تدر یجاً وقوع پزیر ہوتاہے۔ اسی طرح موٹے اور سبز دانوں والی سونف کی ڈیمانڈ کم ہوتی ہے۔ سونف کی رنگت کنٹرول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سونف کے گچھے نیم پختہ حالت میں کاٹ کر سائے میں خشک کیے جا۔ ئیں ۔ پہلی چنائی کے موٹے دانوں والی سونف سائے میں خشک کرکے اس کی الگ گہائی کی جائے۔ سونف کو زیادہ پکنے سے پہلے پہلے کاٹ کر سائے میں خشک کیا جائے۔ اگر پکائی کے دوران یعنی اپریل کر شروع میں موسم اچانک زیادہ گرم ہوجائے تو اس کا دانا پچک جاتا ہے اور پوری کوشش کے باوجود سونف کی رنگت خراب ہوجاتی ہے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ سونف کو زیادہ لیٹ کاشت نہ کیا جائے ۔ اکتوبر کے آخر تک کاشت کردی جائے تو معیاری سونف پیدا کی جاسکتی ہے۔

برداشت:

یہ فصل 160تا180 دنوں میں تیار ہوجاتی ہے۔ اپریل میں دو یا تین چنائیاں کریں اور ممکنہ حد تک پہلی چنائی کی سونف کو الگ فروخت کیاجائے۔ برداشت کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جو گچھے پک جائیں انہیں کاٹ لیا جائے۔ تین چنائیوں میں اس کے سارے گچھے درانتی سے کاٹ کر سائے میں خشک کیے جائیں اور ڈنڈے کی مدد سے کوٹنے کے بعد صفائی کرکے مارکٹنگ کی جائے۔

ٍپیداوار:

روایتی طریقوں سے کاشت کی صوورت میں عام طورپر 6-5 من فی ایکڑ دستیاب ہوتی ہے ۔ لیکن بہتر پیداواری اور موسمی حالات میں اچھی فصل سے 15 تا 18 من سونف پیدا ہوسکتی ہے۔

سونف کے کیڑے اور بیماری:

سونف پر کیڑوں کا حملہ بہت کم ہوتاہے۔ البتہ مارچ اپریل میں جھلساؤ کی بیماری آتی ہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے پھول آوری سے لے کر دانہ دو دھیا حالت میں پہنچنے کے درمیان دس دس دن کے وقفہ سے ڈائی تھین ایم، مینکو زیب یا ٹاپسن ایم کے تین سپرے کریں۔

جڑی بوٹیاں:

اکتوبر کاشتہ سونف کو نقصان پہنچانے والی جڑی بوٹیوں میں اٹ سٹ، قلفہ، چولائی، مدھانہ، سوانکی، شاہترہ اور لمب گھاس وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں سے اٹ سٹ اور لمب گھاس زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ نومبر کاشتہ سونف میں جنگلی پالک، دمبی سٹی، ہاتھو، کونڈ، مینا اور سینجی و غیرہ اگتی ہیں۔ جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کے لئے مندرجہ ذیل طریقہ کار پر عمل کیا جاسکتاہے۔

الف - اگاؤ سے پہلے سپرے:

بشتر موسمی جڑی بوٹیوں خصوصاً اٹ سٹ اور سٹی بوٹی سے بچاؤ کے لئے زمینی ساخت کی مناسبت سے پینڈی میھالین 12 تا 15 ملی لٹر فی پانی ملاکر کھیلیوں پر چوکے لگانے کے ایک دو دن بعد صرف وتر مقامات پر سپر ے کریں۔ ڈرل سے کاشت کی صورت میں یہی زہر کاشت کرنے سے پہلے ڈیڑ ھ لٹر فی ایکڑ کے حساب سے تیاری کے دوران زمین میں ملا ئیں یا کاشت کے فوراً بعد وتر حالت میں یکساں سپرے کی جائے۔ جب فصل کی قد دوتا اڑھائی فٹ ہو جائے تو مٹی چڑ ھا کر آبپاشی کردی جائے۔

ب - اگاؤ کے بعد سپرے:

اگر بجائی کے وقت زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو تو اگاؤ کے ڈیڑ ھ ماہ بھی زہریں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ اگاؤ کے بعد استعمال ہونے والی زہرروں میں فینوکساپراپ 500 ملی لٹر یا پر سیپٹ یا ہیلو کسی فوپ 350 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سونف سمیت تمام رقبے پر یکساں سپرے کی جاسکتی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ زہریں سونف میں اگی ہوئی صرف گھاس خاندان کی جڑی بوٹیوں (دمبی سٹی، جنگلی جئی اور دمب گھاس وغیرہ) کو تلف کرتی ہیں جبکہ چوڑی پتوں والی جڑی بوٹیوں کو گوڈی کے طریقے سے تلف کیاجائے۔ جب فصل کا قد دو تا اڑھائی فٹ ہوجائے تو مٹی چڑھاکر آبپا۔ شی کردی جائے۔

مارکیٹنگ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ:

مئی کے مہینے میں نئی فصل مارکیٹ میں آنے پر سونف کا ریٹ کافی حد تک گر جاتاہے۔ سردیوں کے دوران اس کی کھپت زیادہ ہوتی ہے اس لئے سردیوں میں اس کا ریٹ زیادہ ہوتا ہے۔ براؤن رنگ کے مقابلے میں سبز رنگ کی سونف کی طلب زیادہ ہوتی ہے۔ وسطی پنجاب میں سبز سونف پیداکرنا کافی دشوار عمل ہے۔ یہاں اپریل میں اچانک موسم گرم ہونے کی وجہ سے بیشتر فصل کی رنگت سبز نہیں رہتی ۔ بھارت سے درآمد ہ سبز سونف بہتر رنگت کی وجہ سے ہماری مقامی سونف کے مقابلے میں مہنگی فروخت ہوتی ہے۔

پیداواری مسائل:

سونف کے پیداواری مسائل میں مارکیٹ ڈیمانڈ اور سپلائی، جڑی بوٹیاں ، آب وہوا کی ناسازگاری (آندھی سے گر جاتی ہے) اور کٹائی سے بعد سنبھال وغیرہ شامل ہیں۔

پیداواری عوامل کاحصہ:

اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں کا حصہ تقریباً 30 فیصد، زمینی تیاری وکاشت وآبپاشی کا 20 فیصد، کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بو ٹیوں سے بچاؤ کا 15 فیصد، فصل کی برداشت ومار کیٹنگ کا 35 فیصد بنتا ہے۔ ان اخراجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں ہے۔

پیداواری خراجات اور آمدن:

حالیہ سالوں کے دوران ذاتی زمین کی صورت میں سونف پیداکرنے کافی ایکڑ خرچ 25 ہزار ( وسطی پنجاب کے 1تا 5 ایکڑ والے کاشتکار، نصف مقدار بہری پانی دستیاب ، صرف ناگزیر اطلاقی اخراجات شامل کرتے ہو ئے زمینی تیاری ، بیج و کاشت کے اخراجات 5000، کھادیں 7000، پانی 2000، تلفی جڑی بوٹیاں، چھدرائی و مٹی چڑھائی 4000، برداشت 2000، گہائی 3000 ٹرابسپورٹ 1000، متفرق 1000، کل 25000) روپے بنتاہے بہتر پیداواری ٹیکنالوجی پر عمل پیراہونے کے ساتھ ساتھ اگرذاتِ حق کی مہربانی سے موسمی حالات بھی سازگار رہیں بہتر مارکیٹنگ اور مناسب حکمتِ عملی کی بدولت مذکورہ اخراجات میں کمی کرکے معیاری سونف سے اس سے زیادہ بچت کی جاسکتی ہے۔

نفع بخش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کی نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں جڑی بوٹیوں کے حملے سے بچانا، پودوں کی مناسب تعداد (25 30 ہزار) برقرار رکھنا، فصل کو مٹی چڑ ھانا اور زیادہ پکنے سے پہلے پہلے کاٹ کر سایہ دار جگہ میں خشک کرنا، اس کی پیدا۔ وار کو قدرے سبز حالت میں مارکیٹ میں پہنچانا شامل ہیں۔


پاکستان میں بند گوبھی کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

خوراکی و ادویاتی اہمیت:

طبی لحاظ سے بند گوبھی کی تاثیر سرد تر درجہ دوم میں شمار کی جاتی ہے۔ ریشہ دارہونے کی وجہ سے یہ قبض کشاسبزی ہے۔ پیشاب آور ہونے کے ساتھ ساتھ نیند آور خواص کی حامل بھی ہے۔ مصفی خون بھی ہے۔ یہ السر اور شگر کے مریضوں کیلئے بہترین سبزی ہے۔ کینسر کی علاج کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

فصلی ترتیب:

یہ فصل پنجاب کے مختلف علاقوں میں مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے:

  • کدو (فروری مارچ) بندگوبھی (ستمبر)۔ کریلا فروری
  • بندگوبھی ( آخراگست) گندم (آخرنومبر)۔ چاول جون
  • چارہ (مارچ) سبزی کدو (جون جولائی) بندگوبھی اکتوبر
  • برسیم (اکتوبر نومبر) چاول (جون) بندگوبھی نومبر

اقسام:

اس کی اہم اقسام میں گولڈن ایکر، ڈرم ہیڈ، کوپن ہیگن اور مارکیٹ ارلی زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ کئی دوغلی اقسام بھی زیِر کاشت ہیں۔ اہم اقسام کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

گولڈن ایکر:

اس کی پیداواری صلاحیت کافی زیادہ ہوتی ہے۔ رنگ ہلکا سبزا ،سائز درمیانہ ولمبوترا، جلدی 60 تا 65 دنوں میں تیار ہونے والی قسم ہے، یہ قسم گرمی بھی برداشت کرسکتی ہے اسی لئے ہر علاقے کے لئے موزوں ہے۔ اس کو تیاری کے بعد دو سے تین ہفتے کے اندر اندر کاٹنا ضروری ہے۔ دیر سے کاٹی جائے تو پھٹ جاتی ہے۔

ڈرم ہیڈ:

اس کی مجموعی پیداوار گولڈن ایکر سے کم ہوتی ہے۔رنگ گہرا سبز، گول، گولڈن ایکر کے مقابلے میں اس کا سائز بڑا قدرے دیر سے (80 تا 90 دنوں میں) تیار ہوتی ہے۔ یہ قسم گرمی برداشت نہیں کرتی، ٹھنڈے علاقے کے لئے مو۔ زوں ، یہ تیاری کے بعد زیادہ عرصہ تک کھڑی رہ سکتی ہے۔

دوغلی اقسام سینٹ:

دوغلی اقسام زیادہ پر کشش ہو تی ہیں اور ان کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے، ان کا رنگ گہر ا سبز اور بعض اقسام جامنی رنگ کی ہوتی ہیں۔ جامنی رنگ کی اقسام زیادہ پسند نہیں کی جاتیں، بیشتر اقسام کا سائز بڑا ، گول، لمبوترا ، قدرے جلد۔ی ( 60تا70 دنوں میں) تیار ہوتی ہے، ٹھنڈے علاقے کے لئے موزوں، اس کا ہیڈ زیادہ دنوں تک تیار حالت میں کھڑا رہ سکتاہے۔

زمین:

بھاری و چکنی میرا زمین میں بہتر ہوتی ہے۔ ریتلی اور کلر اٹھی زمین اس کے لئے نا سازگارہے۔ چونکہ اس کے بیج بہت باریک ہوتے ہیں اس لئے یکساں اگاؤ کی خاطر اسے باریک زمینی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ کم گہری جڑوں وا۔ لی فصل ہے۔ اسلئے زیادہ گہرائی تک زمین تیارکرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ بندگوبھی کے یکسا ں اگاؤ کی خاطر زمین کی لیزرلیولنگ کروانی ضروری ہوتی ہے۔

آب وہوا:

سرد اور خشک آب وہوا اس کے لئے زیادہ سازگارہے۔ اگاؤ کے دوران معتدل گرم (25 تا 30 سینٹی گریڈ)، کم درجہ حرارت (12 تا 18 سینٹی گریڈ) پر بہتر کوالٹی کے ہیڈ پیداکرتی ہے۔ یہ پنجاب بھرمیں اگائی جاسکتی ہے، خصوصاً شہر۔ وں کے قریب قریب آبپاشی علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ خاص طورپر لاہور ڈویثرن اور سون سکیسر کے علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے بیج کا عمومی اگاؤ 75 تا 88 فیصد ہوتا ہے۔ بیج کی روئیدگی اگرچہ چارسال تک برقرار رہتی ہے۔لیکن دو سال سے زیادہ پرانا بیج نہ لگایاجائے تو بہتر ہے۔ اگاؤ کے لئے اسے زیادہ نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔

کھادیں:

بند گوبھی کی بہتر پیداوار کے لئے 80تا120 کلو نائٹروجن اور 60 تا 100 کلوفاسفورس اور 50 کلو فی ایکڑ پوٹاش ڈالی جائے۔

الف - کھاد کب ڈالی جائے؟

ایک تہائی نائٹروجن ، تمام فاسفورس اور نصف پوٹاش بو قتِ کاشت ڈالی جائے۔ بقیہ نائٹروجن اور پوٹاش کاشت کے 35 تا 50 دن کے اندراندر قسط وار کرکے ڈالیں ۔ معیاری پیداوار حاصل کرنے کے لئے 4ٹن پولٹری کی کھاد یا 12 ٹن جانوروں کا گلا سڑا گوبر ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس کو کیلشئم کی زیادہ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اسلئے یو۔ ریا کے بجائے کیشیم امونیم نائٹریٹ استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

ب - معاون مرکبات کی سپرے:

بند گوبھی پر ایک مرتبہ ہفتے کی نرسری پر اور ایک مرتبہ منتقلی کے تین ہفتے بعد میگز یمو سپر یا ووکوزم 300 ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کی جائے تو اس کی جڑوں کی افزائش بہتر ہوتی ہے۔ جب فصل چالیس دنوں کی ہوجائے تو مناسب گریڈ (52: 13 یا 45:15:5) والی NPK پانچ کلو گرام فی ایکڑ کے حساب سے فلڈ کی جائے ۔ اس کے نتیجے میں حیرت انگیز طورپرزیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

شرح بیج:

ایک ایکڑ کی نرسری اگانے کے لئے اوپی اقسام کا 400 گرام بیج استعمال کیا جاتاہے۔ دوغلی اقسام کا 250 تا300 گرام ایک ایکڑ میں براہِ راست کاشت کیا جاسکتا ہے۔ بند گوبھی کی نرسری وافر مقدار میں اگائیں اور پودوں کی تعداد پوری کریں تو بھرپور پیداوار کا حصول یقینی ہو جاتاہے۔ بند گوبھی کی نرسری پھول گوبھی ، مرچ اور ٹماٹر کے مقابلے میں زیادہ سخت جا ن (Hardy) ہوتی ہے۔ ایک گرام میں عموماً 320 بیج آتے ہیں۔

آبپاشی:

زمینی ساخت اور وقتِ کاشت کی مناسبت سے اس کو چار تا پانچ آبپاشیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگست میں کا شتہ اگیتی بند گوبھی کو پہلا پانی لگانے کے بعد ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے شروع میں نرسری منتقل کریں۔ اگلے پانی 12-10 دن کے وقفے سے اکتوبر تک جاری رکھیں۔ سردیوں میں آبپاشی کا وقفہ 15تا21 دن کردیں۔ جب اس کے پھول (ہیڈ) بن رہے ہوتے ہیں ۔ اس وقت پانی کا سوکا نہیں لگنا چاہئے۔ براہِ راست بیج سے کاشتہ بندگوبھی کو پہلاپانی مکمل احتیاط سے لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بند گوبھی کو اگاؤ کے لئے قدرے زیادہ نمی کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اگست یا ستمبر کاشتہ فصل کو دوسرا پانی ذراچڑ ھا کر لگانے کی سفارش کی جاتی ہے۔

وقتِ کاشت:

براہِ راست کاشت وسط اگست تاوسط اکتوبر کے دوران کی جاسکتی ہے۔ حالیہ سالوں کے موسم پچھلے عشروں کے مقا۔ بلے میں زیادہ گرم رہنے لگے ہیں اس لئے زیادہ اگیتی (اگست) کی کاشت سے اجتناب کیا جائے ۔ نرسری منتقلی یکم اکتوبر سے دسمبرتک کی جاسکتی ہے۔ پانچ ہفتے (پانچ چھ پتوں) کی نرسری منتقلی کے قابل ہوجاتی ہے۔

طریقہ کاشت:

اگر چہ میرا اور ہکی زمینوں میں ہموا ر زمین پر قطاروں میں بھی کاشت کی جاسکتی ہے لیکن بھاری میر زمینوں میں خصوصاً اگیتی کاشت کی صورت میں کھیلیوں یا پٹٹریوں کے کناروں پر بیج لگا کر یانرسری منتقل کرکے کی جاتی ہے۔ پودوں کا باہمی فاصلہ ایک فٹ اور پٹٹریوں کا اڑھائی فٹ رکھا جائے۔ اس طرح ایک ایکڑ میں 15 تا 18 ہزار پودے لگائے جائیں۔ بند گوبھی کا پودا چونکہ زیادہ نہیں پھیلتا اس لئے اس کے ساتھ دیگر سبزیوں کی مخلوط کاشت آسانی سے کی جاسکتی ہے ۔ چنانچہ پٹٹریوں کے دونوں طرف کاشت کرنے کی بجائے ایک طرف بندگوبھی اور دوسری طرف مٹر، ٹماٹر یا پیاز کاشت کئے جاسکتے ہیں۔

برداشت:

یہ اوسطاً 90 تا 100 دنوں میں تیار ہوتی ہے لیکن اگیتی اقسام 70 دنوں میں بڑے سائز کے (ہیڈ) (Large heads) والی 130 دنوں میں تیار ہوتی ہیں۔ جب بند گوبھی کے پھول (ہیڈ) پتے لپٹنے کی وجہ سے قدرے سخت ہوجائیں توان کو کاٹ لیا جائے۔ اچھی طرح سخت ہونے پر کاٹی گئی بند گوبھی زیادہ دنوں تک محفوظ رہ سکتی ہے۔ تیار ہونے والے ہیڈ کاٹنے میں ہفتہ بھر کے لئے تا خیر بھی کی جاسکتی ہے۔ کچی بند گوبھی کو کاٹ لیا جائے تو یہ زیادہ دنوں تک محفوظ نہیں رہ سکتی۔

پیداوار:

درمیانی اور اگیتی فصل سے 250 تا 300 من فی ایکڑ حاصل ہوتی ہے۔لیکن زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل اچھی اقسام اور بہتر کاشتی امور کی بدولت ٹھنڈے موسم میں 400 تا 500 من فی ایکڑ تک حاصل کی جاسکتی ہے۔ مارکیٹنگ ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ اگرچہ سون سکیسر سے آنے والی بندگوبھی کاریٹ جولائی سے لے کر ستمبر تک کافی زیادہ رہتاہے۔ لیکن وسطی پنجاب کی بیشتر فصل نو مبر سے اپریل تک مارکیٹ میں آتی ہے۔جو درمیانے ریٹ پر فروخت ہوتی ہے۔ اگست کاشتہ بندگوبھی نومبر دسمبر میں مارکیٹ میں آئے تو بھی زیادہ ریٹ پر بکتی ہے۔ البتہ جنوری فروری کے دوران اس کا ریٹ کافی حد تک گر جاتا ہے۔

بیماریاں اور اس کا انسداد:

پنجاب میں بند گوبھی پر بیماریوں کی وجہ سے شدید نقصان نہیں ہوتا۔ لیکن بعض حالات میں اس پر پتوں کا گا لا (Xan thomonas) ، روئیں دار پھپھوندی، جڑکا گالا ، نرسری کا مرجھاؤ، برگی دھبے (Alternaria) وغیرہ نقصان پہنچاسکتی ہیں۔

انسداد:

بیماریوں سے بچاؤ کے لئے دیگر کاشتی امور کی بہتری کے ساتھ ساتھ اچھی اقسام کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے جن کھیتوں میں پہلے بیماری ظاہر ہوچکی ہو وہاں اگلے سال بند گوبھی کاشت نہ کی جائے۔ بند گوبھی یا سرسوں خاندان کی دیگر فصلیں مسلسل کاشت کرنے کے بجائے جگہ بدل بدل کر کاشت کی جائیں۔

کیڑے اور ان کا انسداد:

سست تیلہ اور چمکیلا پروانہ (DBM) اس پر شدید حملہ کرسکتے ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے کے لئے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔

چمکیلا پروانہ:

بند گوبھی کوچمکیلا پروانہ سب سے زیادہ نقصان پہنچا تا ہے۔ اس کے خلاف ٹریسر 40 ملی لٹر یا میچ بحساب 125 تا 140 ملی لٹر یا ریڈی اینٹ 100 ملی لٹر سو لٹر پانی میں ملا کر یا ان کے متبادل زہریں سپرے کی جاسکتی ہیں۔

سست تیلہ:

لیٹ کاشتہ بندگوبھی پر فروری مارچ میں سست تیلے کاشدید حملہ ہوسکتاہے۔ اس کے خلاف کو نفیڈار یا امیڈا 200 ملی لٹر یا موسپیلان یا ایسیٹا 100 گرام سولٹر پانی میں ملاکر یازرعی ماہرین کے مشورہ سے ان کے متبادل کوئی اور زہر سپر۔ ے کی جاسکتی ہے۔

جڑی بوٹیاں:

اگست سے اکتوبر کے درمیان کاشتہ بندگوبھی کواٹ سٹ، چولائی ، قلفہ، مدھانہ، لمب گھاس وغیرہ نقصان پہنچا تی ہیں اگر نومبر میں کاشت کی جائے تو جنگلی ہالوں، ہا تھو، کرنڈ، جنگلی پالک اور دمبی سٹی اسے زیادہ نقصان پہنچا تی ہیں۔

الف - اگاؤ سے قبل سپرے:

ان کی تلفی کے لئے اگر ستمبر یا اکتوبر بند گوبھی کی صحتمند نرسری منتقل کریں تو منتقلی کے ایک دو دن بعد گوبھی سمیت تمام رقبے پر پینڈی میتھالین ایک لٹر یا ڈوال گولڈ 600 ملی لٹرفی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جاسکتی ہیں۔ اگر نومبر دسمبر کے ٹھنڈے موسم میں منتقل کریں تو ڈوآل گلولڈ 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کریں۔

ب - اگاؤ کے بعد سپرے

اگر بند گوبھی میں گھاس خاندان کی جڑی بوٹیاں ہوں تو ہیلوکسی فوپ یا فینو کساپر اپ 400 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جاسکتی ہیں۔ چوڑے پتوں والی اور گھاس خاندان کی جڑی بوٹیاں تلف کرنے کے لئے کلیر فیلڈ 200 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جاسکتی ہے۔ یہ زہریں بندگوبھی کو نقصان پہنچائے بغیر گھاس خاندان کی جڑی بوٹیاں تلف کرتی ہے۔ لیکن ڈیلا تلف نہیں کرتی۔

ج - زیادہ محفوظ طریقہ:

اگرچہ بند گوبھی پھول گوبھی کے مقابلے میں زہریں برداشت کرنے میں زیادہ سخت جان ثابت ہوئی ہے۔ تاہم اگر اگربند گوبھی کو چھوٹی اور کمزور نرسری منتقل کرنی ہو تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھیلیوں کو پانی لگانے کے ایک دن بعد پینڈی میتھا لین 33 فیصد ایک لٹر یا ڈوال گولڈ 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کریں۔ وتر آنے پر کھرپے یا کلی کی مدد سے ایک انچ گہرے سوراخوں میں نرسری منتقل کرکے پانی لگائیں تو گوبھی سو فیصد محفوظ رہتی ہے۔

پیداواری مسائل:

نامناسب طریقہ کاشت، جڑی بوٹیایوں کا حملہ اور مارکیٹ میں ڈیمانڈ کی کمی اس کی کم پیداوار کی اہم وجوہات ہیں۔ ہمارے تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو کاشتکارکھادوں، کاشتی امور اور فصلی تحفظ کا مربوط انتظام کر تاہے اس کی کامیابی کے امکانا ت زیادہ روشن ہوتے ہیں۔

پیداواری عوامل کا حصہ:

اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں کا حصہ تقریباً 30 فیصد، زمینی ہمواری و تیاری و کاشت کا 20 فیصد، کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کا 10 فیصد، فصل کی برداشت ومار کیٹنگ کا 30 فیصد جبکہ آبپاشی اور دیگر اخراجات کا 10 فیصد بنتاہے۔ ان خراجات میں اگر زمین کا ٹھیکہ بھی شامل کرلیا جائے تو اس کے ا خراجات سب سے زیادہ ہیں۔

پیداواری اخراجات اور آمدن:

حالیہ سالوں کے دوران ذاتی زمین کی صورت میں بند گوبھی پیدا کرنے کافی ایکڑ خرچ 28 ہزار روپے بنتا ہے۔ ( وسطی پنجاب کے 1تا10 ایکڑ والے کاشتکار جن کو نصف مقدار نہری پانی دستیاب ہو اور بہت سے امور خود انجام دیتے ہوں اور صرف ناگزیر اطلاقی اخراجات شامل کرتے ہوئے زمینی تیاری و کاشت 3000 ، بیج 1000، کھاد۔ یں 10000، پانی 2000 جری بوٹی 2000 ، کیڑے، بیماری 2000، برداشت (10 کٹائیاں) 3000، ٹرانسپورٹ 5000، متفرق 1000، کل 28000)۔ پوری پیداواری ٹیکنالوجی پر عمل پیر اہونے کے ساتھ ساتھ اگر موسمی حالات ٹیکنالوجی پر عمل پیر ا ہونے کے ساتھ ساتھ اگر موسمی حالات بھی سازگار رہیں تو 350 من بند گوبھی پیدا ہوسکتی ہے۔ جس سے ایک لاکھ روپے کمائے جاسکتے ہیں ۔ بہتر مارکیٹنگ اور مناسب حکمتِ عملی کی بدولت مذکورہ اخراجات میں کمی کرکے اس سے زیادہ بچت کی جاسکتی ہے ۔

نفع بحش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کی نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں مناسب وقت پر اچھی قسم کاشت کرکے پودوں کی مطلوبہ تعداد (15 تا 18 ہزار ) حاصل کرنا، کھادوں کا متناسب استعمال ، نشونما کو تحریک دینے والے مرکبات کی سپرے کرنا، فصل کوجری بوٹیوں وکیڑوں و بیماریوں سے بچانا اور ڈیمانڈ کی مناسبت سے مارکیٹنگ کرنا شامل ہیں۔


پاکستان میں چنے کی کاشت

PAR Jul 7, 2020 193

اہمیت:

دالوں میں چنے ہماری اہم ترین فصل ہے۔ پروٹین کی فروانی کی وجہ سے چنے کی دال گوشت کے نعم البدل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں 18 تا 20 فیصد پروٹین ہوتی ہے۔ ہماری کل پیداواری میں سے 14 تا 15 فیصد چنے جانوروں کی خوراک میں استعمال ہوتے ہیں۔ گندم اور چاول کے ساتھ استعمال کرنے سے انسانی جسم میں امائنو ایسڈز کی فر۔ اہمی متوازن ہوجاتی ہے۔ چنے بے شمار مصنوعات کی صورت میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ طبی لحاظ سے پختہ چنے گرم خشک ہوتے ہیں۔ بلغمی کھانسی اور نزلہ میں مفید ثابت ہوتے ہیں تاہم خشک کھانسی کی صورت میں چنے استعمال نہ کیے جائیں۔ چنے نہ صرف جسم و کمر کو طاقت مہیا کرتے ہیں بلکہ مقوی ہاہ ہونے کے ساتھ ساتھ کثر تِ حیض یا لیکوریا کو روکتے ہیں۔ اسی طرح جریان ، احتلام اور جگر و گردے کی کئی بیماریوں میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر دیر سے ہضم ہوتے ہیں۔ چنے یا اس کی مصنوعات کے بکثرت استعمال کی صورت میں ریح کا باعث ثابت ہوتے ہیں۔ پھلی دار فصلوں کی گروہ میں ہونے کی وجہ سے اس کی جڑوں میں نائٹروجن پکڑنے والے جراثیم موجودہوتے ہیں۔ گویا یہ زمینی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسی لئے اس فصل کے بعد کاشت کی جانے والی فصل بہتر ہوتی ہے۔

فصلی ترتیب:

پنجاب کے مختلف علاقوں میں یہ فصل مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے:

  • چنے تھل ایریا بارانی (اکتوبر) مونگ پھلی (اپریل) گندم نومبر
  • چنے تھل ایریا بارانی (اکتوبر) چنے (اکتوبر) گندم نومبر
  • مونگ (شروع مارچ) گوارا ( آخرجون) چنے اکتوبر
  • چنے تھل ایریا بارانی (اکتوبر) باجرہ (جولائی) گندم نومبر
  • چنے تھل آبپاشی (اکتوبر) چارہ (اپریل) گندم نومبر
  • چنے وسطی پنجاب (شروع نومبر) مونگ (جون) گندم نومبر

زمین:

چنے کے لئے ہلکی میر ا اور ریتلی اور اچھے نکاس والی زمین موزوں ہے۔ اس کی جڑیں زیادہ اکسیجن کی موجودگی میں زمین سے خوراکی اجزا جذب کرتی ہیں۔ اس لئے کلر اٹھی و بھاری میرا زمین چنے کے لئے نامناسب ہے۔ چنے کی فصل تھل کی ریتلی میرا اور اوسط درجہ کی زرخیز زمین میں نمی ملنے پر خوب پھلتی پھلولتی ہے۔ تھل کے بارانی علاقوں میں مون سون کی بارشوں سے پہلے گہرا ہل چلانا ضروری ہے تاکہ بیماریوں کے جراثومے ضائع ہوجائیں اور آئندہ فصل کے لئے وتر محفوظ رہ سکے۔ بارانی علاقوں میں ریتلی اور نرم زمین میں پہلے سے محفوظ کرو ہ وتر میں زمینی تیاری کئے بغیر بوائی کرنی چاہیئے تاکہ وتر ضائع نہ ہو۔ لیکن آبپاشی علاقے میں ایک دو بار ہل چلانا کافی ہوتاہے۔ پہلے گہرا ہل چلاکر خودرد گھاس اور جڑی بو۔ ٹیوں کی تلفی بہت ضروری ہوتی ہے اس کے بعد ایک مرتبہ ہل اور سہاکہ چلا کر زمین کو اچھی طرح ہموار کرلینا چاہیئے۔ آبپاشی علاقوں میں اس کے بہتر اگاؤ کی خاطر مناسب حد تک باریک زمینی تیاری بڑی اہم سمجھی جاتی ہے۔ یکساں آبپاشی اور بہتر اگاؤ کی خاطر زمینی ہمواری بھی ضروری ہوتی ہے۔

کاشت کے علاقے:

پنجاب میں بکھر، جھنگ، لیہ، میانوالی ، منچن آباد، خوشاب اور ڈیرہ غازی خان میں زیادہ اگایا جاتاہے۔ پاکستان میں چنے کی کل مقدار کا اسی فیصد سے زیادہ پنجاب (خصوصاًتھل ایریا) میں پیدا ہوتا ہے۔ اس میں سے پچاس فیصد اکیلے ضلع بھکر سے حاصل ہوتا ہے۔ تھل ایریا میں 14 لاکھ ایکڑ بارانی اور تین لاکھ آبپاشی علاقے میں چنے کاشت کئے جاتے ہیں۔ کل پیداوار کا بیس فیصد سے زیادہ حصہ آبپاشی کاشت پر مشتمل ہے۔ تھل گرم و خشک حالات میں جہاں دوسری فصلوں کی کاشت ناکام رہتی ہے۔ وہاں چنے پانی اور زرخیزی کی کمی کے باوجود خوب پھلتے پھولتے ہیں

آب و ہوا:

چنے سر د اور خشک موسم میں بہتر پیداوار دیتے ہیں۔ اگر فروری میں فضائی نمی 80 فیصد سے زیادہ اور درجہ حرارت 20 سینٹی گریڈ سے کم رہے تو چنے کی بیماری (جھلساؤ) کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔اگر سردیوں کے دوران بھر پور بارش ہوجائے اور اس کے بعد دھوپ والے دن شروع ہوجائیں تو ایسے ماحول میں اس بیماری کے جراثیم پھیل جاتے ہیں۔ اور جھلساؤ کی بیماری یقینی ہو جاتی ہے۔ البتہ ہلکی بوندا باندی اور موسم کی خنکی چنے کے لئے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتی۔

اقسام:

اس وقت چنے کی اہم قسام میں فور 91، پنجاب 2008، ونہار 2000 ،CM-2008 ،بٹل 98- اور بلکسر 2000 وغیرہ شامل ہیں۔ کل رقبے کا 85 فیصد کالا اور 15 فیصد پر سفید چنا کاشت کیا جارہا ہے۔ اہم اقسام کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔

پنجاب 2008

یہ درمیا نے براؤن رنگ کے موٹے دانوں والی کالے (دیسی) چنے کی تازہ ترین قسم ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت 25 تا 30 من فی ایکڑ تک ہے۔ جوکہ موجودہ تمام اقسام کے مقابلے میں 25 تا 30 فیصد زیادہ ہے۔ پہلے پانی کے بعد پیلے پن کی بیماری کے خلاف قوتِ مزاحمت رکھنے والی قسم ہے۔ اکھیڑا اور جھلساؤ کے خلاف بھی قوتِ مزاحمت رکھتی ہے۔ بارانی اور آبپاشی علاقوں کے لئے یکساں موزوں ہے۔ نور91- باریک دانوں والے کابلی یا سفید چنے کی قسم ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت 25 من فی ایکڑ تک ہے۔ یہ بیماری کے خلاف قوتِ مزاحمت رکھنے والی ایس شاندار قسم ہے جو بارانی اور آبپاشی علاقوں کے لئے یکساں موزوں ہے۔

بٹل 98

ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ میں تیارکی گئی موٹے دانوں والے کالے چنے کی قسم ہے ۔ اس کے دانے تمام اقسام سے موٹے ہوتے ہیں۔ اس لئے مارکیٹ میں اس کا بھاؤ تمام اقسام سے زیادہ ملتاہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت 33.6 من فی ایکڑ ہے یہ بیماری کے خلاف درمیانی قوتِ مزاحمت رکھنے والی قسم ہے۔ بارانی اور آبپاشی علاقوں کے لئے یکساں موزوں ہے۔

بلکسر 2000

دیسی چنے کی یہ قسم بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال نے دریافت کی ہے اس لئے تھل اور خصوصاً پوٹو۔ہار کے علاقہ جہاں جھلساؤ کی بیماری زیادہ حملہ آور ہوتی ہے کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ نیز یہ قسم مرجھاؤ کی بیماری کے خلاف بھی قوتِ مدافعت رکھتی ہے اس کی پیداواری صلاحیت 30.4 من فی ایکڑ ہے۔

ونہار 2000

تھل اور پوٹھوہار کے علاقے کے لئے خصوصی قسم ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت 25 من تک ہے۔یہ بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال کی قسم ہے

پنجاب 2000

موٹے دانوں والے کالے چنے، قدرے زیادہ نمی میں زیادہ پیداوار دیتی ہے۔ یہ جھلساؤ اور مرجھاؤ کی بیماریوں اور پیلے پن کے خلاف قوت درمیانی مدافعت رکھتی ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت 35.4 من فی ایکڑ ہے ۔ یہ بھی بارانی اور آبپاشی علاقوں کے لئے یکساں موزوں ہے۔

سی ایم 98

دیسی ( کالے ) چنے کی قسم ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت 30 تا 35 من فی ایکڑ تک ہے۔ پہلے پانی کے بعد پیلے پن کی بیماری کے خلاف قوتِ مزاحمت رکھنے والی قسم ہے۔ یہ بارانی اور آبپاشی علاقوں کے لئے یکساں موزوں ہے۔

تھل 2006

موٹے دانوں والی قسم ہے۔ پیداواری صلاحیت 30 تا 35 من فی ایکڑ تک ہے۔ جھلساؤ اور مرجھاؤکی بیماری کے خلاف کم قوتِ مزاحمت رکھنے والی قسم ہے۔ یہ تھل کے علاقوں میں نومبر کے پہلے دو ہفتوں کے دوران کاشت کے لئے موزوں ہے۔

سی ایم 2008

یہ کابلی چنے کی نئی قسم ہے۔ اس کی پیداوار ی صلاحیت 30 من فی ایکڑ تک ہے۔ پہلے پانی کے بعد پیلے پن کی بیماری کے خلاف قوتِ مزاحمت رکھتی ہے۔ یہ بارانی اور آبپاشی علاقو ں کے لئے یکساں موزوں ہے۔

بیج کی دستیابی:

اس کی تازہ ترین اقسام کا بیج محدود مقدار میں ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد سے اکتوبر کے دوران مل سکتاہے۔

کھادیں اور خوراکی اجزا:

زمینی زرخیزی اور اقسام کے فرق کے علاوہ طریقہ کاشت، ذریعہ آبپاشی اور زمینی ساخت جیسے تغیرات سے کھادوں کی مقدار میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ اچھی زمینوں میں اگاؤ کے بعد نائٹروجن کا استعمال چنے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔ آبپاش علاقوں میں بیج کو جراثیم ٹیکہ لگا کر کاشت کریں تو ابتدائی بڑھوتری اچھی ہوتی ہے اور فاسفورس کھاد کی کافی بچت ہوسکتی ہے۔ مختلف علاقوں میں کھاد استعمال کرنے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

الف - تھل ایریا:

تھل کے نیم آبپاشی علاقے میں کم از کم 9 کلونا ئٹروجن اور 23 کلوفاسفورس گرام فی ایکڑ ڈالی جائے۔ دوسرے لفظوں میں ایک بوری ڈی اے پی فی ایکڑ بجائی کے وقت ڈرل کے ساتھ استعمال کی جائے۔ آبپاش تھل میں ڈیڑھ بوری ڈی اے پی کے ساتھ نصف تا ایک بوری یوریا بھی استعمال کی جائے۔

ب - بارانی علاقے:

بارانی کاشت کی صورت میں ڈی اے پی یا اس کے متبا دل ساری کھاد بوائی کے وقت ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اگر فصل بہت کمزور ہوتو تھوڑی مقدار میں اضافی نائٹروجن اگاؤ کے بعد بارش کی صورت میں پہلے ڈیڑھ ما ہ کے اندر اندر ڈالی جاسکتی ہے۔

آبپاش علاقے:

آبپاشی علاقوں میں ڈیڑھ بوری ڈی اے پی بجائی کے وقت اور آدھی بوری یوریا یا ڈیڑھ بوری ٹرپل سپرفاسفیٹ + آدھی بوری یوریا پہلی آبپاشی کے ساتھ ڈالی جائے۔ یا چار بوری سنکل سپر فاسفیٹ فی ایکڑ بجائی کے وقت استعمال کرنی جاہیئے۔

د - ہارمون کا استعمال:

اگر چنے کی فصل پانی کی قلت یا لیٹ کاشت ہونے کی وجہ سے چھوٹے قد کی ہو تو پھول آوری کے دوران نشونما اور پھول آوری کو تحریک دینے والے مرکبات ( گروتھ ہارمون) سپرے کرنے سے فصل چنے سے بھر جاتی ہے۔ یہ مرکبات سپرے کے بعد چنے کی آبی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ اگر چنے کا قد پہلے ہی زیادہ ہوتو ہارمون استعما ل نہ کیے جائیں۔

شرح بیج اور پودوں کی تعداد:

چنے کی موٹے دانوں والی اقسام کا 30تا35 کلو گرام صاف ستھری، خالص اور صحت مند بیج فی ایکڑ استعمال کر نا چا ہیئے تاکہ کھیت میں پودوں کی مطلوبہ تعداد پوری ہو سکے۔ بھرپور پیداوار کے لئے کالے چنے کے کافی ایکڑ 85تا 90 ہزار اور سفید چنے کے 85-80 ہزار پودے ہونے ضروری ہیں۔اگر بیج کی گریڈنگ یادرجہ بندی کرکے صر ف موٹے دانے کاشت کئے جائیں تو شروع میں ہی صحت مند پودے اگتیں ہیں۔ ابتدائی نشونما اچھی ہونے کی وجہ سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتاہے ۔ قوتِ مدافعت رکھنے والی اقسام کی نوے فیصد اگاؤ والا بیج منتخب کریں۔ اس وقت پنجاب میں صرف دو فیصد رقبہ اچھے بیج سے کاشت ہورہاہے۔

وقتِ کاشت:

چنے شمالی پنجاب( کے اضلاع، جہلم ، پنڈی ، گجرات اور ناروال) وسط ستمبر تا وسط اکتوبر کے دوران کاشت کئے جائیں۔اٹک اور چکوال سائیڈ میں ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے وسط میں ، تھل ایریا میں اکتوبر کے دوران اور وسطی و جنو۔ بی پنجاب کے آبپاشی علاقوں میں وسط اکتوبر سے وسط نومبر تک کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔آبپاش علاقے میں زیادہ اگیتی فصل عموماً بڑا قد کرجاتی ہے۔ اس لئے وسطی پنجاب کے علاقوں میں نومبر کے شروع میں کاشت کریں تو چنے کی بہتر فصل ہوسکتی ہے۔ وتر زیادہ خشک ہوتو بیج کو چھ کھنٹے تک پانی میں بھگو کر کاشت کریں۔

طریقہ کاشت:

اگرچہ چنے کی کاشت چھٹے سے بھی کی جاسکتی ہے لیکن بہتر نتائج کے لئے چھٹے کی بجائے ڈرل سے کاشت کو ترجیح دی جائے۔ چنے کی کاشت بذریعہ ڈرل یا پور کرنی چاہئے تاکہ بیج مناسب گہرائی میں وتر میں گرے تھل کی بارانی کاشت کی صورت میں قطاروں کا درمیانی فاصلہ 30 سینٹی میڑ (ایک فٹ) اور پودوں کا 15 سینٹی میٹر (6 انچ) ہونا چاہئے آبپاش علاقے میں چنے کی نشونما زیادہ ہوتی ہے اس لئے یہاں لائنوں کا فاصلہ ڈیڑھ فٹ اور پودوں کا ہمی فاصلہ 8 تا 9 انچ رکھا جائے۔


Related Websites

زرعی کتابیں Agriculture Ebooks Agriculture Videos Agri TripleIS Grow TripleIS

Related Apps

Kissan Dost Agri Books (URDU) Agri Digital Library Agri Trade Directory Job Profile

Social Media

Youtube Facebook Instagram Twitter Linkedin Pinterest

Quick Link

  • Price
  • Weather
  • Contact Us
  • زرعی رہنمائی

+92 (213) 2428911-13
کراچی ، پاکستان
support@par.com.pk
  • Homepage
  • Cotton
  • Sugar
  • Wheat
  • Price
  • Weather
  • Contact Us
  • زرعی رہنمائی

© کاپی رائٹ پاکستان زراعت ریسرچ 2020 ۔ تمام حقوق محفوظ ہیں