392 954 118 1.9k
Show Menu
  • Home
  • Cotton
  • Sugar
  • Wheat
  • Price
  • Weather
  • News
  • خبریں
  • Contact Us
  • زرعی رہنمائی
Read Later What is this ?

Eos decore disputando expetenda definitiones duo paulo193

Eos decore disputando expetenda definitiones duo paulo193

Eos decore disputando expetenda definitiones duo paulo193

Eos decore disputando expetenda definitiones duo paulo193

Eos decore disputando expetenda definitiones duo paulo193

Youtube Facebook Twitter Linkedin Pinterest Instagram

زرعی رہنمائی


ربیع کے چارے 17-2016

PAR Jul 14, 2020 193

جڑی بوٹیوں کی تلفی کا چارٹ

PAR Jul 14, 2020 193

بائیوٹیکنالوجی کیوں ضروری ہے

PAR Jul 14, 2020 193

کھادوں کے استعمال کی موثر حکمت عملی

PAR Jul 14, 2020 193

نامیاتی کاشتکاری (Organic farming)

PAR Jul 14, 2020 193

پاکستان کے کاشتکاروں کے لئے گندم کی اچھی پیداوار لینے کے لئے چند زرین اصول

PAR Jul 14, 2020 193

کپاس کے نقصان دہ کیڑوں کی پہچان اور نوعیت

PAR Jul 14, 2020 193

گندم کی جڑی بو ٹیوں کی تلفی

PAR Jul 14, 2020 193

ڈائمیٹ

PAR Jul 14, 2020 193

کینولا سرسوں کی کاشت

PAR Jul 9, 2020 193

بہاریہ مکئی کی پیداوار پر شرح بیج اور قطاروں کے درمیانی فاصلے کا اثر

PAR Jul 9, 2020 193

پودوں میں زنک کی کمی اور انسانی صحت پر اثرات

PAR Jul 9, 2020 193

سرسوں, کینولا اور رایا کی جڑی بوٹیوں کا تدارک

PAR Jul 9, 2020 193

پاکستان میں روڈز گراس کی کاشت

PAR Jul 9, 2020 193

ایم او پی (میوریٹ آف پوٹاش)

PAR Jul 9, 2020 193
پچھلا 1 2 3 4 5 6 7 8 اگلا

ربیع کے چارے 17-2016

PAR Jul 14, 2020 193

اہمیت و تعارف :

پنجاب میں عام طور پر جانوروں کے لئے سبز چارے کی قلت ہے۔ جب کہ مویشیوں کی نشوونما کے لئے سبز چارے کی اتنی ہی ضرورت و اہمیت ہے جتنی کہ انسانی زندگی کے لئے اچھی غذاکی۔ پنجا ب میں جانوروں کی تعداد سات کروڑ سے زائد ہے۔ جن میں سالانہ مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ جس کے لئے چارے کی موجودہ فراہمی برقرار رکھنے کے لئے چارے کی پیداوار میں اضافہ ضروری ہے۔ پاکستان میں چارہ جات کے کل رقبے کا 80 فیصد پنجاب میں کاشت ہوتاہے۔ جہاں تقریباً اڑتالیس لاکھ ایکڑ رقبہ پر چارہ جات کاشت ہوتے ہیں۔جس میں سے ربیع کے چارے کا رقبہ تقریباً ساڑھے 22 لاکھ ایکڑ ہے۔ پنجاب میں سبز چارے کی کل پیداوار 110 کروڑ من حاصل ہورہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2020 میں ہماری آبادی 217 ملین ہوجائے گی۔ جسے موجودہ ڈیری مصنوعات کی پیداوار سے زیادہ ضرورت ہوگی۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی دودھ اور گوشت کی ضرورت پوری کرنے کےلئے ہمیں چارے کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہوگا۔ چارے کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ کسانوں تک نئی اقسام کا بیج اور جدید فنی مہارتوں کا نہ پہنچناہے۔ جانوروں کے لئے ہمارے ہاں سب سے بڑی غذا سبز چارہ ہے ۔ غذائی اور نقد آور فصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چارے کی پیداوار میں اضافہ کے لئے اہم رقبہ میں اضافہ نہیں کر سکتے ۔ اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے۔ کہ ہم ایسی منصوبہ بندی کریں ۔ جس سے چارہ جات کی فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکے۔ تجربات سے یہ ثابت ہے کہ اگر ہم زمین کا صحیح انتخاب و تیاری ۔ اچھا بیج۔ مناسب اور متناسب کھادوں کا استعمال ۔ بروقت کاشت۔ آبپاشی۔ برداشت۔ دیگر زرعی عوامل اور ماہرین کی سفارشات پر عمل کریں۔ توچارے کی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں دو سے تین گنا اضافہ کرسکتے ہیں۔ لہٰذا چارے کی موجودہ کمی کو پورا کرنے اور جانوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو چارہ مہیا کرنے کےلئے ہمارے ہاں چارے کی فصلوں کی پیداوار مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے ربیع کے چارہ جات میں سب سے اہم فصلات بالتر تیب برسیم، لوسرن ، جئی اور رائی گھاس ہیں۔

گوشوارہ نمبر 1: پنجاب میں ربیع کے چارہ جات کا رقبہ ، پیداوار اور اوسط پیداوار

سال رقبہ کل پیداوار اوسط پیداوار
ہزار ہیکڑ ہزار ایکڑ ہزارٹن کلو گرام فی ہیکڑ من فی ایکڑ
2011-2010 959.45 2370.90 29222.0 30456 330.21
2012-2011 911.10 2251.50 27467.9 30147 326.86
2013-2012 898.10 2219.40 26612.0 29629 321.25
2014-2013 887.30 2192.60 26497.5 29863 323.78
2015-2014 886.20 2189.80 26134.4 29491 319.75

(1) برسیم کی کاشت

برسیم موسم ربیع کا ایک نہایت اہم اور غذائیت سے بھر پور چارہ ہے۔ عموماً اسے اکیلا ہی لیکن بعض اوقات جئی، سرسوں اور رائی گھاس کے ساتھ ملا کر بھی کاشت کیا جاتاہے۔ یہ ایک پھلی دار فصل ہے اس کی جڑوں کی گانٹھوں میں ہوا سے نائیڑوجن حاصل کرکے پودے کے استعمال میں لانے والے جراثیم موجود ہوتےہیں۔ اسی لئے برسیم کاشت کرنے سے زمین کی زرخیزی بڑھ جاتی ہے۔ برسیم کے کھیتوں میں اگلے سال کاشت کی جانے والی گندم کی فصل زرخیزی بڑھنے اور جڑی بوٹیوں سے پاک ہونے کی وجہ سے 5 سے 10 من فی ایکڑ زیادہ پیداوار دیتی ہے۔ زرعی ماہرین کی سفارشات پر بروقت عمل کرکے اس فصل سے 1000 تا 1250 من سبز چارہ (40 سے 50 ٹن) فی ایکڑ حاصل کیا جاسکتاہے۔ چونکہ یہ فصل نومبر سے مئی تک چارے کی چار سے بھر پور کٹائیاں دیتی ہے۔ اس لئے اس کی اعلی خصوصیات کی بنا پر اسے پاکستان میں ربیع کے چارہ جات کا بادشاہ تسلیم کیا جاتاہے۔ ربیع کے چاروں کے کل رقبے کے 77فیصد پر برسیم کاشت کیا جاسکتاہے۔

اقسام :

برسیم کی منظور شدہ اقسام پر برسیم ، لیٹ فیصل آباد، انمول اگیتی برسیم اور پچھیتی برسیم صف اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگیتی برسیم جلد چارہ مہیاکرتی ہے اورپچھتی برسیم ایک اضافی کٹاتی دے کر چارے کی قلت پر قابو پاتی ہے۔ جبکہ انمول 15 اکتوبر کی کاشت فصل 30 جون تک سات کٹائیاں دیتی ہے۔ سپر برسیم بھی پچھیتی قسم ہے اور 31 مئی تک چارہ فراہم کرتی ہے۔

آب و ہوا :

برسیم کی کامیابی کاشت ،بہترین نشوونما اور بھر پور پیداوار کے لئے معتدل آب و ہوا کی ضورت ہوتی ہے۔ کسی حد تک گرم آب و ہوا میں بھی اس کی کاشت کی جاسکتی ہے۔ مگر شدید سردی یعنی دسمبر اور جنوری میں اس کی بڑھوتری قدرے کم ہوجاتی ہے۔ پنجاب کے تمام آبپاش علاقوں میں اس کی کاشت با آسانی کی جاسکتی ہے۔

زمین اور اس کی تیاری :

یہ فصل بھاری میرا زمینوں پر سب سے زیادہ پیداوار دیتی ہے۔ لیکن قدرے ہلکی زمینوں پر بھی ٹھیک نشوونما پاتی ہے اگر آب پاشی کی سہولت میسر ہوتو یہ درمیانے درجے کی کلر اٹھی زمین پر بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ زمین تین چار دفعہ ہل اور سہاگہ چلا کر اچھی طرح نرم اور بھر بھری کر لینی چاہئے۔ زمین کا ہموار ہونا نہایت ضروری ہے۔ ورنہ نشیبی جگہوں پر پانی کھڑارہنے اور اونچی جگہ پر پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے فصل کا اگاو متاثر ہوگا۔ اور نتیجیتاً پیداوار میں کمی آئے گی۔

شرح بیج :

برسیم کی کاشت کےلئے 8 کلو گرام فی ایکڑ صاف ستھرا معیاری صحت مند اور جڑی بوٹیوں سے پاک بیج استعمال کریں۔ جئی کے ساتھ مخلوط کاشت کی صورت میں برسیم کا بیج 6 کلو گرام اور جئی کا بیج 10 تا12 کلو گرام فی ایکڑ استعمال کریں جبکہ سرسوں کے ساتھ مخلوط کاشت کی صورت میں 8 کلو گرام بیج برسیم اور آدھ کلو گرام بیج سرسوں فی ایکڑ استعمال کریں۔ رائی گھاس کے ساتھ مخلوط کاشت کی صورت میں 07 کلو گرام بیج برسیم اور ایک کلو گرام بیج رائی گھاس فی ایکڑ استعمال کریں۔ کاسنی کے بیج کی ملاوٹ کی صورت میں برسیم کے بیج کو 5 فیصد نمک کے محلول میں بھگو نے سے کاسنی اوپر تیر آتے ہیں ۔ جن کو بآسانی علیحدہ کیا جاسکتاہے۔

وقت اور طریقہ کاشت :

برسیم کی کاشت کا بہترین وقت یکم سے وسط اکتوبر ہے ۔ تاہم زمیندار اپنی ضرورت اور حالات کے مطابق اس کی کاشت نومبر کے آخر تک جاری رکھتے ہیں۔ اگیتی کاشت کرنے سے جڑی بوٹیوں خصوصاً اٹ سٹ اگنے کا احتمال ہوتاہے۔ جو پیداوار میں کمی کا موجب ہوسکتی ہے۔ دیر سے کاشت کرنے سے کم کٹائیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ فصل کو بروقت کاشت کریں۔

کھادوں کااستعمال

چارہ برسیم کی کاشت کےلئے تمام کھادیں بوائی کے وقت استعمال کریں۔ کھادوں کی مقدار کاتعین درج ذیل گوشوارہ کے مطابق کریں۔

گوشوار ہ نمبر2 :

غذائی عناصر کلو گرام فی ایکڑ کھاد کی مقدار بوریوں میں فی ایکڑ
نائٹروجن فاسفورس
13 36 1.5 بوری ڈی اے پی یا چار بوری سنگل سپر فاسفیٹ (18 فیصد)+آدھی بوری یوریا یا ڈیڑھ بوری ٹرپل سپر فاسفیٹ +آدھی بوری یوریا یا ایک بوری نائٹروفاس + تین بوری ایس ایس پی (18 فیصد)

آبپاشی :

بوائی بذریعہ چھٹہ کھڑے پانی میں کی جاتی ہے۔ پہلا پانی بوائی کے ایک ہفتہ بعد دینا چاہئے۔ بعد میں پانی حسب ضرورت لگاتے جائیں۔ شدید سردی اور کورے کے دنوں میں ہر ہفتہ عشرہ بعد ہلکا سا پانی لگانا فائدہ مند ہوتاہے۔ اس طرح فصل کورے اور سردی کے منفی اثرات سے کافی حد تک محفوظ رہتی ہے۔

برسیم کا جراثیم ٹیکہ :

بیج کو جر اثیمی ٹیکہ لگاکر کاشت کرنے سے پودے کی ہو ا سے نائٹروجن حاصل کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔اور زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ نصف لیٹر پانی میں سوگرام چینی کے محلول میں جراثیمی پیکٹ ڈال کر آٹھ کلو برسیم کے بیج کے ساتھ اچھی طرح ملائیں ۔ اور سایہ دار جگہ پر بیج قدرے خشک ہونے پر کھڑے پانی میں جلدی چھٹہ کریں۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکہ کی افادیت بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر کہیں ایسا ٹیکہ میسر نہ ہو اور اگر کسی کھیت میں برسیم کی کاشت پہلی بارکی جارہی ہو تو دو من فی ایکڑ برسیم کی مفید جراثیم والی مٹی اس کھیت سے لا کر ڈال دی جائے جہاں پچھلے سال برسیم کاشت کیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ یا د رہے کہ یہ مٹی بیمار شدہ کھیت سے نہ لی گئی ہو ۔ شعبہ بیکڑیا لوجی ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد، نیاب فیصل آباد اور قومی زرعی تحقیقاتی ادارہ اسلام آباد سے برسیم کے بیج کا ٹیکہ حاصل کرکے محکمانہ ہدایات کے مطابق استعمال کریں۔

مخلوط کاشت :

برسیم کے ساتھ جئی ، گوبھی سرسوں اور رائی گھاس کی کاشت کرنےسے خصوصاً چارے کی پہلی کٹائی کی پیداواری صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ جئی کے ساتھ مخلوط کاشت کرنے کی صورت میں تیار کھلے کھیت میں جئی کا بیج بحساب 10سے 12 کلو گرام فی ایکڑ بکھیر کرسہاگہ دے لیں۔ اور بعد میں کھیت میں کیارے بنا کر کھڑے پانی میں برسیم کا چھٹہ بحساب 6 کلو گرام فی ایکڑ کریں۔ سرسوں کے ساتھ مخلوط کاشت کی صور ت میں 8 کلوگرام بیج برسیم اور آدھ کلو گرام بیج سرسون فی ایکڑ استعمال کریں۔ جبکہ رائی گھاس کے ساتھ مخلوط کاشت کی صورت میں 7 کلو گرام بیج برسیم اورایک کلو گرام بیج رائی گھاس فی ایکڑ استعمال کریں۔

برسیم کے کیڑے اورا ن کا تدارک :

چارے والی فصل پر زہر پاشی نہیں کرنی چاہئے البتہ اگر فصل کو بیج کے لئے رکھنا مقصود ہو تو مختلف کیڑوں کے کنٹرول کےلئے گوشوارہ نمبر 5 ملا حظہ فرمائیں ۔ اگر فصل کو شروع اکتوبر میں کاشت کیا جائے ۔ موسمی حالات سازگار رہیں اور دیگر زرعی عوامل اور محکمانہ سفارشات پر پورا عمل کیا جائے تو چارے کی پیداوار 1000 من فی ایکڑ تک آسانی سے لی جاسکتی ہے۔


جڑی بوٹیوں کی تلفی کا چارٹ

PAR Jul 14, 2020 193

جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے 300 زہریں پاس ہوچکی ہیں۔ سہولت کے لئے اس چارٹ میں صرف ان زہروں کا ذکر کیا گیاہےجوزیادہ موثر پائی گئی ہیں اور مارکیٹ میں دستیاب بھی ہیں۔

نام فصل جڑی بوٹیاں نام دوائی شرح استعمال فی ایکڑ
گندم جنگلی جئی، سٹی بوٹی اور گھاس خاندان کی دیگر جڑی بوٹیاں دمبی سٹی، جنگلی جئی، سرمچوگھاس، بلی بوٹی اور دیگر گئی جڑی بوٹیاں لیہلی ،لیہ ، ترکنڈی پالک سمیت چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں لیہلی ، جنگلی مٹر، ترکنڈی پالک سمیت چوڑے پتوں والی بوٹیاں ایگزیل ( سی ، ای) 050 اٹلانٹس (ڈبلیو، جی) 3.6 بکٹرل سپر (ای، سی) 60 کلین ویو (ای،او) 15 330 ملی لٹر 45 تا 55 یو م کے اندر وتر زمین پر سپرے کریں۔ 160 گرام 30 تا40 یوم کے اندر وتر کی حالت میں سپرے کریں۔ 300 ملی لٹر 30 تا40 یو م کے اندر اندر وتر حالت میں سپرے کریں۔ 400 ملی لٹر 35 تا 40 یو م کے اندر اندر وتر کی حالت میں سپرے کریں۔
چاول ڈیلا، سوانکی ، ڈھنڈن ، گھوئیں، بھوئیں اور چوڑے پتوں والی ڈیلا کے سواباقی تمام جڑی بوٹیاں بشمول ڈھڈن اور سوانکی وغیرہ سوانکی ، ڈھڈن ، ڈیلاسمیت بیشتر جڑی بوٹیاں تلف کرتی ہے۔ کیلیون (ڈبلیو ، جی ) 50 مچیٹی (ای، سی) 60 نومینی یا کلوور (اس، سی) 10 60 تا80 گرام نرسری منتقل کرنے کے 3-5 یوم بعد بذریعہ شکیر استعمال کریں۔ 800 ملی لیٹر 3-5 یوم بعداز منتقل نرسری دھان بذریعہ شکیراستعمال کریں۔ 1000 ملی لٹر منتقل کے دو ہفتے بعد وتر حالت میں سپرے کی جائے۔
کپاس ڈیلا، تاندلہ ، مدھانہ ، اٹ سٹ اور دیگر تما م جڑی بوٹیاں اٹ سٹ، ڈیلا ، چولائی ، قلفہ، مدھانہ اور سوانکی گھاس وغیرہ تما م جڑی بوٹیاں ماسوائے ڈیلا، بھکھٹرا ، تاندلہ اور محبت بوٹی فل کلیر ( ای، سی) 50 ڈوآل گولڈ (ای، سی) 960 پینڈی میتھالیں ( ای ،سی) 33 500 ملی لٹر ایک دن بعد از کاشت وتر کھالیوں پر سپرے کریں۔ 800 ملی لٹر ایک دن بعد از کاشت وتر کھالیوں پر سپرے کریں۔ 1000ملی لٹر ایک دن بعد از کاشت وتر کھالیوں پر سپرے کریں
کماد اٹ سٹ ، سوانکی، ڈیلا، پارتھینیم ، چبھڑ اور دیگر جڑی بوٹیاں ڈیلا، اٹ سٹ، سوانکی ، مدھانہ، چبھڑاور دیگر جڑی بوٹیاں کھبلی ، اٹ سٹ، سوانکی اور چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں فلسٹو گولڈ (اس ،سی) 550 ڈوآل گولڈ ( ای، سی ) 960 کلیو ( اس ،سی ) 33.6 1000 ملی لٹر بجائی کے ایک ماہ کےاندر اندر وتر حالت میں سپرے کریں۔ 800 ملی لٹر 1 تا2 یوم بعدا ز کاشت وترزمین پر سپرے کریں۔ 35+500 ملی لٹر ایک ماہ کے اندر اندر وترحالت میں سپرے کریں۔
مکئی ڈیلا کے سوااگی ہوئی تما م جڑی بوٹیوں کے موثر خاتمہ کے لئے اٹ سٹ، ڈیلا ، ہاتھو، چولائی، قلفہ اور دیگر تمام جڑی بوٹیاں ڈیلا اور بعض چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں پرائی میکسٹر اگولڈ ( اس سی) 720 فلسٹو گولڈ ( اس ، سی) 550 آرکس گولڈ ( ڈبلیو، ڈی،جی) 80 800 ملی لٹر پٹڑیوں پر کاشت کرنے کے ایک دن بعد سپرے کریں۔ 500 ملی لٹر پٹڑیوں پر کاشت کرنے کے دو ہفتے کے بعد سپریں کریں۔ 20 گرام پٹڑیوں پر کاشت کرنے کے ایک دن بعد سپرے کریں۔
آلو ڈیلا کے علاوہ باقی تمام جڑی بوٹیوں کے موثر خاتمہ کے لئے اگی ہوئی تمام جڑی بو ٹیوں کے فوری خاتمہ کے لئے ڈیلا سمیت تمام جڑی بوٹیوں کے لئے زینکر (ڈبلیو، پی) 70 گرامکسون (ای ، سی) 20 ڈوآل گولڈ ( ای، سی) 960 250 گرام کاشت کے 1 تا 2 دن بعد وتر میں سپرے کریں۔ 1.0 لٹر 8-10 دن بعد از کاشت مگر اگاو سے قبل وتر میں سپرے کریں۔ 800 ملی لٹر فی ایکڑ کاشت کے 1 تا2 دن بعد وتر میں سپرے کریں۔
سبزیات (مشورہ کرکے) ڈیلاسمیت تمام جڑی بوٹیوں کے موثر خاتمہ کےلئے ڈیلا ، تاندلہ کے علاوہ باقی زیادہ تر بوٹیوں کے لئے ڈیلا سمیت اگی ہوئی تمام بو ٹیوں کے لئے ڈوآل گولڈ ( ای ،سی) 960 پینڈی میتھالین ( ای ،سی ) 33 گرامکسون یا راونڈاپ 60 تا100 ملی لٹر فی ایکڑ ٹینکی (15 لٹر والی ) اگاو سے پہلے سپرے کریں۔ 100 تا150 ملی لٹر فی ٹینکی (15 لٹر والی ) اگاو سےپہلے سپرے کریں۔ 1.0 لٹر 25 تا 30 یوم بعد فصل کو بچا کر لائنوں کے درمیان میں سپرے۔
گراسی لان، پبلک پارک ڈیلا اور بیشتر چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیوں کے لئے ڈیلاکے علاوہ باقی زیادہ تر موسمی بوٹیوں کے لئے مینی ، ہزار دانی اور چوڑے پتوں والی بیشتر جڑی بوٹیوں کے لئے سن سٹار یا آر کس گولڈ میڑی بوزین (ڈبلیو ، پی) 70 سٹارین ایم یا بکڑل سپر 5 گرام فی ٹینکی ( فی کنال ) اگاو مکمل ہونے پر وتر میں سپرے کریں۔ 25 تا30 گرام فی ٹینکی ( فی کنال ) اگاو مکمل ہونے پر وتر میں سپرے۔ 50 ملی لٹر فی ٹینکی ( فی کنال ) اگاو مکمل ہونے وتر میں سپرے کریں۔

بائیوٹیکنالوجی کیوں ضروری ہے

PAR Jul 14, 2020 193
جنیاتی طور پر پیدا کردہ فصلوں کے ساتھ جو تحفظ کا احساس ہوتا ہے وہ تمام دوسرے فصلوں میں نہیں ہے کیونکہ تحفظ کو مانپنے کیلئے جو طریقہ کار اپنایا نہیں جاتا ۔سیفٹی کا عمل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ فصلوں میں وہ تمام فوائد موجود ہیں جو دوسری روائتی فصلوں کا غذاؤں میں ہوتے ہیں اور اس میں زیادہ خدشات بھی نہیں ہیں۔ ہمارے مشاہدے میں بات نہیں آئی کہ بائیوانجنیئرغذائیں اب مارکیٹ میں ہیں اور کوئی بھی انسانی صحت سے متعلق خدشات نہیں ہیں اور نہیں ان میں کسی تحفظ کی کمی ہے ان فصلوں کے مقابلے میں جو رائتی طریقوں سے پیدا کی جاتی ہیں ۔سائنسدان اس ٹیکنالوجی کے طریقہ سے مطمئن ہیں۔جو جی ایم غذاؤں کو جانچنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے ۔اس طریقہ کار کو کمرشل استعمال کیلئے بھی پاس کیا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی برائے تبدیلی جنس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یا ایک سے زائد جانے پہچانے جینز کے گرد گھومتی ہے یہ جینز برانس جینک پودوں کو روایتی طریقوں پیدا کردہ پودوں کے مقابلے میں زہریلے مواد کو جانچنے کی زیادہ صلاحیت پیدا کرتا ہے جو اس کی وجہ اضافی خصوصیات ہیں۔ 1994 میں پہلی فصل ٹماٹروں کی تھی جسے دیر سے پکنے کے عمل کے ذریعے کاشت کیا گیا اور پھر اس کی کھپت ترقی یا فتہ ممالک میں کی گئی ۔اس وقت سے مختلف اقسام کی فصلوں کو اس عمل کے ذریعے حاصل کیا جارہا ہے۔ایسی فصلوں کو نہایت تحفظ کے احساس کے ساتھ کھایا جارہا ہے۔ہماری غذا میں ان فصلوں کے متعارف کروانے سے پہلے تحفظ کے متعلق قانون سازی ضروری ہے جی ایم کی فصلیں جدید بائیوٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ترقی پارہی ہیں۔ اس وجہ سے یہ سوال پیدا ہواکہ کیا یہ فصلیں ان فصلوں سے زیادہ محفوظ ہیں جو روایتی زرعی طریقوں حا صل کی جاتی ہیں روایتی اور جی ایم پودوں کی مقصد تقریباً ایک جیسا ہے کہ بہتر اور معیاری پودے پیدا کئے جائیں ۔جن میں اضافی خصوصیات ہوں تاکہ کھانے کے قابل بنایا جاسکے فرق صرف اتنا ہے کہ اس خصوصیت کو کس طرح حاصل کرنا ہے۔ روایتی کاشتکاری میں ہزاروں کی تعداد میں جینز دوپودوں میں مکس کئے جاتے ہیں ۔تا کہ مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکیں ،جدید بائیوٹیکنالوجی کے ساتھ اب ایک ہی خصوصیت کے یا اضافی خصوصیت کے ھامل پودے حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ پودوں کی بائیوٹیکنالوجی آپ کو اس قابل بناتی ہے کہ آپ ایک خصوصیت کے ھامل پودے حاصل کرسکیں اس سے بہتر نتائج کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ جن پودوں بائیوٹیکنالوجی کے طریقہ استعمال ہورہا ہیں وہ کاشتکاری کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کے پودے میں مطلوبہ خصوصیت میں بہتری بھی پیدا کی جاسکے ۔ بائیوٹیکنالوجی کے بہتر کنٹرول کی وجہ سے سائنسدانوں کی بہت بڑی تعداد متعارف کروائی جانے والی اضافی خصوصیات کی جانچ پڑتال کرسکتے ہیں۔ تاریخ میں کسی بھی دوسری خوراک سے زیادہ ٹیسٹ جی ایم فصلوں کے بارے کئے گیے ہیں ان کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے صحت کے ان اصولوں کے مطابق جانچا جائے جو ڈبلیو ایچ او،فوڈ اینڈی ایگریکلچر آرگنائزیشن اور آرگنائزیشن برائے اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈولپمنٹ جیسی تنظیموں نے فراہم کئے ہیں۔

قواعد وضوابط ذیل ہیں

جی ایم فصلوں کواسی طریقے سے فراہم کیا جائے جیسا کہ دوسرے طریقوں سے حاصل کئے گئے پودوں میں کیا جاتا ہے اس کے خطرات بھی اذرکات ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے رویاتی کاشتکاروں میں ہوتے ہیں۔ پیداوار کوپہلے الرجی پیدا کرنے کی خصوصیت زہریلے مواد اور غذائیت کے اعتبار سے پرکھا جائے اس کے لئے وہ طریقہ اپنا کئے جائیں جن سے ان کو حاصل کیا گیا ہے۔ بائیوٹیکنالوجی سے حاصل شدہ کسی بھی فصل میں اضافہ کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے منظور کروایا جائے۔ فوڈ سیفٹی کو مانپنے کیلئے جی ایم کی نسلوں سے خوراک کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ جی ایم فصلوں کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے حکومتی اور پرائیوٹ اداروں کوچاہیے کہ اس کی نہایت سنجیدگی کے ساتھ پڑتال کریں آزادانہ طور پر ٹاکسیالوجی ،الرجی ٹیسٹاور غذائیت کے اعتبار سے دوسرے سائنسی اصولوں پر پرکھا جائے۔ خوراک میں تحفظ کومانپنے کیلئے انہیں قوائد وضوابط پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ جو مختلف کمپنیوں نے پر ملک میں بنائے ہوئے ہیں۔فوڈ پراڈکٹ کا تجزیہ یہ ٹاکس کالوجی غذائیت اورالرجی ڈیٹٓا شامل ہے۔ چند ایک سوالات ہوسکتے ہیں۔

کیا جی ایم فوڈز روایتی حریف رکھتی ہیں جو کہ محفوظ استعمال کی تاریخ رکھتی ہو۔؟

کیاخوراک میں قدرتی طورپر پائی جانے والی زہریں یا الرجیز میں تبدیلی ہوہی ہے۔؟

کیا خوراک کی قیمت متاثر ہوئی۔؟

فصل کو روائج اور مانے ہوئے طریقوں سے پیدا کیا گیا ہے ان تمام سوالات کا جوابات دینے کے بعد بھی چند ایک مراحل رہ جاتے ہیں جن کو جی ایم فصلوں کی مارکیٹ میں لانے سے پہلے طے کرنا ضروری ہے،حقیقت میں ان غذاؤں پر ہونے والی تحقیق کسی بھی غذاؤں پرہونے والی تحقیق کسی بھی دوسری غذاؤں پر ہونے والی سے زیادہ ہے۔


کھادوں کے استعمال کی موثر حکمت عملی

PAR Jul 14, 2020 193

گذشتہ کچھ سالوں سے ہمارے ہاں کھاد کے استعمال میں خاطر اضافہ ہوا ہے تاہم موجود استعمال اب بھی ضرورت سے کافی ہے۔کھادوں کی مقدار تا تعین فصل کی ضرورت ،پیداواری ہدف اور زرخیزی زمین کے مطابق کرنا چاہیے۔کھادوں کے استعمال کی موثرحکمت عملی میں کھاد کی موزوں قسم کا انتخاب ،کھاد کی مناسب مقدار ،مناسب طریقہ اور موزوں وقت پر استعمال اہمیت کے حامل ہیں ۔منافع بخش پیداوار لینے کے لئے موزوں کھاد کا انتخاب کرتے وقت کھاد میں موجود خوراک کی اجزاء کی مقدار اور انکی قیمت کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔

نائٹروجنی کھادوں کا استعمال

پاکستان میں نائٹروجن بنیادی طور پر یوریا اور کیلشیم امونیم نائٹریٹ سے حاصل کی جاتی ہے۔یوریا نائٹروجن کانہ صرف سستا ترین ذریعہ بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی نائٹروجنی کھاد بھی ہے۔یوریا کے استعمال اور دستیابی میں آسانی اورکم قیمت کی وجہ سے اس کی سفارش کی جاتی ہے۔ کھاد کے انتخاب کے بعد اس مقدار بہت اہمیت کی حامل ہے۔علاوہ ازیں مختلف فصلوں کے لئے ان کے طریقہ کاشت اور زمین کی قسم کے مطابق کھادوںکا استعمال کرکے بھی کھادوں کی افادیت میں اضافہ کیاجاسکتاہے ۔مثلاً تیلی زمینوں میں یوریا کااستعمال ایک سے زائد اقساط میںکرنے سے زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح قطاروں میں کاشت فصلوںکو چھٹے کی بجائے ڈرل یاکیرا کے ذریعہ کھادوں کا استعمال زیادہ سودمند ثابت ہوتا ہے مزید برآں کھاد کا وقت استعمال بھی کھاد کی افادیت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا مثلاً گندم میں یوریا کا استعمال گوبھ کے بعد یوریا کے استعمال سے فصل زیادہ دیر سے پکتی ہے اور زیادہ دیر کھیت میں رہنے سے مختلف بیماریوں کے حملے کا شکار ہونے کے علاوہ زمین پر گرنے کا احتمال بھی بڑھ جاتا ہے۔

فاسفورسی کھادوں کا استعمال

پاکستان میں فاسفورسی کھادیں ڈی اے پی ، ایم اے پی ،ایس ایس پی ،ٹی ایس پی ،اورنائٹروفاس ہیں ۔اساسی زمینی کیمیائی تعامل (پی ایچ) کے باعث ہماری زمینوں میں ڈالی جانے والی فاسفورسی کھادوں کی پودوں کو دستیابی کم ہوجاتی ہے۔ پاکستانی زمینوں کے لئے پانی میں زیادہ حل پذیر فاسفورسی کھادیں مثلاً ڈی ای پی ( پانی میں حل پذیری 92 فیصد سے زائد ) موزوں ہے یہی وجہ ہے پاکستان میں ڈی ای پی کھاد کا استعمال دوسرے تمام فاسفورسی کھادوں سے زیادہ ہے۔ بوائی سے پہلے زمین کی تیاری کے دوران قدرتی نامیاتی کھاد زمین میں ڈال جائے تو فاسفورسی کھادکی افادیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فاسفورسی کھادوں کو ڈرل کے ذریعے استعمال کرنے سے بھی ان کی افادیت بڑھائی جاسکتی ہے۔ کیونکہ فاسفورسی کھادوں کی حرکت زمین میں محدود ہوتی ہے لہذاان جڑوں کے بلکل قریب ڈالنے سے پودے ان کو باآسانی استعمال کرسکتے ہیں ۔فاسفورسی کھادوں کو بوائی کے وقت استعمال کرنے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر کسی وجہ سے یہ کھاد بوائی پر استعمال نہ کی جاسکے توفصل کی بڑھوتری کے ابتدا دورمیں بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔بعض فصلوں مثلاً گندم میں ڈی ای پی کو اگر پانی میں حل کرکے بذریعہ فرٹیگیشن پہلے پانی پر دیا جائے تو اس ک افادیت مزید بڑھ جاتی ہے اور کھاد کی ثبتگی بھی کم ہوتی ہے۔لیکن یہ طریقہ دھان کے بعدکاشتہ گندم کے لئے موزون نہیںہوگا کیونکہ اس گندم کو پہلے پانی 30 تا 35 دن دیا جاتا ہے ۔ہمارے ہاں کاشتکاروں میں ایک غلط تاثرپایا جاتا ہے کہ ڈی ای پی کھاد پی ایچ زیادہ ہے اور یہ زمینوں کو خراب کرتی ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔کیونکہ ڈی اے پی کھاد زمین میں استعمال کے بعد کیمیائی عوامل سے گذر تی ہے جس سے اس کی اپنی پی ایچ کا اثر بلکل ختم ہوجاتا ہے اور بالآخر اس کے تمام کیمیائی عوامل کا حاصل شدہ اثر تیزابی ہوتا ہے جس کا تفصیلی ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں ۔لہذا ڈی ای پی ہماری زمینوں اور فصلوں کے لئے ایک بہترین کھاد اور فاسفورس کا سستا ذریعہ ہے۔

پوٹاش والی کھادوں کا استعمال

پوٹاش کو سلفیٹ آف پوٹاش (ایس او پی) اور میوریٹ آف پوٹاش (ایم او پی) سے حاصل کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں ابتدا سے ایس او پی استعمال ہورہی ہے کیونکہ یہ تمام فصلوں اور زمینوں کے لئے موزوں ہے ۔ اب دونوں کھادیں ملک میں دستیاب ہیں ۔ ایم او پی بھی پوٹاش کا ایک سستا اور اچھا ذریعہ ہے لیکن کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایم او پی زیادہ کلورائیڈ والی زمینوں اور کچھ فصلوں جیسے تمباکو ،ٹنل میں اُگائی جانے والی سبزیوں اور کچھ پھولوں کے لئے بہتر نہیں ہے ۔ پوٹاش والی کھادیں بھی یوریا کی طرح زمین میں حرکت کر سکتی ہیں اس لئے ان کو یوریا کی طرح احتیاط سے استعمال کرنا چاہئے خاص طور پر ریتلی زمینوں میںان کھادوں کو قسطوں میں استعمال کرنا چاہئیے۔

دیگر کاشی اُمور

دیگر کاشتی اُمور میں بہتری لاکر بھی کھادوں کی افادیت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ان کاشتی اُمو رمیں زمین کی تیار ی ،بہتری پیداواری صلاحیت والی اقسام کا انتخاب ،صحت مند بیج ،مناسب گہرائی پر بیج کی بوائی ،بروقت کاشت ،پودوں کی فی ایکڑ مطلوبہ تعداد ،حسب ضرورت آبپاشی ،جڑی بوٹیوں کابروقت خاتمہ ،بیماریوں اور کیڑوں کا انسداد اور مناسب وقت پر برداشت وغیرہ ایسے عوامل ہیں جن کو کاشتکار عام حالات میں بہتر طریقہ سے سرانجام نہیں دیتا جس سے نہ صرف پیداوار بلکہ کھادوں کی افادیت بھی متاثر ہوتی ہے اس لئے ان عوامل پر خصوصی توجہ دے کر فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔


نامیاتی کاشتکاری (Organic farming)

PAR Jul 14, 2020 193

آرگنک فارمنگ ایسی طریقہ کاشتکاری ہے جس میں مصنوعی کیمیائی کہادیں زرعی ذہروں اور دوسرے کیمیائی مادوں کا استعمال نہیں کیا جاتا ۔اس طریقہ کاشت میں زمین کی زرخیزی کو بحال کرنے کے لئے۔فصلوں کی ادل بدل ،فصل کی باقیات،گوبر کی کہاد پریس مڈ اور سبز کہادوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔خالص اور عمدہ خوراک کے حصول کے لئے آرگنک فارمنگ کا طریقہ دنیا بھر میں مقبول ہوتا جا رہاہے۔اس طریقے کاشتکاری سے حاصل ہونے والی خوراک کیمیائی اثرات سے پاک ہوتی ہے۔اور قدرت کے قریب ہوتی ہے۔مقامی اور عالمی منڈی میں اس اجناس اور سبزیات کی قیمت کئی گنا ذیادہ ملتی ہے ۔ اور اس قسم کی اجناس کی مارکیٹ میں مانگ بہت ہی زیادہ ہوتی ہے ۔ اور اس طریقہ کاشتکاری کو اپنا کر زیادہ منافع حاصل کیا جا سکتا ہے۔کیمیائی کاشتکاری کو نامیاتی کاشتکاری کو تبدیل کرنے کے لئے تین سال کا عرصہ درکار ہے ۔ ابتدائی 3-4 سال میں نامیاتی کاشتکاری کی پیداوار غیر نامیاتی کاشتکاری سے کم ہوتی ہے۔لیکن بتریج ان فصلات کی پیداوار بہتر ہوتی رہتی ہے آرگنک مارمنگ اپناتے وقت اس بات کا خاص خیال رکہیں کے آپ کے آرگنک فارم میں متصل کھیتوں میں کیمیائی کہاد یا مادے استعمال نہ ہوتے ہوں۔

زمین میں نامیاتی مادہ بڑہانے کا طریقہ

لا علمی اور جدید ریسرچ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہمارا زمیندار بہت سے فائیدیمند غذائی عناصر ضایع کر دیتا ہے۔حلانک یہ عمل جان بوجھ کر کے نہیں کرتا۔بلکہ اس کو افادیت کا پتا نہیں ہوتا پاکستان میں کماد کی فصل تیسری نقد آور فصل ہے۔کماد وہاں کاشت کر سکتے ہو جہاں دوسرے فصل کاشت ممکن نا ہو یعنی سخت اور کلراٹی زمین میں بھی کماد کاشت کر سکتے ہو۔عموماً دیکھا گیا ہے ۔بلکہ 98% کاشتکار گنا کاٹنے کے بعد کھو ری کو آگ لگا دیتے ہیں۔اس سے فاسفورس،نائٹروجن اور پوٹاش جوکہ کھو ری میں موجود ہوتی ہے۔وہ جلاکر ضایع کر دیتے ہیں اور زمین کے اندر جاندار جل کر راکھ ہو جاتے ہیں زمین کے مسام جل جاتے ہیں اس کے علاوہ نامیاتی مادہ جل جاتا ہے۔سرف تہوڑی مقدار میں پوٹاش ملتی ہے۔نامیاتی مادہ جو ہماری زمین میں نہ ہونے کے برابر ہے وہ مزید جل جاتا ہے۔ہمیں ایسا طریقہ کار اختیار کرنہ چاہئے جسے زمین کو زیادہ سے زیادہ مقدار میں نامیاتی مادہ میسر ہو۔نامیاتی مادہ کی کم مقدار جنوبی ایشیا پاکستان میں ہے۔اس کی ضرورت 6 فیصد جبکہ ہماری زمینوں میں 0.55 فیصد تک ہے۔یہ ہی وجہ کے بے تحاشہ کیمیائی کہادیں استعمال کرنے کے باوجود ہمیں پیداوار دوسرے ممالک سے کم حاصل ہوتی ہے۔اگر ہم تھوڑی سی تکلیف برداشت کریں تو یہ کھوری ہمیں (این ۔ پی ۔ کے) دے سکتی ہے بلکہ آنے والے سال میں کماد کی پیداوار میں 100 سے 150 من فی ایکڑ کا اضافہ ہو سکتا ہے۔کھوری کو کہاد میں تبدیل کرنے کے دو طریقے ہیں پہلا طریقہ یہ ہے کے آپ کھوری کو کھیت میں پھیلادیں پھر 200 لٹر پانی اور 2 کلو گرام یوریا کہاد ایک پائُ گندھک کا تیزاب کا مکسچر بنا کے کھوری پے اسپرے کردیں۔دوسرا طریقہ یہ ہے کے 200 لٹر پانی کے ایک ڈرم ڈال کر اس میں 10کلو گرام یوریا کھاد اور 5کلوگرام گندھک کا تیزاب ڈالیں جب کہیت کو پانی لگائیں تو فیلڈ کو اچھی طرح سے فلڈ کر کے بھر دیں اور انشااللہ یہ کھوری گل سڑ کر نامیاتی کہاد میں تبدیل ہوجائیگی۔اور آپ کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور کھیت کو پانی کی کمی 30 فیصد کم ہو جائیگی۔ اس کا تجربہ آپ اپنے جانوروں کی گوبر اور پیشاب کو صحیح طریقے سے محفوظ اور استعمال کرنے سے نائٹروجن کی 1.44 ملین ٹن حاصل کر سکتے ہیں جوکہ ہمارے سالیانہ درآمد شدہ کیمیائی کہادوں کی مقدار سے کم ہے۔ مصنف نیاز محمد پسیو سینئر ایگرانا مسٹ فنڈ مارکیٹنگ انٹر نیشنل کراچی (ریسرچ ڈپارٹمنٹ)

پاکستان کے کاشتکاروں کے لئے گندم کی اچھی پیداوار لینے کے لئے چند زرین اصول

PAR Jul 14, 2020 193

زمین کی تیاری

جب گندم کی کاشت کریں تو زمین میں گہرا ہل چلا کر گندم کی فصل کے لئے کہول دیں اور ز مین کو لیزر لیولر چھلا کر زمین کو ہموار کرین تاکہ گندم کے فصل کو پانی یکسان مہیا ہو۔

ٹائیم پر کاشت کرنا

گندم کی فصل کی بجائی نومبر تک مکمل کر لیں کیوں کے گندم کی اگیتی کاشت کی پیداوار اچھی آتی ہے۔اگر کاشتکار گندم کی کاشت کو جتنا پچھیتی کاشت کرینگے اتنا ہی پیداوار میں 5 من فی ایکڑ کی پیداوار کم اتریگی ۔اور اگر ہو سکے تو گندم کی کاشت سے قبل بیج کو دوائی ضرور لگائیں تاکی اُگائُ بہتر ہو اور بیماریوں سے بچائُ ممکن ہو۔

ٹائیم پے پانی کا استعمال کرنا

جب گندم کاشت کریں تو پانی کا استعمال بجائی کے 10 سے12 دن پے ضرور کریں تاکہ پیداوار میں کمی کا باعث نہ بنے۔کلر اور تھور زدہ زمینوں پر کاشت تر وتر پے کریں۔تاکہ بیج کا اُگائُ اچھا طریقے سے ہو جائے۔

کہاد کا استعمال

گندم کی فصل میں نائٹروجنی اور فاسفورس کہاد 1:1.5 فی ایکڑ کے حصاب سے استعمال گندم کی بجائی کے وقت کریں باقی تین یوریا ایک بوری ایکڑ کے ہر پر ہضب ضرورت کے مطابق استعمال کریں تاکہ کہاد کی کمی کی وجہ سے پیداوار کم نہ ہو۔

چاول یا گنے والی زمین

چاول یا گنے والی زمین یا ریتلی ہو یا ٹیوب ویل سے سیراب ہونے والی زمین میں پوٹاش کا استعمال ضرور کریںتاکہ پیداوار اچھی رہے۔

دانے بنے کے دورانیہ پانی کی اہمیت

گندم کے فصل کو جھاڑ بننے،گوبھ آنے اور دانے بننے کے مراحل پر پانی کی کمی نہ آنے دیں۔

ٹائیم پر جڑی بوٹیوں کا تدارک

گندم کے فصل میں جڑی بوٹیوں کو تلفی کے لئے ٹائیم پر کیمیائی اودیات کا استعمال اِن بوٹیون کی اقسام پے استعمال کریں۔

کٹائی کی کٹائی ٹائیم پر کرنا

گندم کی کٹائی اور گھائی وقت پر کرکے فصل کو اِن مراحل کے دوران ممکنہ نقصانات سے بچائیں۔ گندم ہمارے ملک کی بچت میںہی اہم فصل ہے۔اس سے نہ صرف ہمارے ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلک اس کا بوسہ جانوروں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔گندم پاکستان میں 20 ملین ایکڑ سے زائد ہر سال کاشت ہوتی ہے۔اور اس کی پیداوار اس کی پیداوار 72 سے 28 ملین ٹن کے قریب ہے۔اور فی ایکڑ پیداوار سندھ میں 45-40 اور پنجاب میں 35-40 فی ایکڑ پیداوار ملتی ہے۔ لیکن سارے ایوریج پاکستان کی 32-30 من کے قریب ہے۔جس میں اضافے کی گنجائش موجود ہے۔گندم کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لئے کاشتکار بھائی ان سفارشات سے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔


کپاس کے نقصان دہ کیڑوں کی پہچان اور نوعیت

PAR Jul 14, 2020 193
(Suking Pest) رس چوسنے والے کیڑے (Ballworm) کپاس کی ٹینڈوں کی سنڈیاں
تھپرس (Thirps) چتکبری سنڈی (Spotted Ballworm)
سفید مکھی (White Fly) امریکن سنڈی (American Ballworm)
چست تیلا (Jassid) Helcoverpa sp
سست تیلا (Aphid) گلابی سنڈی (Pink Ballworm)
جوئیں (Mites) لشکری سنڈی (Army Bollworm)

تھرپس (Thirps)

یہ ہلکے بھورے رنگ کا لمبوتر سا کیڑا ہے جس کے پر کنگھی نما ہوتے ہیں ۔لمبائی تقریباً ایک ملی لیٹر ہوتی ہے۔بالغ اور بچے دونوں پتے کی نچلی سطح چوستے ہیں شدت کی صورت میں پتہ چاندی کی طرح سفید ہوجاتا ہے۔شدید حملے کے صورت میں پھول اور ٹینڈے کم لگتے ہیں ٹینڈے چھوٹے رہتے ہیں اور پیداوار خاصی کم ہوجاتی ہے۔مادہ پتوں نچلی سطح پر پتوں کی خال کے نیچے انڈے دیتی ہے۔

(White Fly) سفید مکھی

بالغ سفید مکھی پر داربہت چھوٹا سا کیڑا ہوتا ہے جس کی لمبائی 1.5ملی میٹر اور اس کے پر سفید ہوتے ہیں ۔جبکہ جسم زردی مائل ہوتا ہے پروں پر سفید پاؤڈر ہوتا ہے۔اس کے بچے مسور کی دال کی مانند چپٹے اور ہلکے سبزی مائل ہلکے رنگ کے ہوتے ہیں ۔یہ پتے کی نچلی سطح سے چمٹے رہتے ہیں ۔ان کے پر نہیں ہوتے اور یہ اپنی جگہ پر چپکے رہتے ہیںاور پتوں سے رس چوستے ہیں ۔گرم اور خشک موسم میں اس کا حملہ زیادہ ہوتا ۔بالغ اور بچے پتے کی نچلی سطح سے رس چوستے ہیں ۔اور ایک لیس دار مادہ خارج کرتے ہیں جس پر پھپھوندی لگنے سے پتے سیاہ ہوجاتے ہیں ۔ایک مادہ پتے کی نچلی سطح پر 200تک انڈے دیتی ہے۔ سفید مکھی کو غیرموزون ادویات کے استعمال کے بعد کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتاہے۔

(JASSID) چست تیلا

بالغ کیڑے کا رنگ زردی مائل سبز ہوتا ہے۔بالغ اور بچے دونوں پتے کی نچلی سطح پر پائے جاتے ہیں ۔یہ کیڑا بڑا پھرتیلا ہوتا ہے۔جون اور جولائی میں کپاس پر حملہ آور ہوتا ہے ۔بلالغ اور بچے دونوں پتے کی نچلی سطح سے رس چوستے ہیں چناچہ پتوں کے کنارے سرخ ہوکر نیچے کی طرف مڑجاتے ہیں اور بعدازوں پتے چڑمڑ ہوکر گرجاتے ہیں مرطوب موسم میں اس کا حملہ زیادہ ہوتا ہے ۔شدید حملے کی صورت میں پیداور 20سے 30 فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔

(APHID) سست تیلا

اس کیڑے کے بالغ دو قسم کے ہوتے ہیں ۔پہلی قسم کے کیڑوں کے پر ہوتے ہیں اور ان کے اگلے پر جسم سے تقریباًدوگنا لمبے ہوتے ہیں ۔جسم کا رنگ سیاہی مائل سبزہوتا ہے۔دوسری قسم کے کیڑوں کے پر نہیں ہوتے۔جن کا رنگ سبزی مائل زرد یا بھورا ہے۔اس کی مادہ بھی دو قسم کی ہوتی ہیں کچھ انڈے دیتی ہیں اور کچھ بچے دیتی ہیں۔موسم بہار کے آخر میں یہ کیڑا کپاس پر منتقل ہوتا ہے اور کپاس کی فصل کی پر شروع سے آخر تک موجود رہتا ہے لیکن زیادہ تر نقصان آگست میں کرتا سست تیلا پتوں سے رس چوستے کرلیس دار مادہ خارج کرتا ہے۔متاثر ہ پتے سیاہ اور پھٹی پر سیاہ پھپھوند لگ جاتی پودے کاخوراک بنانے کا نظام متاثر ہوتا ہے۔

(MITES) جوئیں

جوئیں کیڑوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ان کی آٹھ ٹانگیںاور جسم کے دوحصے ہوتے ہیں۔پتوں کی نچلی سطح سے رس چوستی ہیں ۔پتوں کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے۔اور خشک نظر آتے ہیں ۔پتوں سے نیچے جالا بھی بناتی ہیں ۔مادہ پتوں کے نیچے انڈے دیتی ہے۔جن کی تعداد 85-135 ہوتی ہے۔بالغ اور بچے دونوں نقصان پہچاتے ہیں ۔ان کا پسندیدہ موسم نسبتاًگرم اور خشک ہوتاہے۔

(SPOTTED BALLWORM) چتکبری سنڈی

ٓاس کیڑے کا انڈا ہلکا زردی مائل نیلا اور جسمامت میں خشخاش کے دانے سے قد رے چھوٹا ہوتا ہے۔یہ آسانی سے نظر نہیں آتا بلکہ اچھی طرح غور کرنے سے نظر آتا ہے۔ اس پر تیس کے قریب ابھری ہوئی لائنیں ہوتی ہیں جو انڈے کے اوپر مل کر تاج کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔اس کی چھوٹی عمر کی سنڈی کا رنگ گدلا سفید اور سیاہ ہوتا ہے۔جبکہ بڑی عمر کی سنڈیوں پر ابھرے ہوئے سیاہ دھبے ہوتے ہیں اور اوپر سے جسم چتکبرا ساد کھائی دیتا ہے۔


گندم کی جڑی بو ٹیوں کی تلفی

PAR Jul 14, 2020 193

گندم کی فصل میں خود اُگ آنے والی جڑی گندم کی پیداوار میں 12 تا 25 فیصد کی کمی کا بائث ہوتی ہے۔گندم کی نوکیلے پتوں والی جڑی بوٹیاں جس میں جس میں( جنگلی جئی دمبی سٹی وغیرہ ) اور چوڑے پتے والی جڑی بوٹیاں پوہلی،پیازی ،جنگلی پالک،رواڑی اور شاہتر وغیرہ پائی جاتی ہیں۔

دا ب کا طریقہ اور گوڈی :

جب گندم کی رآئونی کریں تو جب زمین وتر پے آئے تو ہل چلانے کے بعد سہاگہ چھلائیں۔جب جڑی بوٹی کے کونپلے نکل آئیں تو ہل زمین تیار کریںاس سے جڑی بوٹی تلف ہو جائینگی۔جڑی بو ٹی تلف کرنے کے لئے گوڈی بھی کی جا سکتی ہے۔علاوہ ازین پہلے اور دوسرے پانی کے بعد وتر کی حالت میں بار ہیرہ چلانے سے بھی جڑی بوٹیاں تلف ہو سکتی ہیں۔ گندم کی فصل میں اُگ آنے والی جڑی بوٹیاں جس میں جنگلی جئی ،دمبی سٹی،باتھو،نیلی،بوٹی،شاستر،ریوڑا وغیرہ شامل ہے۔

کیمیائی طریقہ:

اس جڑی بوٹیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے کسی اچھی کمپنی کی دوائی استعمال کرنا ضروری عمل ہے۔اس کا کیمیائی کنٹرول اس طرح ہے۔ بکٹرل سپر یا چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں اور نوکیلے پتو ں کے لئے پوما سپر یا ٹاپک استعمال کر سکتے ہیں۔کیوں کہ اگر جڑی بوٹی مار ظہر کا استعمال صحیح ٹائیم پے کرنا ضروری عمل ہے۔اس کیمیائی دوائی کا ٹائیم گندم کو پانی دینے کے بعد اُگ آنے پر جڑی بوٹی کی اقسام کے مطابق استعمال کرائیں تاکہ کے کہاد اور پانی گندم کے فصل کو میسر ہو سکے اور پیداوار میں اضافہ ہو سکے گا۔ کاشتکار بھائیوں اس آرٹیکل کو پڑھ کے گندم کی پیداوار کو بڑھا سکتے ہیں۔اوراپنے ملک کی گندم کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں۔

ڈائمیٹ

PAR Jul 14, 2020 193

ڈائمیٹ 5 فیصد دانے دار امریکہ کے سائنسدانوں نے کئی سالوں کی تحقیق کے بعد فصلوں میں استعمال کیلئے تیار کیا ہے۔ جو ایک طاقتور کیڑے مار زہر ہے۔ یہ اپنی افادیت اور وسیع دائر عمل کے وجہ سے دنیا بھر کے کاشتکار وں میں مقبول ہے ڈائمیٹ دانے دار کو امریکہ ،افریقہ ،یورپ اور اشیاء کئی ترقی یافتہ ممالک میں فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کے خلاف آزمایا گیا ہے اور بہتر نتائج حاصل ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس کا استعمال گزشتہ چالیس سال سے جاری ہے ۔ اور اب کیڑوں مثلاً رس چوسنے والے کیڑے ،سنڈیاں اور نماٹوڈز سے محفوظ رہتی ہیں

سرائیت پذیر عمل

ڈائمیٹ دانے دار کو کھیت میں ڈالنے کے بعد جب پانی دیا جاتا ہے۔ تو اس کا اصلی جڑ مٹی کے دانوں سے علحیدہ ہوکر پودوں کے نظام میں سرائیت کرجاتا ہے ۔کیڑے فصل کے پودوں پر اپنی غذا حاصل کرنے آتے ہیں تو ڈائمیٹ دانے دارکا زہریلا اثرا ن پر عمل کرتا ہے ۔ اور کیڑوں سے معاشی نقصان سے زیادہ عرصے تک محفوظ رہتے ہیں ۔ٖفصل سرسبز وشاداب رہتی ہے۔

فصلوں میں استعمال

ڈائمیٹ دانے دار کو کئی فصلوں مثلاً کپاس ، مونگ پھلی ،روغن دار بیج ،غذائی اجناس ،چاول ،کماد، سبزیاں مثلاً ا ٓلو مرچ ،ٹماٹر ،گاجر ،گوبھی ،پیاز بینگن ،چقندر ، اور خربوزہ اور تمباکو کے علاوہ پھل دار درختوں میں استعمال کی سفارش کی جاتی ہے۔

طریقہ استعمال

ڈائمیٹ 5 فیصد دانے دار کی تھیلی ایک ایکڑ کیلئے پیک کی گئی ہے۔ اس کے استعما ل کیلئے بہتر یہ ہے کہ تھیلی کے نیچے ایک طرف سوراخ کرلیں ۔اور قطاروں میں چلتے ہوئے پودوں کی جڑوں کے قریب اس کے دانے گراتے چلیں ۔ڈالنے والے شخص کی رفتار اتنی چاہیے کہ پورے تھیلی ایک ایکڑ میں مکمل ہوجائے ۔اس کے بعد کھیت میں پانی لگادیں۔ دھان کی فصل میں ڈائمیٹ دانے دار کو پنیری لگانے کے بعد اور پنیری کو کھیت میں منتقل کرنے کے بعد بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے دھان کے پودے تنے کی سنڈیوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ دھان کی فصل میں استعمال کے وقت کھیت میں کم از کم تین انچ پانی کھڑا ہونا چاہئیے ۔اور کھیت کی سطح ہموار ہونی چاہیے ۔تاکہ پانی ایک کھیت میں منتقل نہ ہوسکے ۔ ڈائمیٹ دانے دار کی فارمولیشن استعمال میں آسان اور محلول زہروں کے مقابلے میں کم نقصان دہ ۔ مزید یہ کہ فصلیں اپنی برداشت مکمل ہونے تک کیڑوں سے محفوظ رہتی ہیں ۔ جس کی سے فصل کے اخراجات کم ہوتے ہیں ۔او ر کاشتکار کو معاشی فائدہ ہوتا ہے۔

برداشت کا وقفہ

ڈائمیٹ دانے دار کے استعمال سے اور فصل کی برداشت میں ایک سے ڈیڑھ ما ہ کا وقفہ رکھنا چاہیے۔

ماحول پر ا ثر

ڈائمیٹ دانے دار کو اگر احتیاط سے استعمال کیا جائے تو استعما ل کرنے والا اور ماحول کا نظام متاثر نہیں ہوتا ۔جس میں جنگلی حیات ۔پرندے او ر سفید کیڑے شامل ہیں ڈائمیٹ دانے دار شہد کی مکھیوں کیلئے نقصان دہ ہے اس لئے پانی کے ذخائر اور مچھلیوں کے تالاب کو محفوظ رکھنا چاہیے۔

ڈائمیٹ 5 جی کے کئے خصوصی ہدایات

ڈائمیٹ 5 فیصد دانے دار ایک انتہائی زہریلی کیڑے مار زہر ہے جو جسم کے ساتھ چھوکر ، منہ کے ذریعے داخل ہوکر استعمال کرنے والے شخص کو متاثر کر سکتی ہے ۔زہر یلے پن کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے ہر تھیلی کے ساتھ دستانوں کی جوڑی اور حفاظتی ماسک مہیا کیا گیا ہے۔ ان کا استعمال آپ کو اس کے زہر یلے ا ثرات سے محفوظ رکھے گا ۔اس لیے انہیں ضرور استعمال کریں اور دوسرے کو بھی استعمال کرنے کی تلقین کر یں۔

حفاظتی پیکنگ

حفظ ما تقدم کے طور ڈائمیٹ کو دوہری تھلیوں میں پیک کر کے کارٹن میں بند کیا جاتا ہے۔ تا کہ تمام کارکن اور مزدور محفوظ رہیں ۔ مزید استعمال کرنے والوں کیلئے اس میں ایک جوڑی دستانے اور حفاظتی ماسک رکھا جاتا ہے ۔ تا کہ کاشتکار استعمال کے دوران ان کو پہن کر چھٹہ کری ں پاکستان میں ڈائمیٹ دانے دار کو ایم –وی-سی ،، یو ایس کے ماہرین کی نگرانی میں تیار کرنے کے بعد معیار قائم رکھنے کیلئے مارکیٹ میں لانے پہلے لیبارٹری میں جانچ کی جاتی ہے۔

تریاق

اس کا تریاق ایٹرو پین سلفیٹ ہے۔ متاثر شخص کو 4 ملی گرام کا انٹراوینس ٹیکہ ہر دس منٹ کے وقفہ سے لگائیں یہاں تک کہ مریض کی حالت سدھرنے لگے ۔ مریض کو 48 گھنٹے تک ہسپتال میں ڈاکٹر کے زیر نگرانی رکھیں۔

انتباہ

تیار کندہ گان تقسیم کنندگان ڈائیمٹ کی کیمیائی ساخت کا دائرہ اثر تعین کردہ وقت تک معیاری ہونے کی ضمانت صرف اسی صورت میں دیتے ہیں جبکہ ا س کو سفارش کردہ طریقوں کے مطابق استعمال کیا جائے ۔ بند تھیلیوں میں خشک ،ٹھنڈی اور ہوا دار جگہ پر ذخیرہ کیا جائے ،گرمی ،نمی اور براہ راست سورج کی روشنی سے حفاظت کی جائے ۔ تیار کنندگان اور تقسیم کنندگان اس کے غلط استعمال ہدایات کے خلاف ذخیرہ اندوزی اور مناسب حالات میں استعمال کی صورت میں نقصانات کے ذم دار نہیں ہونگے۔


کینولا سرسوں کی کاشت

PAR Jul 9, 2020 193

تعارف

خوردنی تیل کی ملکی ضرورت پوری کرنے کیلئے حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں پچھلے سال کینولہ اور سورج مکھی کی فی من قیمت فروخت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جس سے امید کی جاتی ہے کہ سال 2002-03 میں مزید بہتری آئے گی۔2000-01 میں خوردنی تیل کی کل ضرورت 1797000 ٹن تھی جس کی مالیت 19.04 ارب روپے تھی اس میں سے 1151000 ٹن درآمد کیا گیا جب کہ 646000 ٹن ملکی پیداوار تھی۔اس طرح یہ کل فروخت کا 36 فیصد رہا۔کسان عام طور پر کینولہ کی فصل سے مانوس ہیں اور ان فصلوں کے طریقہ کاشت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں ۔ملک بھر میں سرسوں کی یہ فصلات بڑے پیمانے پر کاشت کی جا رہی ہیں۔رایا سرسوں اور توریا گرم مرطوب جنوبی علاقوں میں اور گوبھی سرسوں شمالی سرد علاقوں میں کامیابی سے کاشت کی جاتی ہیں۔ یہ علاقے ان فصلات کی کاشت کے لئے موزوں ہیں۔ موجودہ سالوں میں گوبھی سرسوںکی میٹھی اقسام کو متعارف کرایا گیا ہے۔ ان اقسام میں شیرالی، ڈنکلڈ ، رینبو، آسکر اور دوغلی اقسام شامل ہیں۔ ان اقسام میں زہریلے اجزاء erucic acid اور glucosinolate بالکل نہیں ہوتے جبکہ ہماری مقامی اقسام میں یہ اجزاء شامل ہوتے ہیں ۔ جوان کے کڑواہٹ اور بوکا باعث بنتے ہیں۔ اور اس طرح تیل انسانوں اور کھلی جانوروں کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ پچھلے چند سالوں سے شعبہ روغنی اجناس ، قومی زرعی تحقیقاتی مرکز،اسلام آباد کے سائنسدانوں نے کینولا کی نئی اقسام کی جنیاتی تولید کے کام کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ سرسوں کی مقامی اقسام میںجنیاتی تولید کی مدد سے کینولا کی کی خاصیت اس قسم میں پیدا کر دی ہے۔ میٹھی سرسوں کی اقسام کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان سے کھانا پکانے کا اعلی قسم کا تیل حاصل ہوتاہے۔ جوغذائیت کے لحاظ سے نہایت عمدہ سمجھا جاتاہے۔ سرسوںکی یہ اقسام کھادوں کا جلد اثر قبول کر تی ہیں۔ اور ان میں تیل کی مقدار بھی مقامی اقسام سے زیادہ ہوتی ہے۔ پچھلے کئی سالو ں سے ملک میں خوردنی تیل کی کھپت میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ اور اس طرح اس کی درآمد پر اخراجات 30 سے 35 ارب روپے تک پہنچ چکے تھے جو ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔لہذا وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم روغنی اجناس کو زیادہ سے زیادہ کاشت کریں۔ اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرکے ملکی معیشت پر پڑنے والے بوجھ کو کم کریں۔ کینولا کی فی ایکڑ بہترین پیداوار حاصل کرنے کے لئے کاشتکاورں کے لئے درج زیل سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہوکر کاشتکار بھائی اپنی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنی آمدنی میں بھی معقول اضافہ کرسکتے ہیں۔

زمین کی تیاری:

کینولا سرسوں کو بھاری میرازمین پر کاشت کرنا چاہئے۔سیم زدہ اور ریتلی زمین اچھی فصل کے حصل کے لئے موزوں نہیں۔ بارانی علاقوں میں خریف کے موسم میں خالی کھیتوں میں ایک دفعہ گہراہل چلاکر وتر محفوظ کرلیں۔ اس بات کا خاص خیا ل رکھنا چاہئے کہ موسم برسات کے بعد زمین میں ہل نہ چلایا جائے صر ف کاشت سے پہلے ہلکا ہل چلا کر سہاگہ دے دینا چاہئیے تاکہ وتر ضائع نہ ہو۔ نہری علاقوںمیں کاشت سے پہلے دو یا تین مرتبہ ہل چلاکر ڈھیلیوں کو توڑ کر زمین ہموار کرلینی چاہئے۔ زمین کو پانی دینے کے بعد درمرتبہ ہل چلا کر سہاگہ دینا چاہیے۔کاشت کے وقت زمین کا چھی حالت اور وتر میں ہونا ضروری ہے۔

وقت کاشت:

کینولا کی اچھی پیدوار حاصل کرنے کے لئے فصل کو مناسب وقت پر کاشت کرنا چاہئے۔ کینولا کی فصل خالی زمینوں کے علاوہ ستمبر میں گنا اور مکئی سے فارغ ہونے والی زمین اور کپاس کی دوسری چنائی کے بعد کھڑی فصل میں کاشت ہوسکتی ہے۔ مختلف علاقوں میں کاشت کا شیڈول مندرجہ ذیل ہے۔ تاہم علاقائی موسمی حالات اور آبپاشی کے ذرائع کو بھی مد نظر رکھاجائے۔

وقتِ کاشت علاقہ صوبہ
15 اکتوبر تا 15نومبر پہاڑی علاقے بلوچستان
یکم اکتوبر تا 31 اکتوبر میدانی علاقے بلوچستان
یکم اکتوبر تا 31 اکتوبر شمال علاقے پنجاب
وسط اکتوبر تا وسط نومبر جنوبی علاقے پنجاب
15ستمبر تا 31 اکتوبر تمام علاقے سرحد
15 اکتوبر تا 15 نومبر تمام علاقے سندھ

طریقہ کاشت:

کینولا کو بذریعہ ڈرل کاشت کرنا چاہئے۔ گندم کاشت کرنے والی ڈرل میں 2 کلو کینولا کا بیج اور 38 کلو TSP یا DAP یا اتنی مقدار میں خشک مٹی یا ریت ڈال کر فصل کاشت کرنی چاہئے۔ ڈرل نہ ہونے کی صورت میں بذریعہ چھٹا بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ چھٹا سے کاشت کرنے سے پہلے بیج کو 12 گھنٹے بھگو لینے سے اچھی روئیدگی ہوتی ہے۔ بیج کو صبح سویرے یا شام کے وقت چھٹا کرنا چاہئے۔کھڑے پانی میں بیج کا چھٹا دے کر برسیم کی طرح بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ اس بات کی احتیاط کی جائے کہ بیج نہ ہی سطح زمین پر رہے اورنہ ہی زیادہ گہراجائے۔ بیج کی گہرائی ایک انچ سے ڈیڑھ انچ تک ہو اور قطاروں کا درمیانی فاصلا ایک سے ڈیڑھ فٹ ہونا چاہیے۔

شرح بیج

شرح بیج کا تعین کرتے وقت زمین کی قسم ،زمین کا درجہ حرارت ،زمین میں نمی کا تناسب،وقت کاشت ،طریقہ ،کاشت اور بیج کی شرح اُگائو کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔تاہم اگر طریقہ،کاشت اور بیج کی روئیدگی صحیح ہو تو 2 کلو فی ایکڑ استعمال کرنا چاہیئے۔

موزوں اقسام

سرسوں کی اچھی اور زیادہ پیداوار دینے پیداوار دینے والی اقسام کاشت کریں۔جن میں تیل کی مقدار زیادہ اور کڑواہٹ والے اجزاء کم ہوں لہذا زرعی ماہرین نے درج زیل سرسوں کی اقسام کی سفارش کی ہے۔ 1 - شیرانی،2 - ڈنکلڈ،3 - رین بو،4 - آسکر۔ان کے علاوہ حال ہی میں شعبہ روغنی اجناس ،این اے آرسی ،اسلام آباد کے سائنسدانواں نے پاکستانی ماحولیاتی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کینولہ کی دو نئی اقسام کینولہ۔رایا اور پاکولا دریافت کی ہیں جن کی پیداوار ی صلاحیت کافی بہتر ہے۔

کھاد کا استعمال

کھادوں کے استعمال کا انحصار زمین کی زرخیزی پر ہوتا ہے ۔ہمارے ملک کی اکثر زمینوں میں نائیٹروجن اور فاسفورس کی کمی ہے ۔لہذا عام حالات میں ایک بوری ڈی۔اے۔پی اور ایک بوری یوریا فی ایکڑ کے حساب سے ڈالیں ۔جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے۔کہ پوٹاش کے استعمال سے پودوں میں خشک سالی ،بیماری اور تیلے کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے لہذا ایک بوری پوٹاش فی ایکڑ کے حساب سے ڈالیں ۔بارانی علاقوں میں تمام زمین کی تیاری کے وقت ڈالیں۔

آبپاشی

آبپاشی کا انحصار موسمی حالات پر ہوتا ہے۔تاہم سرسوں کو 12 سے 15 انچ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ تین چار مرتبہ آبپاشی سے پوری کی جاسکتی ہے۔اگر پھول آنے پر پھلیاں بنتے وقت اور بیج بنتے وقت زمین کی نمی میں کمی آجائے تو پیداوار پر بہت برا ثرپڑتا ہے۔لہذا پہلا پانی فصل کے اُگائو سے 30 تا 35 دنوں کے درمیان دینا چاہیئے جب کہ دوسرا پانی بیج بنتے وقت دینا بہت ضروری ہے۔

گوڈی و جڑی بوٹیوں کی تلفی

زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں کو تلف کرنا ضرور ی ہے ۔ سرسوں کی فصل اگاؤ کے چند ہفتوں بعد جڑی بوٹیوں سے بہت متاثر ہوتی ہے ۔ لہذا اس وقت جڑی بوٹیوں کی تلف نہایت ضروری ہے۔وقت پر جڑی بوٹیوں کی تلفی سے پودے صحت مند اور توانا ہوجاتے ہیں ۔اس لیے اگر ممکن ہوسکے تو پہلی گوڈی پہلا پانی دینے سے پہلے کریں ورنہ پہلے پانی کے بعد وتر آنے پر گوڈی ضروی کریں۔

بیماریاں اور ان کا تدارک

کینولا کی فصل پر درج ذیل بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں جن کی علامات اور طریقہ ء انسداد و حسب ذیل ہے۔

تنے اور جڑکی سڑانڈ

اس بیماری سے تنا ،جڑاور پتے بُری طرح متاثر ہوتے ہیںکالے رنگ کے دھبے جن کا سائز 2.15ملی میٹر تک ہوتاہے۔نظر آتے ہیں ۔ یہ بیماری تنے اور شاخوں کے گودے میں بھی سرایت کر جاتی ہے۔ پھلیاں بھی اس کے حملے سے متاثر ہوتی ہیں

تدارک

زمین میں گہرا ہل چلانے، فصلوں کا ہیر پھیر اور صاف بیج کا استعمال کرنے سے بیماری کے حملے کو کافی حد تک روکا جاسکتا ہے ۔علاوہ ازیں تھایابینڈ ازول بحساب 200ملی گرام فی 100 کلوگرام بیج کے لیے استعمال کریں اور پھر کاشت کریں

Alternaria Black Spot الٹر نیریا کے کالے دھبے

یہ بیماری ننھے پودے کے دو پتوں پر ہلکے بھورے رنگ کے دھبے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جو بعد میںکالے ہوجاتے ہیں ۔اور پھر گہرے رنگ میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور بالآخر پودا اپنے ابتدائی زندگی ہی مرجاتا ہے۔

تدارک

اگیتی اور مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کرنا ، وقت پر جڑی بوٹیوں کا تلف کرنا ،صاف اور بیماری سے پاک بیج کاشت کے لیے استعمال کرنا ، بُجائی سے قبل بیج کو دوائی لگانا فصل پر سرایت کرنے والی دوائی کا سپرے کرنا ۔ ان تمام عوامل کے کرنے سے بیماری کے حملے کو روکا جاسکتا ہے۔

کیڑے مکوڑے اور ان کا انسداد

میٹھی سرسوں پر مختلف اقسام کے کیڑے مکوڑے حملہ آور ہوتے ہیںااور ان کیڑوں کا بر وقت انسداد ضروری ہے تاکہ فصل کو زیادہ نقصان سے بچایا جاسکے ۔فصل کے اُگاؤ کے بعد اس پر گراس ہاپر کا حملہ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے فصل کو کافی نقصان پہنچتا ہے اور اکثر حالات میں اس کا تدارک ضروری ہوتا ہے۔ جب فصل پھول نکالنا شروع کرتی ہے تیلا کا حملہ شروع ہوجاتا ہے جو عام طورپر خشک موسم میںشدید نقصان پہنچاتا ہے اور اس کا تدارک بہت ضروری ہے ۔تیلا کو 25 EC POLO سے سپرے کرکے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ بہتر ہے کہ زمیندار بھائی محکمہ زراعت کے عملے سے مشورہ کرکے دوائی کا انتخاب کریں۔

وقت برداشت

جب فصل کا رنگ زرد ہوجائے 30 سے 40 فی فیصد پھلیاں بھورے رنگ کی ہوجائیں اور دانے نیم سرخی مائل ہوجائیں تو فصل کو فوراً کاٹ لینا چاہیے ۔اس کے بعد چار پانچ روز تک دھوپ میں خشک کرکے بیلوں کا ٹریکٹر سے گہائی کر کے بیج نکا ل لینے چاہیہں ۔صبح سویرے یا شام کے وقت فصل کی کٹائی کرنے سے بیج گرنے کا احتمال کم ہوجاتا ہے۔ گندم والے تھریشر سے اس کی گہائی آسانی سے کی جاسکتی ہے ۔لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹریکٹر کی رفتا ر کم سے کم رکھی جائے۔

بیج کا ذخیرہ اور اس فروخت

بیج کو گہائی کے فوراً ہوا میں اڑاکر صاف کرلیں اور ذخیرہ کرنے سے پہلے دھوپ میں اچھی طرح خشک کرلیں تاکہ اسے پھپھوندی نہ لگنے پائے لہذا جب بیج میں نمی کی مقدار آٹھ فی صد یا اس کم ہو تو ذخیرہ کرلیں ۔ آئندہ سا ل کے لئے بیج محفوظ رکھنے کے صورت میں اسے دوائی لگا کر خشک گودام میں زخیرہ چاہیے ۔میٹھی سرسوں کینولا کا بیج نکالنے والی ملیںاچھی قیمت پر خرید لیتی ہیں اور مقامی منڈیوں میں آسان ی فروخت کیا جاسکتا ہے ۔ اس بیج کو لہوپر تیل نکلوا کر گھر میں کھانا پکانا کے لئے بھی استعما ل میں لایا جاسکتاہے۔


بہاریہ مکئی کی پیداوار پر شرح بیج اور قطاروں کے درمیانی فاصلے کا اثر

PAR Jul 9, 2020 193

محمد ناصر، آصف اقبال ، محمد طیب ، سجاد منظو ر ، حافظ محمد ارسلان عابد

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

مکئی کا شمار موسم خریف کے لذیر چارہ جات میں سے ہے غذائی حوالے سے مکئی گندم اور چاول کے بعد پاکستان کی اہم فصل ہے۔ مکئی انسانی خوراک کے علاوہ مو یشیوں اور مرغیوں کی خوراک میں بھی استعمال ہوتی ہے علاوہ ازیں کارن آئل، کسٹرڈوغیرہ مکئی کی مصنوعات میں شامل ہیں۔ غذائی اعتبار سے مکئی میں 5 تا 6 فیصد ریشہ، 72 فیصد نشاستہ اور 7 تا 10 فیصد لحمیات پائے جاتے ہیں۔ مکئی سال میں دو مرتبہ کاشت ہونے کی وجہ سے ا یک منافع بخش فصل ہے۔

حکومت پاکستان کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق دوران سال 2015-16 میں مکئی کی پیداوار 4.9 ملین ٹن رہی جو کہ گزشتہ سال 2014 سے کم ہے۔ مکئی کی پیداوار میں کمی کی بنیادی وجوہات میں سے کھیت میں پودوں کی تعداد کا مناسب نہ ہونا ، کھادوں کا غیر متوازن استعمال اور جڑی بوٹیاں وغیرہ شامل ہیں۔

زیادہ پیدواری صلاحیت کے لے متوازن شرح بیج اور کھیتوں میں پودوں کی صیحح تعداد کے تعین کے لیے قطاروں کے مناسب درمیانی فاصلے کا ہونا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں چارے کی مکئی پر شرح بیج اور قطاروں کے مختلف درمیانی فاصلے 30,15 اور 45 سینٹی میٹر کا مکئی کی پیداوار ی صلاحیت پر جائزہ لیا گیا ان تجربات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی اگر 100 کلوگرام بیج فی ہیکڑ او ر قطاروں کا درمیانی فاصلہ 30 سینٹی میڑ رکھا جائے تو سبز چارے کی پیداوار اور معیار میں خاطرخواہ اضافہ ممکن ہے۔

زمین کی تیاری

قبل از کاشت زمین کو اچھی طرح سے تیار کر لیں۔ زمین کو اچھی طرح سے ہموار کرنے کے لیے دو بار ہل اور سہاگہ چلائیں تاکہ پانی کی تقسیم یکساں ہو مکئی کے چارے کی کاشت کیلیے زرخیز میرا زمین موزوں ہے۔

وقت کاشت

بہاریہ مکئی کے چارے کی کاشت کے لیے موزوں وقت فروری تا مارچ ہے کاشت میں تاخیر پیداوار میں کمی کا باعث بنتی ہے۔

شرح بیج

چارے کی بہتر پیداوار کے لیے تصدیق شدہ بیج 75 تا 100 کلوگرام فی ہیکڑ استعمال کریں۔ کانگیاری اور پھپھوندی کی بیماریوں سے بچنے کے لیے بیج کو دوائی لگا کاشت کریں۔

اقسام

اس کی اقسام میں سرگودھا 2002، نیلم، اکبر اور سلطان شامل ہیں تاہم سرگودھا 2002 مکئی کے چارے کی ایک مشہور قسم ہے اس کی پیدواری صلاحیت دوسری اقسام سے زیادہ ہے۔

طریقہ کاشت

قطاروں میں کاشت کی صورت میں قطار سے قطار کا درمیانی فاصلہ30cm رکھیں تاکہ پودوں کی مناسب تعداد برقرار رکھی جا سکے اور پیداوار میں اضافہ ممکن ہو۔

آبپاشی

ڈرل کا شتہ فصل کو پہلی آبپاشی 20 تا 25 دن بعد کریں باقی پانی ضرورت کے مطابق دیں فصل کو پانی کی کمی نہ ہونے دیں۔

کھادوں کا متوازن وبروقت استعمال

کھادوں کی متوازن مقدار کے لیے ضروری ہے کہ زمین میں موجود غذائی عناصر کا تجزیہ کرایا جائے۔ مکئی کی پیداوار میں نائٹروجن کھاد اہمیت کی حامل ہے۔ یہ مشا ہدہ کیا گیا ہے کہ نائٹروجن کھاد کی متوازن مقدار مکئی کی پیدا میں اضافہ کرتی ہے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں کیے جانے والے تجربات کے مطابق اگر 120 کلوگرام نائٹروجن کھاد کو تین یکساں حصوں میں تقسیم کرکے بالترتیب بجائی 15 اور30 دن کے وقفہ سے ڈالا جائے تو سبز چارے کی پیداوار اور کوالٹی میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ علاوہ ازیں اجزائے صغیر ہ کی کمی کو بھی پورا کرنا چاہیے۔

وقت برداشت

فروری تا مارچ کا شتہ فصل 50 فیصد پھول آنے پر برداشت کے لیے تیا ر ہو جاتی ہے۔


پودوں میں زنک کی کمی اور انسانی صحت پر اثرات

PAR Jul 9, 2020 193

محمد طیب، محمد ناصر ،حافظ محمد ارسلان عابد ، سجاد منظور

زرعی یونیورسٹی, فیصل آباد

پودوں کو اپنے تعمیرا تی افعال سرانجام دینے کے لیے اجزاے صغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن میں سے زنک ایک اہم غذائی عنصر ہے۔ اگر چہ پودوں کو بہتر نشوونما کے لیے زنک کی قلیل مقدار میں ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اس کی غیر موجودگی پودوں کی بڑھوتری پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ پودوں میں زنک بہت سے عوامل کو سرانجام دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر پودے کے فی کلوگرام حصے میں زنک کا تناسب 15 تا60 ملی گرام ہو تو زنک کے لحاظ سے یہ پودا صحت مند ہو گا۔

پودوں میں زنک کے افعال

  • زنک پودے میں خامرے (انزائمز ) کی کارگردگی کو بہتر کرتا ہے۔
  • یہ خاص قسم کی لحمیا ت (پروٹین)بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
  • پودوں میں نشاستہ (کاربوہائیڈرٹیس) اور سبز مادے(کلوروفل) میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
  • کورے کے خلاف پودوں میں قوت مزاحمت پیدا کرتا ہے۔
  • آگزن جو کہ پودے کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی تعمیر میں زنک ایک لازمی جزو ہے۔

پودوں میں زنک کی کمی کی علامات

زنک کا شمار پودے میں غیر متحرک اجزائے صغیرہ میں سے ہوتا ہے۔ اس کی کمی کی علامات نئے پتوں میں ظاہر ہوتی ہیںاور یہ علامات ہر فصل میں مختلف ہوتی ہیں۔ نئے پتوں پر پیلاپن ، پتے کے کناروں کا جل جانا عام علامات ہیں علاوہ ازیں نئے پتے جسامت میں چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ پودے کی ڈنڈیاں چھوٹی اور گلاب نما شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ جس سے پودے کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔

زنک کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی انسانی بیماریاں

عالمی ادارہ صحت(WHO) کی رپورٹ کے مطابق خوراک میں زنک کی کمی کی وجہ سے انسانوں میں درج ذیل بیماریاں پائی جا سکتی ہیں۔

  • بصارت کا شکار ہونا
  • جلد کے امراض
  • دبلا پن
  • دنیا میں18 فی صد ملیریا اور 10 فی صد اسہال کی بیماری

زنک کے ذرائع

پودوں میں زنک کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کسان بھائیوں کو چاہیے کہ وہ زنک سلفیٹ اور زنک امونیم نائٹریٹ یا چنگل دار زنک (Chelated Zinc)کا استعمال کریں۔ تاہم اس سے بہتر ہے کہ ایک مکمل و متوازن اجزائے صغیرہ کھاد کا استعمال کریں تاکہ باقی اجزائے صغیرہ کی کمی نہ ہو سکے۔


سرسوں, کینولا اور رایا کی جڑی بوٹیوں کا تدارک

PAR Jul 9, 2020 193

جڑی بوٹیاں اور ان کا تدارک

سرسوں اور رایا پاکستان کا اہم روائتی زرعی اجناس ہیں ہمارے ملک میں ان فصلات کی کاشت تمام تیلدار فصلوں میں زیادہ رقبہ پر کی جاتی ہے تا ہم اس فصل کی اوسط پیداور میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ خوردنی تیل کی ملکی ضرورت پورے کر کے قیمتی زرمبادلہ بچا یا جاسکے۔اس فصل کی پیداوار میں کمی باعث بننے والے بہت سے عوامل میں سے ایک بڑے وجہ جڑی بوٹیوں کی موجودگی ہے۔ جڑی بوٹیاں ان پودوں کو کہتے ہیں جو کاشت شدہ فصل کے علاوہ اگتی ہیں اور ان کی موجودگی اصل فصل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔ان جڑی بوٹیوں سے فصل کی نشونما پر برا اثر پڑتا ہے۔ سرسوں کی پیداوار میں کمی کا انحصار جڑی بوٹیوں کی موجودگی کی تعداد اور اقسام پر ہوتا ہے، عام طور پر اس فصل میں دو قسم کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں گھاس اور چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیوں میں سینجی، پوبلی، پیازی، شاہترہ، مینا،چھتری دودھک، بلی بوٹی للّی، رواڑی، باتھو وغیرہ شامل ہیں۔

جڑی بوٹیوں کے فصل میں موجودگی کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں

  • ا ن کے بیج فصل کے بیج کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں جو کہ فصل کے ساتھ ساتھ اگتے ہیں ۔
  • پچھلے سالوں سے زمین میں موجود ان کے بیج جو کہ سیزن میں فصل کے ساتھ اُگ جاتے ہیں۔
  • ا ٓبپاشی کے پانی کے ساتھ بہہ کے آنے والے جڑی بوٹیوں کے بیج بھی فصل کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں ۔
  • گوبر کی کھاد جو کہ صحیح گلی سڑی نہ ہو بھی جڑی بوٹیوں کا بیج کا ایک سبب ہے
  • ہلکے وزن والے بیج ہوا کےذریعے ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں پہنچ جاتے ہیں جو کہ بعد میں سیزن آنے پر جڑی بوٹیون کی صورت میں اُگ جاتے ہیں
  • اس کے علاوہ زرعی آلات ، جانور اور انسان بھی اکثر جڑی بوٹیوں کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں ۔

جڑی بوٹیوں کے نقصانات

کئی سالوں کی ریسرچ کے بعد چلایا گیا ہے کہ فصل میں جڑی بوٹیوں کی موجودگی سے پیداوار میں 30سے 70 فیصد کمی واقع ہوتی ہے ۔جڑی بوٹیاں فصل کے ساتھ خوراک ،پانی ،ہوا جگہ وغیرہ کے لیے مقابلہ کرتی ہیں اور فصل کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں اور آخر میں ان جڑی بوٹیو ں کے بیج فصل میں کٹا ئی اور گہائی کے بعد شامل ہوکر فصل کی کوالٹی کو بھی خراب کر دیتے ہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سرسوں کینولا اور رایا کی فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھا جائے جس سے نہ صرف اس کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ ہمیں ملنے والی فصل کی کوالٹی بھی بہتر اور خالص ہوگی ۔

فصل سے جڑی بوٹیوں کی تلفی

سرسوں کی فصل کو جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کے مختلف طریقے ہیں جن پر عمل کر کے اس فصل کی اعلیٰ اور صاف ستھری پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔

موزوں اور صاف بیج کا انتخاب

بُوائی کے لیے ایسا بیج استعمال کیا جائے جو اچھی قسم ، جانداار اور جڑی بوٹیوں کے بیجوں سے پاک ہو، کوشش کی جائے کہ کسی اچھے ڈیلر یا ادارے سے بیج خریدا جائے جوکہ آپ کے علاقے کی مناسبت سے ہو۔

کھادوں کا صحیح اور بر وقت استعمال

زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لئے آج کل کھادوں کا استعمال ہر فصل کے لیے ضروری ہے ۔اس فصل میں کھاد کا استعمال کرنے سے پہلے جڑی بوٹیوں کا خاتمہ کر نا چاہیے تا کہ کھاد کا فائدہ صرف فصل کو ہو ورنہ یہ کھاد جڑی بو ٹیاں استعمال کرکے خوب پھیلیں گی اس کے علاوہ اگر گوبر کی کھاد استعمال کرنی ہے تو یہ صحیح گلی سڑی ہوتا کہ اس میں جو دوسرے بیج ہیں وہ مرجائیں اور اُگ نہ پائیں ۔

زمین کی تیار ی

زمین کی تیار ی کے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کے زمین میں موجود جڑی بوٹیوں کے بیج اُگنے کے بعد ہل سے تلف ہوجائیں اس مقصد کے لیے آخر ہل چلانے سے پہلے زمین کی تیار کر کے کچھ دنوں کے لیے چھو ڑدیں تاکہ زمین میں پہلے سے موجود جڑی بوٹیوں کے بیج اُگ جائیں اس کے بعد آخری ہل چلا کر سہاگہ کردیں اس طریقے سے کافی حد تک جڑی بوٹیاں تلف ہوجاہیں گی ۔

سرسوں کی بروقت کاشت

سرسوں اور رایا کی کاشت 15 آکتوبر تک مکمل کر لینی چاہیے کیونکہ دیر سے کاشت کی ہوئی فصل میں جڑی بوٹیاں زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں ۔

کاشت بذریعہ ڈرل

ڈرل سے قطاروں میں کاشت کی گئی فصل سے جڑی بو ٹیوں کا خاتمہ کرنا آسان ہوتا ہے اس مقصد کے لیے مناسب ہل کا استعمال کا بھی کیا جاتا ہے جو کہ فصل کی لائنوں کے درمیان چلائی جاتی ہے۔ مندرجہ بالاتدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی اگر جڑی بوٹیاں رہ جائیں یا دوبارہ اُگ جائیں تو مندرجہ ذیل طریقے سے استعمال کئے جائیں

جڑی بوٹیوں کی تلفی بذریعہ گوڈی

اگر فصل قطاروں میں کاشت کی گئی ہے تو تر پھالی یا روٹر ویٹر سے قطاروں کے درمیان گوڈی کی جاتی ہے اس طریقے سے جڑی بوٹیوں کے خاتمہ کے ساتھ زمین بھی نرم رہتی ہے اور فصل کی نشونما میں مدد دیتی ہے ۔اس کے علاوہ گوڈی کدال کے ذریعے ہاتھ سے بھی کی جاتی ہے تا ہم اس کے لیے وسیع رقبے پر کاشت شدہ فصل کے لیے زیادہ آدمیوں اوروقت کی ضرورت ہوتی ہے

جڑی بو ٹیوں کی تلفی بذریعہ ادویات

جڑ ی بوٹیوں کا خاتمہ آج کل سب سے آسانی سائنسی طریقہ سے کیمیائی ادویات سپرے کر کے کیا جاتا ہے اس طریقے سے نہایت ہی آسان اور کم وقت میں زیادہ رقبے پر جڑی بوٹیوں کی تلف کیا جاسکتا ہے اس مقصد کے لیے کسان کوپورے معلومات ہونی چاہیں ۔یعنی کھیت میں اُگنے والی جڑی بوٹیوں کو تلف کی نوعیت اقسام اور ان کو کنٹرول کرنے والی ادویات اور سپرے کا وقت ۔مارکیٹ میں بہت سی کمپنیوں کی جڑی بوٹیوں کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تاہم اگر مزید مشکلات پیش آئیں تو نزد یکی ادویات کےڈیلر یا زرعی نمائندہ کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے ۔ سرسوں ،رایا اور کینولا میں کچھ جڑی بوٹیوں کے نام اور ان کے تدارک کے طریقے درج زیل جدول میں دئیے گئے ہیں ۔

سرسوں اور رایا کی جڑی بوٹیاں اور ان کا تدارک کے لیے زہروں اور اس کی مقدار

مقدار فی ایکڑ

دوائی کا نام

اردو نام

جڑی بوٹی کا نام

1000 ml

Stamp سٹامپ

ہاتھو

Chenopodium album

500 ml

Pumpa super پوما سپر

ڈیلا

Cyperus rotandus

1900-600 ml

Roundup راونڈاپ

سنجی

Melllotus alba

1000 ml

Oxadiazon آکساڈئزان

رواڑی

Vicia Hirsuta

1200 ml

Trifluralin ٹرائی فلورالین

کھبل

Cynodon dactylon

500 ml

بوما سپر

جنگلی جئی

Avena Fatua

1900-500 ml

Roundup راونڈاپ

دنبی سٹی

Phalaris Minor

1000 ml

Stamp سٹامپ

جنگلی پالک

Rumex acutus

1000 ml 1200 ml

Stamp سٹامپ Trifluralin

للّی

Convolvulus arvensis

--do--

--do--

شاترا

Fumaria Indica

--do--

--do--

پولی

Carthamus Oxycantha

--do--

--do--

جنگلی ہالوں

Coronopus didymus

نوٹ

رائونڈاپ فصل کی کاشت سے ایک ما ہ قبل روانی کے وتر آنے پر جب جڑی بوٹیاں اُگ جائیں اس وقت سپرے کرنی چاہیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو فصل کی روئیدگی اور پیداوار متاثر ہوگی ۔


پاکستان میں روڈز گراس کی کاشت

PAR Jul 9, 2020 193

نگران : ڈاکٹر آصف اقبال ، محمد ناصر شعبہ ایگرانومی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

روڈز گراس متعدد کٹائیاں دینے والد موسم خریف کا ایک لذیز چارہ ہے اسے زیادہ تر ساوتھ افریقہ، امریکہ اور آسڑیلیا میں کاشت کیا جاتاہے۔ پاکستان میں روڈز گراس پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں کاشت کی جارہی ہے۔ غذائی اعتبار سے روڈز گراس میں9-12 فیصد لحمیات اور 28-29 فیصد ریشہ پایا جاتا ہے۔ چارے کی قلت کو دور کرنے کیلیئے روڈز گراس ایک اچھا متبادل ہے۔ چار سال تک متواتر روڈز گھاس سے سال میں 5-6 کٹائیاں لی جا سکتی ہیں۔ اگر ہم روڈ زگراس کا دوسرے چاروں کے حوالے سے تقابلی جائزہ لیں تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم اس سے کثیر مقدار میں خشک چارہ (Hay) بنا سکتے ہیں خشک چارے کے حوالے سے پاکستان میں روڈز گراس اور لوسرن کو بہتر خیال کیا جاتاہے۔ لیکن لوسرن کے حوالے سے پاکستان میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ جب ہم اس کاخشک چارہ بناتے ہیں تو اس کے پتے گر کر ضائع ہوجاتے ہیں اور کثیر مقدار میں لحمیات ضائع ہو جاتی ہیں۔ جبکہ روڈز گراس میں یہ مسئلہ نہیں آتا۔ دوسرا یہ کہ روڈز گراس کی پیدوار لوسران کے مقابلے میں تقریباََ دوگنی ہے۔

وقت کاشت :

روڈذ گراس کی کاشت کیلیئے موزوں ترین وقت فروری ہے تاہم اسے مارچ، اپریل سے اگست ، ستمبر کے درمیان بھی کاشت کیا جا سکتاہے۔

شرح بیج

روڈز گراس کی بجائی کیلیئے4کلو بیج فی ایکڑ استعمال کرنا چاہیے۔ اس کی اقسام میں Katambora ،Finecut اورTopcut وغیرہ شامل ہیں۔ جو زیادہ پیداوار کی حامل ہیں۔ ان اقسام میں جھاڑ بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے۔ اوپہلی کٹائی بجائی کے 50-60 دن بعد برداشت کیلیئے تیار ہو جاتی ہے۔

طریقہ کاشت

روڈز گراس کی کاشت کیلیئے زمین اچھی طرح ہموار ہونی چاہیے۔ اسے لائنوں میں اور بذریعہ چھٹہ بھی کاشت کیا جا سکتاہے۔ لائنوں میں کاشت کرنے کیلیئے مناسب فاصلہ 30-45 cm ہے۔ کاشت سے قبل کھیت میں پانی لگائیں۔ اور بیج کو نم مٹی میں شامل کر کے تر وتر حالت میں چھٹہ یا لائنوں میں لگائیں۔

کھادوں کا استعمال:

متوازن کھادوں کا استعمال کسی بھی فصل سے اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ روڈز گراس سے زیادہ پیداوار لینے کے لیئے 23 کلوگرام نائٹروجن اور 23 کلوگرام فاسفورس فی ایکڑ استعمال کریں۔ نائٹروجن کھاد کو ہر کٹائی کے بعد استعمال کرنا چاہیے۔ تاکہ یہ پودے کی دوبارہ پھوٹنے کی صلاحیت میں کارگر ثابت ہو ۔ ہر کٹائی کے بعد ایک بوری یوریا فی ایکڑ استعمال کریں۔

آبپاشی:

روڈزگر اس کی فصل خشک سالی کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی جڑیں 2-4 میٹر گہرائی تک جا سکتی ہیں۔ اسے بارانی علاقوں میں بھی کامیابی سے کاشت کیا جاتا ہے۔ نہری علاقوں میں پانی بوائی کے ایک ہفتہ بعد جبکہ باقی پانی 15 دن کے وقفہ سے دیناچاہیے۔

وقت برداشت:

پہلی کٹائی 2 ماہ بعد کریں اور بعد میں 30-40 دن کے وقفے سے سال میں 6 تا 7 کٹائیاں آسانی سے لی جا سکتی ہیں۔

خشک چارہ:

چارے کی قلت اور موسمی صورت ِتحال کے پیش نظر کیثر سبز چارے کو خشک حالات میں بھی محفوظ کیا جا سکتاہے۔ خشک چارہ بنانے کیلیئے فصل کو 40 دن کے وقفے سے کاٹ لیں۔ اور درجہ ذیل نکات مدنظر رکھیں۔

  • خشک چارے کیلئے اس میں پتوں سے بھرپور حصہ زیادہ ہونا چاہیے۔
  • یہ مٹی اور دیگر آلائشوں سے پاک ہو
  • چارہ کاٹنے کے بعد اسے کھلی ہوا دار اور صاف زمین پر پھیلادیں۔ دن میں 3-4 مرتبہ الٹتے رہیں تاکہ چارہ اچھی طرح خشک ہو اور اس میں نمی کی مقدار کم ہو جائے 3-4 دن بعد چارہ خشک ہو جاتاہے۔ اور اسے آئندہ استعمال کیلیئے ہوادار کمرے میں ذخیرہ کر لینا چاہیے۔ علاوہ ازیں خشک چارہ کو بیرون ملک برآمد کرکے کیثر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔

بیج کا حصول:

فروریتا اپریل کاشتہ روڈز گراس سے بیج کے حصول کے لیے فصل کو ستمبر کے بعد نہیں کاٹنا چاہیے۔ اکتوبر میں پھول بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ بیج کے حصول کے لیے 20-25 دن پہلے آبپاشی روک لیں۔ بیج جھڑنے سے بچانے کے لیے گچھوں کو درانتی کی مد د سے کاٹ لیں۔ اور خشک جگہ پر رکھ دیں۔ خشک ہونے پر بیج کو آسانی سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ حاصل شدہ بیج کو ہوا دار تھیلے میں محفوظ کر لیں۔

پیداوار:

چارے والی فصلوں میں روڈز گراس بہت زیادہ چارہ دینے والی گھاس ہے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں کیے گئے تجربات کے مطابق دو کٹائیوں سے تقریباََ 50 ٹن فی ہیکڑ چارہ حاصل ہوا اور بیج کی پیدوار تقریباََ 160 کلوگرام فی ہیکٹر حاصل کی گئی۔


ایم او پی (میوریٹ آف پوٹاش)

PAR Jul 9, 2020 193

پوٹاش کے حصول کا بہتر ذریعہ

پودوں کو اپنی نشونما کیلئے سولہ اجزائے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں وہ زمین، ہوا اور پانی سے حاصل کرتے ہیں۔ ان غذائی اجزاء کو پودوں کی ضرورت کے پیش نظر اجزاء کبیرہ، ثانوی اجزائا اور اجزائے صغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اجزائے کبیرہ (نائٹروجن، فاسفورس، اور پوٹاش) ایسے اجزاء جو پودے کو نشانما کیلئے زیادہ مقدار میں مطلوب ہوتے ہیں جبکہ ثانوی اجزائے (کیلشیم، میگنیشم، اور سلفر) جنہیں پودے اپنی نشانما کیلئے اجزائے کبیرہ کی نسبت کم لیکن اجزائے صغیرہ سے زائد مقدار میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ اجزاء جن کی پودوں کو کم مقدار میں ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں اجزائے صغیرہ کہتے ہیں۔ ان میں زنک ، بوران، آئرن، تانبا، مینگانیز، مولیڈینم اور کلورین شامل ہیں۔ پودوں کو ان اجزاہ کی فرائمی کیلئے نامیاتی کھادوں کے ساتھ ساتھ کیمیائی کھادوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستانی زمینوں میں پوٹاش کی کیفیت

گزشتہ ساٹھ سالوں میں ہمارے ملک میں کھادوں کے استعمال میں کا فی اضافہ ہوا ہے تاہم کھادوں کے استعمال سے متعلق آگائی میں کمی کے باعث ان متناسب ااستعمال فروغ نہیں پاسکا۔ اس وقت پاکستان میں نائیٹروجن، فاسفورس، اور پوٹاش کے استعمال کا تناسب 0.03:1:4 (2014-14) ہے جوکہ فی ایکڑ پیداوار میں کمی کی چند وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔ فصلوں کی اچھی پیداوار کیلئے نائٹروجن، فاسفورس، اور پوٹاش کا تناسب 0.5:1:2 ہونا چاہیے۔ کھادوں کے غیرمتوازن استعمال کے ساتھ ساتھ زیادہ پیداواری صلاحیت والی فصلوں کی کاشت، نامیاتی مادے کی کمی اور اس کا کم استعمال۔ زیادہ درجہ حرارت اور اساسی کیمیائی تعامل زمین میں ان اجزاء کی کمی باعث ہیں۔ ہماری ہاں دیگر کھادوں کی نسبت نائٹروجن والی کھادوں کا استعمال بہتر ہے جبکہ فاسفورسی کھادوں کے استعمال میں بھی معمولی اضافہ ہوا ہے تاہم پوٹاشیم والی کھادوں کا استعمال فروغ نہیں پاسکا۔ کھادوں کے غیر متوازن استعمال سے زمینوں میں دیگر اجزاء کے ساتھ ساتھ پوٹاشیم کی کمی میں بھی بتریج اضافہ ہوا ہے۔ اور فوجی فرٹیلائزر کمپنی تجربہ اراضی کی لیبارٹریوں میں تجزیہ کئے گئے مٹی کے 4 لاکھ سے زائد زمینوں میں پوٹاشیم کی کمی واقع ہو چکی ہے۔

پوٹاشیم کا پودوں میں کردار

پوٹاشیم پودے کے بہت سے افعال میں کلیدی کردار سرانجام دیتا ہے۔ یہ پودے کے کم وبیش 60 مختلف خامروں کیلئے ضروری جز ہے جو پودے کی نشونما اور دیگر افعال میں بطور عمل انگیز کام کرتے ہیں۔ یہ جڑوں کی بہتر نشونما اور پتوں میں موجود مساموں کے کھلنے اور بند ہونے کے نظام کا اہم حصہ ہے۔ زمین سے پانی اور خوراک کے بننے اور اسکی اور ترسیل، ضیائی تالیف کے عمل کا اہم حصہ زمین سے پانی اور خوراک کی اجزاء کے حصول اور ترسیل، ضیائی تالیف کے عمل کی موثر تکمیل اور خوراک (نشاستہ اور لحمیات) کے بننے اور ترسیل میں معاون ہے۔ نیز یہ فصل کو گرنے سے بچاتا ہے، بیماریوں اور کیڑوں کے خلاف مدافعت پیدا کرتا ہے اور خشک سالی کو برداشت کرنے میں معاون ہے۔ پودوں میں پوٹاشیم کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے وہ زمین سے پوٹاش کا حصول نائیٹروجن اور فاسفورس سے کہیں زیادہ کرتے ہیں۔

پوٹاشیم کی کمی کی علامات

پوٹا شیم کی کمی پودوں میں پتوں کے بگاڑ کے علاوہ پتوں کے جھلسائو کا باعث بنتی ہے۔پتے کناروں سے پہلے ہو کر آہستہ آہستہ سوکھ جاتے ہیں پوٹاشیم کی کمی کی علامات عموماً نچلے اور درمیان والے پتوں پر ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کی کمی سے پودوں کی جڑیں کمزور رہ جاتی ہیں اور ان میں بیماریوں اور کیڑوں کے خلاف قوت مدافعت بھی کم ہوجاتی ہے۔

پوٹاشیم کی کمی دور کرنے کے طریقے

پوٹا شیم کی کمی کو نامیاتی کھادوں کے علاوہ کیمیائی کھادوں کے استعمال سے دور کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ ھمارے ملک میں نامیاتی کھادوں کی دستیابی بہت کم ہے۔ اس لئے پوٹاشیم کی کمی کو دور کرنے کیلئے کیمیائی کھادوں کا استعمال ناگزیر ہوگیا ہے۔ جن میں دو کھادیں ایس او پی (میوریٹ آف پوٹاش) سرفہرست ہیں۔ ہمارے ملک کی زمینوں میں پوٹاشیم کی بڑھتی ہوئی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور متوازن کھادوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے پوٹاشیم والی کھاد میوریٹ آف پوٹاش (ایم او پی) درآمد کر کے ملک بھر میں کاشتکاروں تک پہنچانے کا بندوبست کیا ہے۔

ایم او پی کی افادیت

  • ایف ایف سی ایم او پی پودوں کے قد وقامت ،زائقہ اور کوالٹی کو بہتر کرتی ہے۔
  • ایف ایف سی ایم او پی شکر ونشاستہ بنانے اور پودوں کے مختلف حصوں میں پہنچانے میں مدد کرتی ہے۔جس سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
  • ایف ایف سی ایم او پی پودوں میں مختلف بیماریوں اور ضرررساں کیڑوں کے خلاف قوت مدافعت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تنے کو مظبوط کرتی ہے جس سے فصل گرنے سے حفوظ رہتی ہے۔
  • ایف ایف سی ایم او پی کا کھیت میں با آسانی چٹھہ کیا جاسکتا ہے۔

ایم او پی کا استعمال

ایف ایف سی ایم او پی میں 60 فیصد پوٹاش کی مقدار موجود ہوتی ہے جوکہ پوٹاش والی دیگرکھادوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اسکی حل پذیری 99.8 فیصد ہونے کی وجہ سے یہ جلد پانی میں حل ہوکر پودوں کو دستیاب ہوجاتی ہے۔ اسے دوسری کھادوں کے ساتھ ملاکر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے ان کھادوں کی افادیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ پوٹاش کے استعمال سے پہلے زمین کا تجربہ کروالینا چاہیے تاکہ اس کی مقدار کا صحیح تعین کیا جاسکے۔ فوجی فرٹیلائزر کمپنی ملک بھر میں کاشتکاروں کو تجزیہ زمین کی سہولت مفت بہم پہنچا رہی ہے اس ضمن میں فوجی فرٹیلائزر کے قریبی ڈیلر، ریجنل آفس میں موجود زرعی ماہر یا فارم ایڈوائزری سینٹر سے رابطہ کریں۔ تاہم اگر آپ کسی وجہ سے زمین کا تجزیہ نہیں کرواسکے تو درمیانی زرخیز زمینوں پر ایف ایف سی ایم اوپی کا استعمال مختلف فصلوں کیلئے درج زیل عمومی سفارشات کے مطابق ہیں۔ ہماری ہاں دیگر کھادوں کی نسبت نائٹروجن والی کھادوں کا استعمال بہتر ہے جبکہ فاسفورسی کھادوں کے استعمال میں بھی معمولی اضافہ ہوا ہے تاہم پوٹاشیم والی کھادوں کا استعمال فروغ نہیں پاسکا۔ کھادوں کے غیر متوازن استعمال سے زمینوں میں دیگر اجزاء کے ساتھ ساتھ پوٹاشیم کی کمی میں بھی بتریج اضافہ ہوا ہے۔ اور فوجی فرٹیلائزر کمپنی تجربہ اراضی کی لیبارٹریوں میں تجزیہ کئے گئے مٹی کے 4 لاکھ سے زائد زمینوں میں پوٹاشیم کی کمی واقع ہوچکی ہے۔

(مقدار بوری فی ایکڑ)

فصل

ایف ایف سی ایم او پی

فصل

ایف ایف سی ایم او پی

فصل

ایف ایف سی ایم او پی

گندم

3/4

بی ٹی کپاس (اگیتی)

1-3/4

مکئی (روائتی)

1-1/4

دھان (باسمتی)

3/4

بی ٹی کپاس (پچھتی)

1-1/4

مکئی ہائبرڈ

1-1/4

دھان (اری)

1

روائتی کپاس

3/4

آلو

1-3/4

گنا

1-3/4

سورج مکھی

3/4

کینولا

3/4

طریقہ استعمال :تمام ایف ایف سی ایم او پی بوائی کے وقت دیگر کھادوں کے ساتھ ملاکر استعمال کریں۔

فصل

ایف ایف سی ایم او پی

طریقہ استعمال

کیلا

3/4 بوری ایکڑ (ہر ماہ)

ایف ایف سی ایم او پی فروری تا اکتوبر ہر ماہ دیگر کھادوں کے ساتھ ملا کر استعمال کریں۔

ترشادہ پھل

3/4 تا1-1/4

ایف ایف سی ایم او پی کی ساری مقدار پھول آنے سے 2 تا 3 ہفتے پہلے دیگر کھادوں کے ساتھ ملاکراستعمال کریں۔

آم

3/4 تا1-1/4

ایف ایف سی ایم او پی کی آدھی مقدار پھل کی برداشت کے بعدڈالیں اور باقی مقدار جب پھل مٹر کے دانے کے برابر ہو جائے تو استعمال کریں۔


Related Websites

زرعی کتابیں Agriculture Ebooks Agriculture Videos Agri TripleIS Grow TripleIS

Related Apps

Kissan Dost Agri Books (URDU) Agri Digital Library Agri Trade Directory Job Profile

Social Media

Youtube Facebook Instagram Twitter Linkedin Pinterest

Quick Link

  • Price
  • Weather
  • Contact Us
  • زرعی رہنمائی

+92 (213) 2428911-13
کراچی ، پاکستان
support@par.com.pk
  • Homepage
  • Cotton
  • Sugar
  • Wheat
  • Price
  • Weather
  • Contact Us
  • زرعی رہنمائی

© کاپی رائٹ پاکستان زراعت ریسرچ 2020 ۔ تمام حقوق محفوظ ہیں